نبی اکرم  کے وقت کے حالات اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق واقع ہو گیا ہے. وقت کے دریا میں بہت سا پانی بہہ چکا ہے. حضور  نے ۶۲۲ء میں مدینہ کی طرف ہجرت کی. اس لحاظ سے اب ۱۳۷۱ برس بیت چکے ہیں (خطاب کے وقت تک). چنانچہ حضور  اور آج کے حالات میں جو فرق واقع ہوگیاہے اس کا ادراک ضروری ہے. اگر حالات مرورِ زمانہ کے باوجود جوں کے توں رہتے تو اجتہاد کی کیا ضرورت تھی. ایسی صورت میں حضور  کے منہج کی پیروی جوں کی توں کرنی ہوتی.

بہرحال میں نے جہاں تک غور کیا ہے ‘اِس وقت کے حالات میں دو تبدیلیاں تو منفی نوعیت کی ہیں جب کہ ایک تبدیلی مثبت اعتبار سے واقع ہوئی ہے. ان دونوں قسم کی تبدیلیوں سے ایک نتیجہ نکلتا ہے جس کا ذکر میں بعد میں کروں گا.
ایک منفی تبدیلی تو یہ ہوئی کہ حضور  اور آپؐ کے ساتھیوں کا واسطہ کھلے کافروں سے تھا‘جبکہ آج اسلامی تحریکوں کا راستہ روکنے والے کوئی اور نہیں خود مسلمان ہیں. 
(۲۹نظامِ خلافت کے برپا ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی مسلمان ہیں. مصر میں حسنی مبارک اورشام میں حافظ الاسد اخوان کے ساتھ ‘اسی طرح الجزائر میں مسلمان فوجی اسلامی تحریک کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے. ہمارے اپنے ملک میں نظامِ مصطفی  کی تحریک پر گولیاں چلانے والے بھی مسلمان ہی تھے. گویا حالات میں یہ بہت بڑی تبدیلی واقع ہو چکی ہے. آج نظام خلافت کو برپا کرنے کے لیے پہلے ان نام نہاد مسلمانوں سے ٹکر لینا پڑے گی ‘اس کے بعد کہیں جاکر معاملہ کفار کے ساتھ ہو گا.

حضور  کے عہد ِمبارک اور ہمارے دور میں ایک اور تبدیلی یہ واقع ہو گئی ہے کہ آپ ؐ کے عہد مبارک میں کوئی باقاعدہ حکومت اور standing army نہیں تھی‘ گویا مقابلہ انسانوں کا انسانوں سے تھا.تلواروں کا تلواروں سے‘نیزوں کا نیزوں سے‘گھوڑوں کا گھوڑوں سے اور اونٹوں کا اونٹوں سے تھا. اگر کوئی فرق تھا تو تعداد کا تھا. آپ نفری کے فرق کے ساتھ ساتھ اسلحہ کے فرق کو بھی پیش نظر رکھیں تو بھی زیادہ سے زیادہ ایک اور سو کی نسبت بنے گی‘اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی. آج معاملہ ہی کچھ اور ہو گیا ہے. اِس وقت جو نظام سرمایہ دارانہ‘ جاگیردارانہ اور ملوکیت پر مبنی موجود ہیں‘ان نظاموں کے چلانے والوں کے مفادات ان سے وابستہ ہیں. وہ ان نظاموں سے بے پناہ مراعات حاصل کر رہے ہیں. ان کی مراعات اور مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے پاس مستقل افواج موجود ہیں. یہ مستقل فوجیں پیرا ملٹری فورس‘پولیس‘ آرمی اور ائیر فورس پر مشتمل ہیں. برسراقتدار مفاد پرست طبقات باغیوں کو کچلنے کے لیے ائیر فورس کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتے. خود ہمارے ملک کے اندر بلوچستان میں ائیرفورس استعمال کی جا چکی ہے. اسی طرح حافظ الاسد نے ائیرفورس کے ذریعے ’’حمص‘‘ کے شہر کو تہس نہس کر دیا تھا جو کہ الاخوان المسلمون کا مرکز بن گیاتھا. لہذا ان دو منفی تبدیلیوں کی وجہ سے مقابلہ بہت ہی غیر مساویانہ ہو گیاہے.

تاہم ان دو منفی تبدیلیوں کے علاوہ ایک مثبت تبدیلی بھی ہوئی ہے. وہ مثبت تبدیلی یہ ہے کہ رسالت مآب  کے ایک ہزار سال بعد تک بھی انسان کا عمرانی شعور اس سطح تک نہیں پہنچا تھا کہ وہ ریاست اور حکومت میں فرق کر سکے. آج انسان کا عمرانی شعور یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ وہ ریاست کو الگ شے سمجھتا ہے اور حکومت کو ریاست کا محض ایک عنصر گردانتا ہے. حکومت دراصل ریاستی امور کو چلانے کا ایک ادارہ ہے. شہریوں کی وفاداری ریاست کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے نہ کہ حکومت کے ساتھ‘بلکہ حکومت کو تبدیل کرنا شہریوں کا حق ہے. یہ ایک عظیم فرق ہے. اس فرق کے اثرات و نتائج کا اچھی طرح ادراک کر لینا ضروری ہے.

عمرانی ارتقاء سے پیدا ہونے والے اس فرق کو اگر سامنے رکھا جائے تو اب مسلح تصادم کے مرحلے کا متبادل بھی موجود ہے. میں مسلح بغاوت (یعنی خروج) کو حرام ہرگز نہیں سمجھتا. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا فتویٰ موجود ہے کہ یہ جائز ہے‘ اگرچہ انہوں نے اس کے لیے کڑی شرطیں عائد کی ہیں. ان کا کہنا یہی ہے کہ طاقت اتنی ہو جائے کہ کامیابی یقینی نظر آنے لگے. بحالاتِ موجودہ ان کی یہ شرط پوری ہونا مشکل ہے. تاہم اگر یہ شرط پوری ہو جائے تو پھریہ مسلح بغاوت جائز ہے. مختلف ممالک کے حالات میں بھی فرق ہوتا ہے. مثلاً کسی پہاڑی ملک میں گوریلا جنگ کامیاب ہو سکتی ہے‘ لیکن ہمارے ملک کے حالات اس طرح کی گوریلا جنگ کے متحمل نہیں ہیں. پاکستان کے حوالے سے یہ چیز تقریباً محال ہے. گویا اصولاً مسلح بغاوت حرام نہ ہونے کے باوجود عملاً قابل عمل (feasible) نہیں ہے.