اب میں آپ کے سامنے نہی عن المنکر کے حوالے سے دو احادیث مبارکہ پیش کر رہا ہوں. ایک حدیث تو وہی ہے جو میں نے خطبے کے آغاز میں پڑھی تھی. یہ حدیث حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. صحیح مسلم شریف کی روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ‘فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ

’’تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ (یعنی طاقت) سے بدل دے ‘اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے (اسے برا کہے اور) اسے بدلنے کی کوشش کرے ‘اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے دل سے برا جانے‘اور یہ ایمان کا سب سے کمزوردرجہ ہے.‘‘

گویا اگر برائی سے دلی نفرت بھی نہیں او راس کو بدلنے کا دل میں ارادہ بھی نہیں تو پھر ایسے شخص کے دل میں ایمان ہی نہیں ہے. 

اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب تک طاقت نہیں ہے ’’نہی عن المنکر باللسان‘‘ کا فریضہ ادا کیا جاتا رہے. چنانچہ ہم زبان سے کہتے رہیں گے کہ یہ حرام ہے‘یہ جاگیرداری‘یہ سودی نظام جائز نہیں‘وغیرہ وغیرہ. جب طاقت حاصل ہو جائے گی تب نظامِ باطل کومیدان میں چیلنج کیا جائے گا‘یعنی ’’نہی عن المنکر بالید.‘‘

یہی مضمون ایک دوسری حدیث مبارکہ میں زیادہ واضح ہو کر آیا ہے. اس کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ بھی صحیح مسلم شریف کی روایت ہے: مَا مِنْ نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ اِلَّا کَانَ لَہٗ فِیْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ یَّــاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَـقْتُدُوْنَ بِاَمْرِہٖ‘ ثُمَّ اِنَّـھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَّــقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُـؤْمَرُوْنَ‘ فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَلَـیْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ

’’مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی کسی اُمت میں اٹھایا تو اس کی امت میں سے اس کے ایسے حواری اور اصحاب ہوتے تھے جو اپنے نبی کی سنت کو تھامے رکھتے اور اس کے حکم کی اطاعت کرتے. پھر ان کے بعد ان کے ایسے نالائق جانشین آتے جن کا حال یہ تھا کہ جو کہتے اس پر عمل نہ کرتے اور وہ کام کرتے جن کا ان کو حکم نہیں دیا جاتا. تو ایسے لوگوں سے جو شخص ہاتھ (قوت و طاقت) سے جہاد کرے وہ مؤمن ہے‘اور جو شخص ان سے زبان سے جہاد کرے وہ مؤمن ہے‘اور جو شخص ان سے دل سے جہاد کرے (یعنی دل میں کڑھے) وہ بھی مؤمن ہے. اور اس کے بعد تورائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے.‘‘

یہ ایک بڑی جامع حدیث ہے. اُمتوں کے زوال کا پورا فلسفہ اس میں موجود ہے. اس لیے کہ قول و فعل کا تضاد ہی اُمتوں کو زوال سے دو چار کرتا ہے‘جیسا کہ آج ہمارا حال ہو گیا ہے کہ ہم دعویٰ کرتے ہیں عشق رسولؐ کا‘لیکن اتباعِ رسول  سے مکمل گریز ہے. البتہ بدعات و خرافات کا ایک طومار ہے کہ جس کو دین بنا کر رکھ دیا گیا ہے.