نظام خلافت قائم کرنے کی جدوجہد فرضِ عین ہے

انقلابی جدوجہد کے تمام مراحل کو بیان کر دینے کے بعد مجھے دو باتیں مزید کہنی ہیں. پہلی بات یہ کہ نظام خلافت قائم کرنے کی جدوجہد ہر مسلمان کے لیے فرضِ عین ہے. یہ عین اس کے ایمان کا تقاضا ہے‘ورنہ مذکورہ بالا حدیث کے مطابق وہ قول و فعل کے تضاد کا مرتکب ہو رہا ہے کہ دعویٰ تو کرتا ہے اللہ پر ایمان کا‘مگر اللہ کا دین پامال ہوتے دیکھتا ہے اور اپنے کاروبار کو چمکانے میں مشغول ہے. اس وقت دین جس قدر مغلوب ہے اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے‘بقول مولانا الطاف حسین حالی: ؎

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مدہے ہر جزر کے بعد دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے 

مولانا حالی نے مناجات بحضور ختم المرسلین  میں عرض کیا ہے:
اے خاصۂ خاصانِ رسلؐ وقت ِدُعا ہے اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے

ایک طرف دین کی پستی کا یہ عالم ہے‘دوسری طرف ہماری بے غیرتی اور بے حمیتی کی کیفیت یہ ہے کہ بس اپنے کاروبار‘اپنی جائیداد اور اپنے معاملات میں جتے ہوئے ہیں.ہمیں فکر ہے تو اپنی کاروں کے ماڈل کی اور اپنے ٹیلی ویژن اسکرین کے سائزکی. 

غلبہ ٔدین کی جدوجہد کو فرضِ عین قرار دینے کے سلسلے میں ایک اور نکتے کا اضافہ کروں گا اور وہ یہ ہے کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں فقط وہیں غلبہ ٔدین کی جدوجہد فر ضِ عین نہیں ہے‘بلکہ اگر کہیں صرف ایک ہی مسلمان ہے تو اس پر بھی فرض ہے کہ وہ دین کے غلبے کی جدوجہد کرے. اگر اللہ تعالیٰ ساڑھے نو سو برس کی زندگی دے تو اس ساری زندگی میں یہی کام کرتا رہے. یہ کام تب بھی کرنا ہے جب کوئی شخص مانے اور تب بھی کرنا ہے جب کوئی شخص نہ مانے. قرآن نے ہمارے سامنے حضرت نوح علیہ السلام کی مثال رکھی ہے. وہ اللہ کا بندہ ساڑھے نو سوبرس استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑا رہا ‘مگر اس طویل محنت سے کتنے لوگ ایمان لائے؟ اگر وہ کام چھوڑ کر بیٹھ جاتے تو ناکام قرار پاتے‘ مگر وہ کام کرتے رہے. قوم نہیں مانی تو قوم ناکام ہے ‘ جبکہ اپنا فرض ادا کرنے کی وجہ سے وہ خود کامیاب رہے.

سیرتِ مطہرہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہے کہ کہیں اگر ایک مسلمان بھی ہے تو اس پر بھی دعوتِ دین اور اقامت ِدین فرض ہے. نبی اکرم نے جب کام کا آغاز کیا تو آپؐ تنہا تھے. ہمارے لیے اسوۂ کاملہ حضور ہیں‘اس لیے کہ قرآن کریم نے 
کہا ہے لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ البتہ ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ آپؐ نے جو کام بیس برس کے مختصر عرصے میں انجام دیا اب شاید وہ کئی سو برس میں مکمل ہو.

چنانچہ دیکھئے! یہ کام برعظیم پاک و ہند میں تقریباً چار سو سال سے انجام دیا جا رہا ہے. کام کا آغاز حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ سے ہوا. اس کے بعد دعوتِ قرآنی امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے شروع کی. پھر پچھلی صدی میں جہاد و قتال کا نمونہ سید احمد شہید بریلوی اور حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ نے دکھایا. یہ سارا کام تدریجاً ایک نکتے کی طرف بڑھ رہا ہے. یہ بات میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ مشیت ِایزدی میں اس خطے کی کوئی خاص اہمیت ضرور ہے. اس لیے کہ ایک ہزار برس تک تمام مجددین ملت عالم عرب میں پید اہوئے‘مگر جونہی الف ثانی (سن ہجری کا دوسرا ہزار) کا آغاز ہوا تو مجددیت کا سلسلہ ہندوستان میں شروع ہو گیا. گیارھویں صدی کے مجدد شیخ احمد سرہندیؒ ہیں‘جن کے بارے میں علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا: ؎ 

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے گرمی ٔ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار 

حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے بعدحضرت شاہ ولی اللہؒ پیدا ہوئے جو بارھویں صدی کے مجدد ہیں.حضرت شاہ صاحب حقیقتاً مجددِ علومِ اسلامی تھے. ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ملت مسلمہ کو پھر سے قرآن کی طرف متوجہ کیا‘جبکہ قرآن سے بے اعتنائی اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ اسے صرف حصولِ ثواب کا ذریعہ سمجھ لیا گیا تھا. یہ حضرت شاہ ہی کی تحریک کا اثر ہے کہ پچھلے تین سو برسوں میں قرآن حکیم پر سب سے زیادہ علمی و فکری کام برعظیم پاک و ہند میں ہی ہوا ہے. باقی پوری دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے. 

میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ نظام خلافت کا قیام اور اقامت ِدین کا کام تدریجاً ہو گا. چنانچہ اس وقت بیسویں صدی میں یہ کام بھرپور اور جامع تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے. اب اس صدی کی تیسری نسل میں یہ کام ہو رہا ہے اور کام کو اس منزل تک پہنچانے میں بہت سے لوگوں کی محنت شامل ہے. آج سے اٹھاسی برس قبل مولانا ابوالکلام آزادؒ ۱۹۱۲ء میں حکومت ِالٰہیہ کا نعرہ لے کر اس ملک میں کھڑے ہوئے تھے. انہوں نے بیعت ہی کی بنیاد پر ’’حزب اللہ‘‘ قائم کی تھی. ’’الہلال‘‘ اور’’ البلاغ‘‘ کے ذریعے دعوت رجوع الی القرآن کا غلغلہ بلند کر دیا تھا. اس کے علاوہ نوجوان مبلغینِ قرآن پیدا کرنے کے لیے کلکتہ میں ’’دار الارشاد‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا‘تاکہ فکر ِقرآنی کو عام کیا جا سکے. گویا برعظیم پاک وہند میں بھی یہ جدوجہدکم از کم اسّی (۸۰) برس پرانی ہو کر اب تیسری نسل میں داخل ہو چکی ہے. جو کام رسول اللہ  نے ایک life span میں کر دیا تھاوہ اب اگر تین چار نسلوں میں مکمل ہو جائے تب بھی یہ بہت بڑی کامیابی ہے. مولانا ابوالکلام آزاد نے جس کام کا آغاز ۱۹۱۲ء میں کیا تھا وہ اس کو جاری نہ رکھ سکے. ان کی اس بددلی کے کئی اسباب تھے‘جن میں سے ایک بڑا سبب قدامت پسند علماء کا اختلاف بھی تھا. (۳۰)

مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے جس کام کو چھوڑ دیا تھا اس کا بیڑا دوبارہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اٹھایا. مولانا آزاد مرحوم نے حزب اللہ قائم کی تھی‘ جبکہ مولانا مودودی مرحوم نے جماعت اسلامی کی داغ بیل ڈالی. اگرچہ ان سے یہ کوتاہی ہو گئی کہ انہوں نے اس کی بنیاد نظام بیعت پر نہ رکھی. مولانا آزاد نے ایک ادارہ ’’دارالارشاد‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا‘جبکہ مولانا مودودی مرحوم نے علامہ اقبال کے ایک عقیدت مند کے ذریعے ’’دارالاسلام‘‘ بنایا . مولانا ابوالکلام آزاد اپنے کام کو سات آٹھ سال ہی جاری رکھ سکے‘جب کہ مولانا مودودی مرحوم بھی جماعت اسلامی قائم کرنے کے بعد اپنے اصولی انقلابی طریقہ کار پر سات آٹھ سال ہی کاربند رہ سکے اور پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی کو انتخابی سیاست میں الجھا دیا. اس طرح وہ ایک اصولی اسلامی انقلابی تحریک کی بجائے محض ایک قومی سیاسی جماعت بن کر رہ گئی اور انتخابی سیاست کی دلدل میں پھنس جانے کے بعد جماعت اسلامی کا انقلابی کردار ختم ہو کر رہ گیا.