سلسلۂ تنزلات کا مرحلۂ اوّل اور اس سے متعلق اصطلاحاتِ قرآنی

وحی ٔ آسمانی ’’تکوین‘‘ یا ’’ایجاد و ابداع‘‘ کی اساس اللہ تعالیٰ کے کلمۂ ’’کُن‘‘ کو قرار دیتی ہے - بفحوائے آیاتِ قرآنیہ:
۱
وَ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (البقرہ: ۱۱۷)
۲اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (آل عمران: ۴۷)
۳سُبۡحٰنَہٗ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿ؕ۳۵﴾ (مریم: ۳۵)
۴فَاِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿٪۶۸﴾ (المومن: ۶۸)

یہ چاروں آیات تو تقریبًا ہم معنی ہیں - اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس کے لئے اس کا بس یہ کہنا کفایت کرتا ہے کہ ’’کُن‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے - البتہ دو مزید آیات میں ذرااطناب کا انداز ہے:

۵اِنَّمَا قَوۡلُنَا لِشَیۡءٍ اِذَاۤ اَرَدۡنٰہُ اَنۡ نَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿٪۴۰﴾ (النحل: ۴۰)
’’جب ہم کسی چیز کا ارادہ کر لیتے ہیں تو اس کے لئے بس ہمارا یہ کہنا ہی (کافی) ہوتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے!‘‘

۶اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾ (یٰس: ۸۲)
’’اس کے اَمر (کی شان) تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرما لیتا ہے تو (بس یہ) کہتا ہے کہ ’ہو جا‘ تو وہ ہو جاتی ہے.‘‘

یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم جہاں اللہ تعالیٰ کے فرامین و فرمودات‘ اوامر و احکام‘ نوامیس و قوانین اور فیصلوں اور طے شدہ امور کو ’’کلمات‘‘سے تعبیر کرتا ہے وہاں مندرجہ ذیل دو آیات میں اس کا پورا امکان موجود ہے کہ ’’کَلِمٰتُ رَبِّیۡ ‘‘ اور ’’کَلِمٰتُ اللّٰہِ ‘‘ کے لاتعداد ہونے سے مراد جہاں اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کا لامحدود ہونا ہو وہاں اس کی ’’مخلوقات‘‘ کا ’’لَا یُحْصٰی‘‘ ہونا بھی ہو‘ اس لئے کہ فی الواقع اُس کی ’’مخلوقات‘‘ ہی اس کے کمالِ علم‘ کمالِ حکمت اور کمالِ قدرت کی نشانیاں یعنی ’’آیات‘‘ ہیں. اس معنی میں گویا ہر مخلوق اللہ کے ایک کلمۂ ’’کُن‘‘ کا ظہور ہے:
۱
قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا ﴿۱۰۹﴾ (الکھف: ۱۰۹)

’’کہہ دو کہ میرے پروردگار کے کلمات کے لئے اگر سمندر روشنائی بن جائے تو وہ بھی ختم ہو جائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں. خواہ اس جیسا ایک اور سمندر لے آئیں مدد کے لئے!‘‘ ۲وَ لَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَۃٍ اَقۡلَامٌ وَّ الۡبَحۡرُ یَمُدُّہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ سَبۡعَۃُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ؕ (لقمن: ۲۷)

’’اور اگر زمین کے کل درخت قلم بن جائیں اور سمندر (سیاہی کا کام دے اور) اس کے بعد سات سمندر اور ہوں مدد کے لئے‘ تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے.‘‘

مندرجہ بالا آیات کے عمومی اسلوب سے قطع نظر قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کی جملہ مخلوقات و ایجادات میں سے تعین کے ساتھ صرف حضرت مسیح علیہ السلام کو ’’کَلِمٰتُ اللّٰہِ‘‘ قرار دیا گیا ہے - جیسے سورۂ آل عمران کی آیت ۳۹ میں حضرت زکریا کو حضرت یحیی علیہما السلام کی ولادت کی خوش خبری کے ضمن میں حضرت یحیی ؑ کو مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ قرار دیا گیا ہے - اور ذرا آگے چل کر آیت۴۵ میں حضرت مریمؑ کو حضرت مسیحؑ کی بشارت کے ضمن میں اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں - اور اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ سورۂ نساء کی آیت ۱۷۱میں فرمایا گیا ہے:

اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ 
’’بے شک مسیح یعنی مریم کا بیٹا عیسٰی اللہ کا رسول ہے اور اُس کا ’کلمہ‘ جو القاء فرمایا اس نے مریم کی جانب!‘‘
اس کا سبب بظاہر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کی ’’تخلیق‘‘ اور ’’تسویہ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’تقدیر‘‘ اور ’’ہدایت‘‘ کا سلسلہ بھی قائم فرما دیتا ہے‘ بفحوائے:

سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿۲﴾وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی ۪ۙ﴿۳﴾ (الاعلٰی: ۱ تا ۳)
’’تسبیح کرو اپنے اُس رب کی جو سب سے بالا و برتر ہے‘ جس نے بنایا پھر سنوارا‘ جس نے اندازہ ٹھہرایا پھر راہ معین کی.‘‘

یہی تقدیر و ہدایت ہے جو ’’جمادات‘‘ کی سطح پر ’’قوانینِ طبیعیہ‘‘ یعنی 
(Physical Laws or Laws of the Nature) کی شکل اختیار کرتی ہے. نباتات کے معاملے میں خالص طبیعی قوانین پر حیاتیاتی قوانین(Biological Laws) کا اضافہ ہوتا ہے. مزید آگے چل کر ’’حیوانات‘‘ کے ضمن میں ان دونوں اقسام کے قوانین پر جبلی قوانین (Instincts) کا اضافہ ہوتا ہے. اور انسان کے معاملے میں ان تینوں پر اضافہ ہوتا ہے ’’استدلالی قوانین‘‘ (Rules of Logic) کا - جس سے بالاتر سطح صرف ’’وحی ربّانی‘‘ کی ہے! - تو جملہ مخلوقات کے معاملے میں جہاں تک معاملہ ان قوانین کے تحت چلتا رہے اللہ تعالیٰ کے کسی ’’اضافی‘‘ امر ’’کن‘‘ کی ضرورت نہیں ہوتی - لیکن جہاں ان میں کوئی تبدیلی مطلوب ہو یعنی - عمومی سلسلۂ اسباب و نتائج (Cause and Effect) یا ’’عادی قانون‘‘ کو توڑ کر اللہ اپنی کسی مشیتِ خصوصی کو ظاہر فرمانا چاہے (چنانچہ اسی کو ’’خرقِ عادت‘‘ یا ’’معجزے‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے!) تو ایک نئے امر ’’کُن‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے‘ یا جب عام اسبابِ عادیہ کی کسی کڑی کو حذف کرنا ہو تو ایک اضافی کلمۂ ’’کن‘‘ اس کڑی کی جگہ لیتا ہے - چنانچہ یہ ہے وہ صورت جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معاملے میں پیش آئی کہ انسانی سلسلۂ تناسل جو عام طبعی اور حیاتیاتی قوانین کے مطابق ’’مرد‘‘ اور ’’عورت‘‘ کے ’’نطفہ ٔ امشاج‘‘ سے شروع ہوتا ہے‘ آنجنابؑ کے معاملے میں اس قدر بدل گیا کہ آپؑ کی پیدائش بن باپ کے ہوئی‘ گویا ایک کڑی حذف ہو گئی اور اللہ کے ایک کلمۂ’’کُن‘‘ نے ایک کڑی کی جگہ لے لی - چنانچہ وہ ’’ِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ‘‘ یا ’’کَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ‘‘ یا ’’کَلِمَتُہٗ‘‘ قرار پائے. یہ بات ’’متکلمین‘‘ کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ ’’کلام‘‘ - ’’متکلم‘‘ کی صفت ہوتا ہے. اسی بنا پر علامہ اقبال نے قرآن حکیم کو ’’مثلِ حق‘‘ قراردیاہے ؎ 

’’مثل حق پنہاں و ہم پیداست او 
زندہ و پایندہ و گویاست اُو!!‘‘ 

اور صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں یہ بات بھی بدیہی اور متفق علیہ ہے کہ وہ ذاتِ خداوندی کے مانند اطلاقی شان کی حامل ہیں - رہی ’’ذات‘‘ اور ’’صفات‘‘ کی باہمی نسبت یعنی علامہ اقبال کے الفاظ میں ؏ ’’ہیں صفات ذاتِ حق‘ حق سے جُدا یا عینِ ذات؟‘‘ تو اس تقریبًا لاینحل مسئلے کا حل بھی 
’’لَا عَیْنٌ وَلَا غَیْرٌ‘‘ کے سوا اور کوئی نہیں. (خواہ یہ بظاہر کتنا ہی مہمل نظر آئے.)

لہذا ذاتِ باری تعالیٰ کا وہ کلمۂ ’’کن‘‘ بھی جو موجودہ کون و مکان کے کل سلسلۂ تکوین و تخلیق کا نقطۂ آغاز بنا‘ ابتداء میں لازمًا ’’مطلق‘‘ و’’لامحدود‘‘ - اور ’’کیف‘‘ و ’’کم‘‘ کے جملہ تصورات سے ماوراء تھا. البتہ اسی کلمۂ کُن نے ’’تنزلات‘‘ کی منزلیں طے کرنی شروع کیں جن کے ذریعے ’’وجوب‘‘ سے ’’امکان‘‘ - اور ’’قِدم‘‘ سے ’’حدوث‘‘ کی جانب سفر شروع ہوا.

گویا ’’تنزلات‘‘ کی نسبت ذاتِ باری کی جانب نہیں اس کلمۂ ’’کُن‘‘ کی جانب ہے! - یہی وجہ ہے کہ امامِ ربّانی حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ نے کُل کون و مکان اور جملہ موجودات و مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے ’’اظلال‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے.

اس مرحلے پر یوحنا کی انجیل کے ابتدائی چند جملے بہت دلچسپی کا باعث ہوں گے اگرچہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ وحی ٔ ربّانی کی بجائے کسی فلسفیانہ اور متکلمانہ ذوق کے حامل انسان کے ذہن سے نکلے ہیں:
’’ابتدا میں کلام تھا - اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا. یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا. سب چیزیں اس کے وسیلے سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی‘‘. 
(یوحنا‘ باب اول:۱ تا ۳

قرآن حکیم کی اساسی اصطلاحات میں ’’کلمہ‘‘ ہی کی طرح جامع اورگھمبیر اصطلاح ’’امر‘‘ کی بھی ہے - بنیادی طور پر یہ قرآن مجید کے چند نہایت کثیرالاستعمال الفاظ میں سے ہے. چنانچہ لفظ ’’امر‘‘ کہیں ’’مسئلہ‘‘ یا ’’معاملہ‘‘ کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے‘ کہیں ’’حکم‘‘ یا ’’فیصلہ‘‘ کا مفہوم ادا کرتا ہے‘ کہیں ’’اختیار‘‘ اور ’’قدرت‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کہیں اردو زبان کے کثیر المفہوم لفظ ’’بات‘‘ کے معنی میں آتا ہے - اور ان جملہ مفاہیم کے علاوہ اس کا ایک خاص ’’اصطلاحی‘‘ مفہوم بھی ہے جس کے اعتبار سے یہ ’’خلق‘‘ کا مقابل‘ یا کم از کم ’’مغائر‘‘ ضرور ہے. چنانچہ سورۂ اعراف کی آیت ۵۴ میں جہاں واوِ عطف نے ’’خلق‘‘ اور ’’امر‘‘ کو اللہ کی ملکیت مطلقہ یا اختیارِ مطلق کے تحت ’’جمع‘‘ کر دیا ہے وہاں ان دونوں کے مابین ’’نسبتِ مغائرت‘‘ بھی قائم کر دی ہے:

اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۵۴﴾ (الاعراف: ۵۴
’’ا ٓ گاہ ہو جاؤ ! کہ اُسی کے ہیں خلق اور امر (دونوں)‘ بڑی برکت والا ہے جو رب ہے تمام جہانوں کا!‘‘ اس ’’امر‘‘ کے بارے میں دو باتیں نہایت اہم اور لائق توجہ ہیں!

ایک یہ کہ قرآن حکیم کی جن آیات میں 
’’کُنۡ فَیَکُوۡنُ ‘‘ کی تکوینی شان کا بیان ہوا ہے ان سب میں بلااستثناء ’’امر‘‘ ہی کا لفظ آیا ہے - ’’خلق‘‘ کا لفظ کسی ایک جگہ بھی استعمال نہیں ہوا - یعنی یہ انداز کسی ایک جگہ بھی نہیں ملتا کہ ’’اِذَا اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّخْلُقَ شَیْئًا فَاِنَّمَا نَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘- اور قرآن کے مقامِ رفیع سے یہ بات بہت فرو ہے کہ اسے محض ایک اتفاق مانا جائے‘ بقول غالبؔ: 

’’گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیو!
جو لفظ کہ غالبؔ میرے اشعار میں آوے!!‘‘

اور ؏ ’’زیر ہر ہر لفظِ غالبؔ چیدہ ام میخانۂ!!‘‘
دوسرے یہ کہ اس کا ایک نہایت گہرا اور قریبی تعلق لفظ ’’روح‘‘ کے ساتھ ہے. بفحوائے آیاتِ قرآنی:

۱وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ (بنی اسرائیل: ۸۵
’’اور وہ تم سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں‘ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے.‘‘

۲یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ (النحل: ۲)
’’وہ فرشتوں کو اپنے امر کی روح کے ساتھ اتارتا ہے اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے.‘‘

۳یُلۡقِی الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ (المومن: ۱۵)
’’وہ ڈالتا ہے روح‘ جو اس کے امر میں سے ہے‘ اپنے بندوں میں س ے جس پر چاہتا ہے.‘‘

۴وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ (الشوریٰ: ۵۲)
’’اور اس طرح ہم نے تمہاری طرف بھی وحی کی ہے ایک روح اپنے امر میں سے.‘‘

ان آیات مبارکہ میں سے دوسری اور تیسری آیات میں ’’الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ ‘‘ سے مراد بالاتفاق مطلقًا وحی ٔ نبوت ہے‘ چوتھی آیت میں معین طور پر وحی ٔ قرآنی کا ذکر ہے - پہلی آیت میں بھی بعض حضرات کے نزدیک مراد وحی ٔ قرآنی ہی ہے -لیکن جمہور کے نزدیک اس سے مراد ’’رُوحِ انسانی‘‘ ہے . بہرحال سردست اصل قابل توجہ معاملہ ’’روح‘‘ اور ’’امر‘‘ کے مابین قریبی رشتے اور تعلق کا ہے!!!

اب اگر قرآن حکیم میں لفظ ’’روح‘‘ کے دوسرے استعمالات و اطلاقات پر غور کیا جائے تو جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے:

۱) چار مقامات (البقرہ:۸۷‘ ۲۵۳ - المائدۃ:۱۱۰- النحل:۱۰۲) پر ’’ رُوۡحُ الۡقُدُسِ ‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں (۱اور ایک مقام (الشعراء :۱۹۳) پر ’’الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں‘ (۲اور ان تمام مقامات پر مراد غالب اکثریت کے نزدیک حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں! (۱) وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ (البقرۃ: ۸۷ و ۲۵۳)
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ اذۡکُرۡ نِعۡمَتِیۡ عَلَیۡکَ وَ عَلٰی وَالِدَتِکَ ۘ اِذۡ اَیَّدۡتُّکَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ۟ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الۡمَہۡدِ وَ کَہۡلًا ۚ (المائدہ: ۱۱۰)
قُلۡ نَزَّلَہٗ رُوۡحُ الۡقُدُسِ مِنۡ رَّبِّکَ بِالۡحَقِّ لِیُـثَبِّتَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾ (النحل: ۱۰۲)

(۲) نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ۙ(الشعراء: ۱۹۳۲) دو مقامات (المعارج:۴ اور القدر:۴) پر الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ کے الفاظ آئے ہیں (۱اور ایک مقام (النباء:۳۸) پر الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کے (۲اور اگرچہ بعض رائیں اور بھی پائی جاتی ہیں لیکن جمہور کے نزدیک یہ عام پر خاص یا خاص پر عام کے عطف کا معاملہ ہے - اور ’’الرُّوۡحُ‘‘ سے مراد ان مقامات پر بھی حضرت جبرئیل علیہ السلام ہی ہیں! دوسرے نمبر پر رائے یہ ہے کہ اس سے مراد ہیں ’’ارواحِ انسانیہ‘‘ یا وہ عظیم ترین فرشتہ جو گویا ارواحِ انسانیہ کا مخزن ہے!

۳) سورۂ مجادلہ (آیت ۲۲) میں مئومنین صادقین کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائید کے ضمن میں وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ کے الفاظ آئے ہیں‘ جس سے مراد ہے اللہ کی ’’غیبی‘‘ مدد جو‘ جیسا کہ قرآن حکیم کے دوسرے مقامات (جیسے سورۂ انفال:۱۲ اور سورۂ آل عمران ۱۲۴‘ ۱۲۵(۳سے معلوم ہوتا ہے‘ اکثر ملائکہ ہی کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے.

۴) اپنی ذات مبارکہ کی جانب اضافت کی نسبت کے ساتھ لفظ ’’روح‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں چھ مقامات پر استعمال فرمایا ہے:تین بار تخلیقِ (۱) تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ﴿۴﴾ (المعارج : ۴)
تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ (القدر: ۴)

(۲) یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا(النباء: ۳۸)

(۳) اِاِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ (الانفال: ۱۲)
اِذۡ تَقُوۡلُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَلَنۡ یَّکۡفِیَکُمۡ اَنۡ یُّمِدَّکُمۡ رَبُّکُمۡ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ ﴿۱۲۴﴾ؕبَلٰۤی ۙ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ یَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡرِہِمۡ ہٰذَا یُمۡدِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ بِخَمۡسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُسَوِّمِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾(آل عمران:۱۲۴، ۱۲۵
ِ انسانی کے ضمن میں کہ ’’تخلیق‘‘ اور ’’تسویہ‘‘ کے مراحل کی تکمیل کے بعد اس میں اللہ نے ’’اپنی روح‘‘ میں سے پھونکا (السجدۃ:۹‘ الحجر:۲۹ اور ص:۷۲(۱اور تین ہی بار حضرت مریم ؑ کے ذکر میں - جن میں سے دو مقامات (الانبیاء :۹۱ اور التحریم:۱۲) پر حضرت صدیقہ ؑ کے بطن میں حضرت مسیحؑ کے استقرارِ حمل کے ضمن میں فرمایا گیا کہ ’’ہم نے اپنی روح میں سے پھونکا.‘‘ (۲-اور ایک مقام (مریم:۱۷) پر بایں طور کہ جو فرشتہ انہیں حضرت مسیحؑ کی بشارت دینے کے لئے بھیجا گیا تھا‘ اسے ’’ رُوۡحَنَا ‘‘ (ہماری روح) سے تعبیر فرمایا گیا. (۳

۵) آخری - اور موضوعِ زیربحث کے اعتبار سے اہم ترین - یہ کہ سورۂ نساء کی آیت ۱۷۱ میں جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کو ’’کلمۃ‘‘ سے تعبیر فرمایا گیا - وہاں ’’رُوۡحٌ مِّنۡہُ‘‘ بھی قرار دیا گیا! (۴

اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمۂ ’’کُن‘‘ (۱) ثُمَّ سَوّٰىہُ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۹﴾(السجدہ: ۹)

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾(الحجر: ۲۹ و ص: ۷۲)

(۲) وَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۱﴾ (الانبیاء: ۹۱)
وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ ﴿٪۱۲﴾ (التحریم: ۱۲)

(۳) فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا ﴿۱۷﴾ (مریم: ۱۷)
(۴) اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ (النساء: ۱۷۱
اس کے ’’امر‘‘ اور لفظ ’’روح‘‘ کے مابین بڑا قریبی رشتہ و تعلق ہے - اور ملائکہ‘ ارواحِ انسانیہ اور وحی کم و بیش ایک ہی قبیل کی حقیقتیں ہیں!

ملائکہ‘ ارواح انسانیہ اور وحی کے باہمی قرب - اور ذات باری سبحانہ و تعالیٰ سے ان کے قریبی تعلق کو ظاہر کرنے والا ایک مزید لفظ ’’نور‘‘ ہے. چنانچہ:

۱) یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ قرآن حکیم ’’وحی‘‘ کو نور قرار دیتا ہے جیسے سورۂ مائدہ کی آیات ۴۴ و ۴۶ میں تورات اور انجیل دونوں کو ہُدًی وَّ نُوۡرٌ (۱سے تعبیر فرمایا گیا اور سورۂ انعام کی آیت نمبر ۹۱ میں تورات کیلئے نُوۡرًا وَّ ہُدًی لِّلنَّاسِ (۲کے الفاظ وارد ہوئے . اسی طرح خود قرآن حکیم کیلئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ مائدہ کی آیت ۱۵ میں نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ (۳سورۂ اعراف کی آیت ۱۵۷ میں النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ (۴اور سورۂ تغابن کی آیت ۸ میں وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ (۵کے الفاظ استعمال فرمائے! (۱) اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ (المائدہ: ۴۴)
وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ (المائدہ: ۴۶)

(۲) قُلۡ مَنۡ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ الَّذِیۡ جَآءَ بِہٖ مُوۡسٰی نُوۡرًا وَّ ہُدًی لِّلنَّاسِ تَجۡعَلُوۡنَہٗ قَرَاطِیۡسَ تُبۡدُوۡنَہَا وَ تُخۡفُوۡنَ کَثِیۡرًا ۚ (الانعام: ۹۱)
فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾(الحجر: ۲۹ و ص: ۷۲)

(۳) قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ (المائدہ: ۱۵)

(۴) فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾٪ (الاعراف: ۱۵۷)

(۵) فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ (التغابن: ۸۲) فرشتوں کے بارے میں حدیثِ نبوی ؐ (مسلم ؒ عن عائشہؓ ) میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ ’’اللہ نے انہیں نور سے پیدا فرمایا.‘‘

۳) روحِ مُحمّدیؐ کے بارے میں ایک مشہور حدیث میں‘ جو اگرچہ محدثین کے معیار جرح و تعدیل پر تو پوری نہیں اترتی تاہم اکثر صوفیاء ہی نہیں مفسرین نے بھی اسے قبول فرمایا ہے، ’’نور‘‘ ہی کا لفظ آیا ہے یعنی ’’اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِیْ‘‘ اسی طرح ایک اور حدیث جس کا حوالہ تو تاحال دستیاب نہیں ہو سکا لیکن معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مولانا غلام مرشد مرحوم اسے اپنے دروس میں بیان فرمایا کرتے تھے‘ اس کی رو سے حضرت جابرؓ کے اس سوال کے جواب میں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا - جوابًا آنحضور سے منقول ہے کہ ’’نُوْرُ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ‘ نُوْرُ نَبِیِّکَ!!‘‘ (یہ روایت اغلباً مصنف عبدالرزاق ؒ میں موجود ہے).

۴) خود ذاتِ باری تعالیٰ کے لئے‘ انسانی ذہن کی محدودیت اور نارسائی کے پیش نظر‘ قریب ترین لفظ جو بطور تمثیل اختیار کیا گیا‘ وہ ’’نور‘‘ ہی ہے - جیسے سورۂ نور کی آیت ۳۵ اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕکے الفاظ مبارکہ - اور حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول ’’نُوْرٌ اَنّٰی یُرٰی‘‘ کے الفاظ.

ان حقائق کے پیش نظر کیا یہ نتیجہ نکالنا بعید از قیاس یا دور کی کوڑی لانا قرار دیا جا سکتا ہے کہ:

تخلیقِ کائنات کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کے اوّلین کلمۂ ’’کُن‘‘ نے اپنے تنزل کے مرحلۂ اوّل میں ایک نورِ بسیط کی صورت اختیار کی -اور اس سے اللہ تعالیٰ نے خلعت وجود عطا فرمایا، ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ کو‘ جن کی اصل ’’نور‘‘ ہے - اور جو صاحبِ تشخص اور صاحبِ شعور ہی نہیں ’’خود شعوری‘‘ کی نعمتِ عظمٰی سے بھی سرفراز ہیں!

اور اس میں کون سے تعجب کی بات ہے کہ ان ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ میں سب سے پہلے خلعتِ وجود سے سرفراز ہونے والی ہستی ’’نورِ مُحمدی ‘‘ - یعنی ’’روحِ مُحمّدیؐ ‘‘ ہی ہو‘ فِدَاہُ آبَاءُ نَا وَاُمَّھَاتُنَا!!

واضح رہے کہ قرآن حکیم جس طرح نہ صرف شعور بلکہ شعورِ ذات کی حامل ان دونوں انواع (یعنی فرشتوں اور ارواحِ انسانیہ) کو ’’عالم امر‘‘ سے متعلق قرار دیتا ہے اسی طرح ان کے باہمی مخاطبہ و مکالمہ - اور خود اللہ تعالیٰ کے ان دونوں سے خطاب و کلام کو بھی - جس کا اصطلاحی نام ’’وحی‘‘ ہے ’’عالم امر‘‘ سے متعلق قرار دیتا ہے - اس موضوع پر قرآن کا ’’ذرئوہ سنام‘‘ یعنی اہم ترین مقام سورۂ شوریٰ کی آیات ۵۱‘ ۵۲ ہیں:

وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ﴿۵۱﴾وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾ (الشوریٰ:۵۱-۵۲)

’’اور کسی بشر کی بھی یہ شان نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے سے‘ یا پردے کی اوٹ سے‘ یا بھیجے کسی فرشتہ کو‘ پس وہ وحی کر دے اس کے اذن سے جو وہ چاہے. وہ بڑا ہی عالی مقام‘ بڑا ہی حکیم ہے. اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف بھی وحی کی ہے ایک روح اپنے امر میں سے‘ نہ تم یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے. لیکن ہم نے اس کو ایک نور بنا دیا جس سے ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں‘ اور بے شک تم ایک سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کر رہے ہو.

ان آیات مبارکہ میں ’’روح‘‘ - ’’امر‘‘ - ’’وحی‘‘ - اور ’’نور‘‘ کے الفاظِ مبارکہ جو ہماری اس پوری بحث کا مبنیٰ اور مدار ہیں‘ جس شان سے وارد ہوئے ہیں‘ اس کی کوئی دوسری مثال اغلبًا خود قرآن میں موجود نہیں ہے (واللہ اعلم!). یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان دو آیات کو اس موضوع پر قرآن کا ’’ذروۂ سنام‘‘ قرار دیا ہے.

(نوٹ: اس تحریر کا یہاں تک کا حصہ ۱۹۸۵ء میں شائع ہو گیا تھا)

الغرض!ایجاد و ابداع سے تخلیق و تسویہ تک کے طویل سفر کا مرحلۂ اوّل - یا بالفاظ دیگر سلسلۂ ’’تنزلات‘‘ کی پہلی منزل - جس سے قرآن حکیم کی اہم اصطلاحات : کلمہ و کلمات‘ رُوح و وحی اور اَمر و نور متعلق ہیں، اغلباً یہ تھی کہ ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ کے اَمر ’’کُن‘‘نے ایک ایسے نہایت لطیف و بسیط‘ اور خنک و پُرسکون ’’نور‘‘ کی صورت اختیار کر لی جس میں نہ حرارت و تپش تھی‘ نہ حرکت و تموج! - اور اس مرحلہ پر اسی نورِ بسیط سے تخلیق کی گئیں دو صاحب تشخص‘ اور صرف صاحبِ شعور و ارادہ ہی نہیں بلکہ حاملِ شعورِ ذات (Self-Conscious) مخلوقات‘ یعنی : ایک ’’روحُ القدس‘‘ اور ’’الروح الامین‘‘ یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام سمیت جملہ ملائکہ کرام جن کی تعداد لَا یُحَاطُ بھی ہے اور لَا یُحْصٰی بھی (بفحوائے : وَ مَا یَعۡلَمُ جُنُوۡدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ ؕ (۱(المدثر:۳۱) اور جن کے بارے میں یہ صراحت بھی حدیثِ نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں موجود ہے کہ ان کی تخلیق ’’نور‘‘ سے ہوئی‘ (مسلمؒ عن عائشہؓ (۱) ’’اور کوئی نہیں جانتا تیرے رب کے لشکرکو مگر خود وہی.‘‘ ؓ رضی اللہ عنھا) اور دوسرے روحِ آدمؑ اور رُوحِ مُحمّدیؐ سمیت نسل آدم کے اُن تمام افراد کی ارواح جو تاقیامِ قیامت پیدا ہوں گے. یہ ارواحِ انسانیہ جو ’’جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ‘‘ کی شکل میں تھیں‘ (مسلمؒ عن ابی ہریرۃؓ ) ان سے اوّلًا ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ نے یہ عہد لیا کہ وہ اُسے ہی اپنا رب تسلیم کرتی ہیں اور کرتی رہیں گی (بفحوائے اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی (۱(الاعراف:۱۷۲) پھر ان پر ’’اِماتَۃُ الاُولٰی‘‘ کی نیند طاری کر کے انہیں ایک ’’مخزنِ ارواح‘‘ میں محفوظ کر دیا‘ جہاں سے وہ اپنے اپنے وقت پر منشعب ہو کر اجسادِ انسانیہ میں پھونکی جاتی ہیں. (جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ ایک رائے کے مطابق یہ ’’مخزنِ ارواح‘‘ ہی وہ ملکِ اعظم ’’الرُّوح‘‘ہے جس کا ذکر ملائکہ کے ساتھ معطوف یا معطوف علیہ کے طور پر قرآن مجید میں تین بار آیا ہے . المعارج:۴‘ النباء:۳۸‘ اور القدر:۴)

واضح رہے کہ تنزلات کے اس مرحلۂ اوّل پر وجود میں آنے والے عالمِ نورانی میں ابھی زمانِ جاری (Serial Time) کا کوئی تصور ہی موجود نہیں تھالہذا اس مرحلے پر خلعت وجود سے مشرف ہونے والی ہستیاں یعنی ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ بھی زمان و مکان کی محدودیتوں سے ماوراء ہیں اور ان کے عرش سے فرش اور بالعکس فرش سے عرش تک - اور مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق تک منتقل ہونے میں کوئی ’’وقت‘‘ صرف نہیں ہوتا! بلکہ یہ آنِ واحد میں مشرق سے مغرب اور فرش سے عرش تک کا سفر طے کر سکتی ہیں!