سلسلۂ تنزلات کا مرحلۂ ثانی عالمِ اَمر سے عالمِ خلق کی جانب تنزل کی پہلی (۱) ’’(تمہارے رب نے پوچھا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: ضرور (آپ ہی ہمارے رب ہیں!) منزل ہے اور یہ وہ مرحلہ ہے جس تک ایک مبہم اور مجمل رسائی جدید علم طبیعیات کو بھی حاصل ہو چکی ہے. جس کے نتیجے میں وہ خام خیالی تحلیل ہو کر معدوم ہو چکی ہے جو نیوٹن کے دور کی طبیعیات سے پیدا ہوئی تھی‘ یعنی یہ کہ یہ مادی کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی. اس کے برعکس اب محققین کا اس پر تقریبًا اجماع ہو چکا ہے کہ اس عالمِ مادی کا آغاز اب سے لگ بھگ پندرہ سے بیس ارب سال قبل Big Bang سے ہوا. یعنی ایک بہت بڑے دھماکے سے! یہ دھماکہ کب ہوا اور کہاں ہوا ان سوالات کے جواب میں تو علماء طبیعیات یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیتے ہیں کہ اس سے قبل زمان و مکان کا جداگانہ تشخص تھا ہی نہیں کہ کب اور کہاں کے سوال پیدا ہوں. گویا کہ زمان و مکان کا تو نقطۂ آغاز ہی Big Bang ہے! رہے یہ سوالات کہ یہ دھماکہ کس نے کیا اور اس کے لئے بارود کونسا تھا تو ان میں سے پہلے سوال سے تو مادہ پرستوں کے لئے اعراض اس لئے ضروری ہے کہ اس سے لامحالہ ایک واجب الوجودمُبدع و مُوجد کا تصور سامنے آتا ہے - اور دوسرے سوال کا جواب ان کے لئے اس بنا پر ممکن نہیں کہ Big Bang سے ماقبل کا تعلق عالمِ اَمر سے ہے جس تک علومِ طبیعی کی رسائی محالِ عقلی ہے!

بہرحال ذاتِ واجب الوجود پر ایمان اور اُس (تعالیٰ) کے پہلے امر ’’کُن‘‘ سے وجود میں آنے والے عالمِ نور کا ادراک رکھنے والوں کے لئے یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ یہ دھماکہ ذات حق سبحانہ وتعالیٰ کے ایک دوسرے امر ’’کُن‘‘ کے نتیجے میں نورِ بسیط کے ایک حصّے میں ہوا جس کے نتیجے میں اس ’’نور‘‘ نے عہدِ حاضر کے عظیم ماہر طبیعیات سٹیون وائن برگ کے قول کے مطابق ایک ایسی ’’نار‘‘ کی شکل اختیار کر لی جو ایسے نہایت چھوٹے ذرات (Electrons, Positrons and Neutrinos) پر مشتمل تھی جن کا درجۂ حرارت ناقابل تصور حد تک بلند (One Hundred Thousand Million Degrees Centrigrade) تھا اور جو ناقابل تصور سرعت رفتار کے ساتھ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے تھے - جس کے نتیجے میں یہ آتشیں گولہ حجم میں تیزی سے بڑھتا چلا گیا. اور مرورِ زمانہ کے ساتھ ان ذرات کی حرارت اور ان کے باہمی کشش ثقل کی قوّت و شدت دونوں میں کمی آتی چلی گئی !!

الغرض!یہ تھا عالمِ مادی کا نقطۂ آغاز اور مراتبِ نزول کا مرحلۂ ثانی. بعد میں مرورِ زمانہ اور اساسی ذرات کے ایک دوسرے سے دُور بھاگنے سے یہ ناری ہیولیٰ یا بگولا مختلف حصوں میں پھٹتا بھی چلا گیا جس سے کہکشائیں وجود میں آئیں اور ہر کہکشاں میں ناری کرے پیدا ہوئے جن میں متذکرہ بالا اساسی ذرات کی تالیف سے ایٹم اور پھر اس کے مرکبات وجود میں آتے چلے گئے. 

بہرحال اس ناری مرحلے پر جو صاحبِ تشخص اور صاحبِ شعور و ارادہ مخلوق پیدا کی گئی وہ ’’جنات‘‘ تھے جن کا مادۂ تخلیق قرآن کی جابجا صراحت کی بنا پر آگ ہے - اور جن کی تخلیق حضرت آدمؑ کی تخلیق سے بہت پہلے ہوئی. (بفحوائے :
وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ ﴿۲۷﴾ (۱الحجر:۲۷

واضح رہے - کہ جیسے ’’نور‘‘ اور ’’نار‘‘ میں قرب مسلم ہے‘ اسی طرح جنات کو بھی ملائکہ کے ساتھ قرب اور مانوسیت کا تعلق حاصل ہے - چنانچہ اسی کا ایک شاہکار نتیجہ یہ ہے کہ عزازیل نامی جِنّ‘ جو بعد میں ابلیس اور شیطانِ لعین قرار پایا‘ اپنے علم و زہد‘ اور طاعت و تقویٰ کی بنیاد پر ملائکہ کرام کے طبقۂ اسفل کے ساتھ صرف گھل مل ہی نہیں گیا تھا بلکہ بقولِ بعض اس نے ان کے ’’معلم‘‘ کی حیثیت بھی اختیار کر لی تھی (اللہ اعلم!) - اور اسی کا (۱) ’’اور اس سے پہلے جِنّوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے‘‘. ایک شاخسانہ یہ ہے کہ اگرچہ جنات کی رسائی ملائکہ کے طبقۂ اعلیٰ تک تو نہیں ہے لَا یَسَّمَّعُوۡنَ اِلَی الۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰی (۱(الصٰفٰت:۸تاہم چوری چھپے سان گن لینے اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ (۲)(الحجر:۱۸اور تدبیر و تعمیل احکامِ الٰہی کے لئے فرشتوں کے نزول کے دوران ان سے کچھ معلومات ’’اچک‘‘ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں - مزید برآں چونکہ ان کا تعلق عالمِ مادی سے ہے لہذا ان کی حرکت اور سفر وقت کے صرف کے ساتھ ہوتا ہے‘ اگرچہ اپنے مادۂ تخلیق کی لطافت کی بنیاد پر ان کی رفتار بھی بہت تیز ہے اور ان کی جولان گاہ بھی کائناتِ مادی کے دُور دراز گوشوں تک ہے اور وہ نہ صرف یہ کہ ان دُور دراز مقامات پر بھی از خود بآسانی پہنچ جاتے ہیں جہاں انسان ارب ہا ارب ڈالروں کے صرف سے تیار شدہ راکٹوں کے ذریعے بمشکل پہنچ پاتا ہے - بلکہ ان کی رسائی اس سے بھی بہت آگے ہے جہاں ہم تاحال پہنچ بھی نہیں پائے! - اور آخری بات یہ کہ مادئہ تخلیق کی اس لطافت کی بنا پر یہ بھی فرشتوں ہی کی طرح مختلف صورتیں اختیار کر سکتے ہیں - یعنی جیسے فرشتے انسانوں کی صورت میں متمثل ہو سکتے ہیں (جیسے مثلًا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا ﴿۱۷﴾ (۳)مریم:۱۷)ایسے ہی جنات بھی انسانوں اور حیوانات بالخصوص حیات یعنی سانپوں کی شکل اختیار کر سکتے ہیں!