یہ بات بالکل غلط طور پر مشہور ہو گئی ہے کہ نظریۂ ارتقاء کا موجد برطانوی سائنس دان چارلس ڈاروِن (۱۸۰۹ء تا ۱۸۸۲ء) تھا اور اس غلط مفروضے کی شہرت اس درجہ کو پہنچ گئی ہے کہ عوام الناس میں ارتقاء اور ’’ڈاروِنزم‘‘ تقریبًا مترادف ہو گئے ہیں. حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک حیاتِ ارضی میں ارتقاء کے مسئلے کا فی نفسہٖ تعلق ہے‘ اس کا دھندلا سا تصور تو ارسطو سمیت متعدد قدیم یونانی حکماء کے یہاں بھی موجود تھا. پھر اس کا نہایت واضح نقشہ صدیوں پہلے مسلمان حکماء اور علماء پیش کر چکے ہیں. اس ضمن میں علامہ جاحظ (م ۲۲۵ھ)‘ پھر اخوان الصفا‘ اور پھر علامہ ابنِ مسکویہ (م۴۲۱ھ) نے جو کچھ کہا اس کا ذکر تو فی الوقت مشکل بھی ہے اور غیر ضروری بھی. لیکن مولانا روم (م ۱۲۷۳ء) نے ڈارون سے لگ بھگ چھ سو برس قبل اپنی شہرۂ آفاق اور زندہ جاوید ’’مثنوی‘‘ میں دو مقامات پر جس قدر واضح الفاظ میں ارتقاءِ حیاتِ ارضی کا نقشہ پیش کیا ہے وہ تو سب کے سامنے ہے.
اس میں ہرگز کوئی شک نہیں ہے کہ ڈاروِن نے ۱۸۳۲ء سے ۱۸۳۷ء تک پورے پانچ سال جنوبی امریکہ کے پورے ساحل کے گرد سفر کر کے حیاتِ ارضی کے جو نمونے جمع کئے اور پھر ان کے مابین انسانوں کے ’’شعوب‘‘ اور ’’قبائل‘‘ (الحجرات:۱۳) کے مانند حیوانات کی ’’انواع‘‘ (Species) کا جو شجرۂ نسب مرتب کیا‘ وہ اس کی ایک بہت بڑی علمی خدمت تھی‘ لیکن ’’ڈاروِنزم‘‘ اصلًا عبارت ہے اس نظرئیے سے جو ڈارون نے ارتقاءِ حیات کے سبب اور اس کے عمل میں آنے کے طریق یعنی میکانزم کے بارے میں مرتب کیا‘ اور جسے عوام الناس میں تو یقینًا بہت پذیرائی حاصل ہوئی لیکن خالص علمی حلقوں میں یہ نظریہ ہمیشہ متنازعہ ہی رہا‘ اور اب بھی اگرچہ سائنس کی عمومی رو میں تو اسی کا ڈنکا بج رہا ہے تاہم علماء و ماہرین علم الحیات کے حلقے میں اس پر شدید اعتراضات وارد کئے جاتے ہیں. اور اس کی بجائے اب علمی دُنیا میں ڈارون سے متصلًا قبل فرانسیسی سائنس دان لامارک (۱۷۴۴ء تا ۱۸۲۹ء) نے جو خیالات پیش کئے تھے ان کے مشابہ خیالات زیادہ مقبول ہو چکے ہیں!
بہرحال‘ نفس ارتقاء کے ضمن میں مولانا روم کی جانب رجوع کریں تو اوّلًا مثنوی کے دفتر سوم میں آنجناب فرماتے ہیں:
از جمادیٰ مُردم و نامی شدم
وز نما مُردم بحیواں سرزدم
مُردم از حیوانی و آدم شدم
پس چہ ترسم کہ زمُردن کم شوم!
یعنی ’’(میں اوّلًا عالمِ جمادات میں تھا - پھر) اس جماداتی عالم میں میری موت واقع ہوئی تو میں عالمِ نباتات میں پیدا ہو گیا. پھر عالمِ نباتات میں موت واقع ہوئی تو میں عالمِ حیوانات میں وارد ہو گیا. پھر عالمِ حیوانات میں موت واقع ہوئی تو میں آدم بن گیا. پس مجھے کیا خوف لاحق ہو سکتا ہے کہ اب کوئی اور موت واقع ہونے سے میرے وجود یا میری حیثیت میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی!‘‘ - بلکہ اس مقام پر تو مولانا رومؒ مقامِ آدمیت سے آگے کے دو مزید مراحل ارتقاء کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن وہ ہمارے اس وقت کے دائرہ بحث سے خارج ہیں! پھر اس سے بھی کہیں زیادہ واضح اور واشگاف الفاظ میں مولانا رومؒ مثنوی کے دفتر چہارم میں باضابطہ اس عنوان کے تحت کہ : ’’بیانِ اطوار و منازلِ خلقتِ آدمی از ابتدائے خلقت‘‘ یعنی ’’ابتداءِ تخلیق سے تخلیق آدم تک کے مراحل کا بیان‘‘ فرماتے ہیں:
آمدہ اوّل باقلیمِ جماد
وز جمادی در نباتی او فتاد
سالہا اندر نباتی عمر کرد
وز جمادی یاد ناورد از نبرد
وز نباتی چوں بہ حیوانی فتاد
نامدش حالِ نباتی ہیچ یاد
. . . . . . . . . . . . . .
. . . . . . . . . . . . . . باز از حیواں سوئے انسانیش
می کشد آں خالقے کہ دانیش
ہمچنیں اقلیم تا اقلیم رفت
تا شد اکنوں عاقل و دانا و زفت!
یعنی ’’وہ (اور یہاں مثنوی کے فاضل مترجم قاضی سجاد حسین صاحب نے بریکٹ میں ’’ رُوح‘‘ درج کر دیا ہے‘ جو ہماری بیان کردہ تفاصیل کی رو سے درست نہیں ہے. اس لئے کہ رُوح تو عالمِ اَمر کی شے ہے جس پر نہ کوئی تنزل واقع ہوا ہے‘ نہ ہی وہ کسی عمل ارتقاء سے ہو کر گزری ہے - بلکہ یہ سارا سفر جو آگے بیان ہو رہا ہے ’’مادہ‘‘ کا ہے کہ وہ) اوّلًا جمادات کے عالم میں وارد ہوا‘ پھر عالمِ جمادات سے عالمِ نباتات میں در آیا. اور سالہا سال عالمِ نباتات میں گزارنے کے دوران اسے کبھی عالمِ جمادات کی کوئی بات یاد نہ آئی. پھر جب وہ عالمِ نباتات سے عالمِ حیوانات میں داخل ہوا تو اسی طرح اسے عالمِ نباتات میں گزارے ہوئے دور کی کوئی بات یاد نہ رہی - پھر اسے عالمِ حیوانات سے اس ’’خالق‘‘ نے جسے تم خوب جانتے ہو عالمِ انسانیت کی طرف کھینچ لیا - اور اس طرح وہ ایک عالم سے دوسرے عالم تک سفر کرتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا کہ صاحب عقل و دانش اور دانا و بینا بن گیا‘‘.
عہد حاضر کے ’’ترجمان القرآن‘‘ اور ’’رومی ٔثانی‘‘ علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں جس رفعت فکر اور نزاکت خیال کے ساتھ نہ صرف نفس ارتقاء بلکہ اس کے سبب اور نقطۂ آغاز‘اور اس کے منتہاء اور منزلِ مقصود کو بیان کیا ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ عقولِ متوسطہ کے حامل لوگوں کے لئے تو اس کا فہم و ادراک مشکل ہی نہیں محال ہے - غنیمت ہے کہ ’’حکمت اقبال‘‘ کے شارح ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم و مغفور نے اپنے اس مقالہ کے ذریعے اسے کسی قدر آسان بنا دیا ہے جو مجلہ ’’اقبال ریویو‘‘ کی اشاعت بابت اپریل ۱۹۶۰ء میں شائع ہوتھا.
ڈاکٹر رفیع الدین نے مولانا رومیؒ کے متذکرہ بالا اشعار کے عین مطابق ارتقاء کے طویل سفر کے تین مراحل قرار دیئے ہیں‘ یعنی:اوّلًا طبیعیاتی اور کیمیاوی ارتقاء‘ ثانیًا حیاتیاتی ارتقاء‘ اور ثالثًا نظریاتی یا تصوراتی ارتقاء -گویا ایجاد و ابداع کے مراتب نزول کے مرتبۂ ثانی کے آغاز کے ساتھ ہی ارتقاء کا اوّلین مرحلہ بھی شروع ہو گیا تھا. یعنی (Big Bang) کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتہائی چھوٹے ’’ذرات‘‘ (Particles) کے مابین تالیف و ترتیب سے اوّلًا ایٹم وجود میں آئے اور پھر ان ا یٹموں کے اجتماع سے سالمات یعنی ’’مالی کیولز‘‘ (Molecules) بنے - اور پھر ان ’’سالمات‘‘ کے مابین جمع و تدوین سے اوّلًا غیرنامیاتی مرکبات (Inorganic Compounds) اور بالآخر نامیاتی مرکبات (Organic Compounds) وجود میں آئے‘ جن پر سفر ارتقاء کے اس مرحلہ اوّل کی تکمیل ہو گئی - واضح رہے کہ اسی مرحلے کو ہم اس سے قبل مراتب نزول کے تیسرے مرحلے کی تکمیل قرار دے چکے ہیں‘ جس کی نہایت حسین اور حد درجہ بلیغ تعبیر مرزا عبدالقادر بیدلؔ نے ان الفاظ سے کی کہ ’’ہر دو عالم خاک شد!‘‘ لیکن چونکہ مراتب نزول کا یہ مرتبۂ ثالث ہی ارتقاء کا مرحلہ اوّل بھی تھا لہذا اس کے بعد ہی ارتقاء کے دوسرے مرحلے یعنی حیاتیاتی ارتقاء کا آغاز ہوا. اور چونکہ اس کی تکمیل ہونی تھی انسان کی تخلیق پر لہذا اس کے آغاز کو بیدل نے ’’تا بست نقش آدمی!‘‘ سے تعبیر کیا.
ماہرینِ علومِ طبیعی نہ تو تا حال اس راز پر سے پردہ اٹھا سکے ہیں کہ ’’عالمِ جمادات‘‘ سے تعلق رکھنے والے کیمیاوی مرکبات میں ’’حیات‘‘ کی نمود کس طرح سے ہوئی‘ نہ ہی یہ ان کے لئے کبھی آئندہ ممکن ہو گا - اس لئے کہ اس کا تعلق پھر اُسی عالمِ اَمر سے ہے جو طبیعیات کے دائرہ تحقیق و تفتیش سے باہر ہے - یعنی اللہ کا ایک اور امر ’’کُن‘‘! جس کے ذریعے مُردہ مادے میں ’’حیات‘‘ کا کرنٹ (Current)دوڑنا شروع ہو گیا.
بہرحال اس کے بعد سفر ارتقاء کی دوسری منزل یعنی حیاتیاتی ارتقاء کا طویل عمل شروع ہوا‘ جس کے ضمن میں یہ امر تو اب پوری دُنیا میں متفق علیہ ہے کہ اوّلًا حیاتِ ارضی کی نہایت حقیر اور سادہ صورتیں ظہور میں آئیں - اور پھر وقتاً فوقتاً درجہ بدرجہ کمتر سے برتر‘ اور کہتر سے بہتر صورتیں ظہور میں آتی چلی گئیں - لیکن یہاں پہلا مسئلہ تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کم تر کے بعد برتر ’’انواع‘‘ کا ظہور محض ایک زمانی ترتیب کا مظہر ہے‘ یعنی ہر نئی نوع سابقہ کم تر نوع سے بالکل آزاد اور غیر متعلق طور پر براہِ راست اپنی مخصوص صورت میں پردۂ عدم سے براہِ راست عالم وجود میں آتی رہی یا ہر بعد میں آنے والی نوع پہلے سے موجود نوع ہی میں کسی قدر تبدیلی سے وجود میں آئی؟ - تو جہاں تک خالقِ ارض و سماوات اور مُوجد کون و مکان سبحانہ و تعالیٰ کا تعلق ہے اسے یقینا یہ قدرت اور وسعت حاصل ہے کہ وہ ہر مخلوق کو جس صورت میں بھی وہ تھی‘ یا ہے‘ یا ہو گی جداگانہ طور پر براہِ راست عدم سے وجود میں لے آئے-
لیکن اس کی سنّت و عادت یہ ہے کہ وہ کسی بھی شے کو پیدا کر کے اس کے لئے کچھ قواعد و قوانین معین کر دیتا ہے - جو اس شے کی ’’تقدیر‘‘ بن جاتی ہیں (بفحوائے: خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا ﴿۲﴾ (۱) (الفرقان: ۲) اور الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی ۪ۙ﴿۲﴾وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی ۪ۙ﴿۳﴾ (۲)(الاعلیٰ: ۲‘۳) - پھر وہ ان ہی قواعد و قوانین کے مطابق اسے چلنے دیتا ہے. یہاں تک کہ جب اس کی مشیت متقاضی ہوتی ہے اس میں اپنے کلمہ ’’کُن‘‘ کے ذریعے کوئی جزوی تبدیلی پیدا کر کے ایک نئی مخلوق کی صورت عطا کر دیتا ہے. چنانچہ اوّلًا تو ’’خلق‘‘ اصلًا نام ہی اس کا ہے کہ کسی پہلے سے موجود شے سے کوئی دوسری شے پیدا کر دی جائے! (بمقابلہ ابداع و ایجاد - جو عدم محض سے وجود میں آنے سے عبارت ہے!) اور ثانیاً قرائن کی شہادتوں اور قرآن حکیم کے اشارات سے اسی جانب رہنمائی ملتی ہے کہ پوری کائنات کی تخلیق کی طرح حیاتِ ارضی کے ارتقاء نے بھی یہی صورت اختیار کی ہے!
لہذا اس معاملے میں ان لوگوں کیلئے تو کوئی مشکل ہے ہی نہیں جو ایک مُبدع و مُوجد اور ’’اَلْخَالِقُ الْبَارِیُ الْمُصَوِّرُ‘‘ ہستی پر یقین رکھتے ہیں - ان کے نزدیک تو یہ سارا سفر تنزل و ارتقاء اسی کی مشیت و تدبیر‘ اور اسی کے حکم
(۱) ’’اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی‘‘.
(۲) ’’جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا. اور جس نے اندازہ ٹھرایا، پھر راہ معین کی‘‘. و امر کا ظہور ہے. جیسے کہ حکیم اسلام مولانا رومؒ نے نہایت سادہ الفاظ میں فرمایا کہ ؏ ’’می کشد آں خالقے کہ دانیش!‘‘ یعنی یہ سارے فاصلے اُسی خالق نے طے کرائے ہیں جس سے تم بخوبی واقف ہو! (اس لئے کہ ان کے مخاطبِ اوّلین وہ مسلمان ہی تھے جو خالق ارض و سماوات پر ایمان رکھتے ہیں!)
البتہ وہ مادہ پرست جو اس مُبدع و مُوجد‘ اور خالق و باری ہستی کو ذہن و خیال سے دُور رکھتے ہوئے اس عقدے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حیاتِ ارضی کی کمتر سے برتر اور کہتر سے بہتر کی طرف چھلانگ کس طور سے لگی اور اس کا ’’میکانزم‘‘ کیا تھا وہ شدید مشکل سے دوچار ہو گئے ہیں.
چنانچہ ان کے سرخیل تو ہیں جناب ڈارون جنہوں نے اس کی خالص مادی اور انفعالی توجیہہ کی ہے - یعنی یہ کہ ماحول میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگی (Adaptation) اختیار کرنے اور وسائل زندگی کی محدودیت کی بناء پر ان کے ضمن میں کشاکش اور ’’تنازع للبقاء‘‘ (Struggle for Existence) کے نتیجے میں حیوانات کے جسمانی اور عضویاتی نظام میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں‘ جو تدریجاً بڑھتے بڑھتے اور نسلاً بعد نسل وراثت میں منتقل ہوتے رہنے سے ایک بالکل نئی نوع کی صورت اختیار کر لیتی ہیں - نتیجتاًجو نوع اپنے ماحول سے زیادہ سے زیادہ مطابقت پیدا کر لیتی ہے وہی پھلتی اور پھیلتی ہے - باقی انواع یا تو نابود ہو جاتی ہیں - یا عمل ارتقاء کی نچلی منزلوں پر ’’مقیم‘‘ ہو جاتی ہیں! - ڈارون کے اس نظرئیے کے تسلیم کئے جانے میں اہم ترین مانع اور کانٹے کی رکاوٹ تو یہ رہی کہ حیوانات ماحول کے زیراثر جو نئے
اوصاف (Acquired Characters) اختیار کرتے ہیں‘ ان کے تناسل و توارث کے ذریعے اگلی نسل کو منتقل ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکا - اس کے باوجود محض اس لئے کہ نفس ارتقاء کا معاملہ بدیہیات کے زمرے میں داخل ہو گیا تھا‘ ڈارون کی اس خالص مادی اور انفعالی توجیہہ کو فکر انسانی کے تمام دائروں میں اثر و نفوذ حاصل ہو گیا - جس کا نمایاں ترین مظہر یہ ہے کہ فلسفۂ مادیت کو منطقی انتہا تک پہنچانے والا مفکر کارل مارکس اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’داس کیپٹال‘‘ کو ڈارون ہی کے نام سے معنون کرنا چاہتا تھا. (اس ضمن میں اس واقعے کا ذکر دلچسپی کا موجب ہو گاکہ مارکس کے دوست اور رفیق کار انجلز نے اسے خط لکھا تھا کہ میں آج کل چارلس ڈارون کی کتاب پڑھ رہا ہوں‘ جو بہت ہی عمدہ ہے. اس لئے کہ اس نے مذہب کے آخری قلعے کو بھی مسمار کر دیا ہے‘ جس پر خود کارل مارکس نے بھی ڈارون کی کتاب کا مطالعہ کیا اور انجلز کے خیال سے اتفاق کا اظہار کیا.)
تاہم جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ہے خالص علم الحیات (Biology) کے میدان میں ڈارون کی یہ توجیہہ ارتقاء غیرمقبول ہوتے ہوتے تقریبًا دم توڑ چکی ہے - اور اس کی بجائے لا مارک اور اس کے ہم خیال لوگوں کا یہ مثبت نظریہ زیادہ قبولیت حاصل کر رہا ہے کہ ارتقاء کے اس سفر کا اصل محرک ماحول میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا انفعالی ردعمل نہیں بلکہ ’’حیات‘‘ میں یہ داخلی اور اساسی طور پر موجود (inherent) جذبہ اور ولولہ ہے کہ وہ ازخود ؏ ’’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں!‘‘ کے انداز میں آگے سے آگے بڑھتی چلی جائے. گویا یہ تبدیلی اندھے بہرے مادے کے محض حادثاتی عمل اور ردعمل کا مظہر نہیں بلکہ اس کی پشت پر ایک واضح مقصدیت کارفرما ہے! (چنانچہ اس نظرئیے کو علم الحیات کی اصطلاح میں (Purposeful and Teleological Evolution) کہا جاتا ہے‘ جو حقیقتِ نفس الامری سے نسبتاًقریب تر ہے!).
مزید برآں علم الحیات (Biology) کے میدان میں ڈارون کے بعد کے اکتشافات سے یہ حتمی طور پر معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تبدیلی اصلاً Genes یا DNA میں واقع ہوتی ہے - گویا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش میں والد کی جانب سے آنے والے sperm کی کمی کو پورا کیا تھا اللہ تعالیٰ کے ایک کلمۂ ’’کن‘‘ نے‘ اسی طرح ذاتِ خالق و باری و مصور نے جب چاہا اپنے امر ’’کُن‘‘ سے حیوانات کی کسی بھی نوع کے Genes میں تبدیلی پیدا کر دی - اور اس طرح ایک نئی نوع وجود میں آ گئی!
اور یہ سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہا. یہاں تک کہ ’’حیوانِ انسان‘‘ یعنی بیالوجی کی اصطلاح میں "Homo Sapiens" کے ظہور پر سفر ارتقاء کا یہ دوسرا مرحلہ تکمیل کو پہنچ کر اختتام پذیر ہو گیا!