تکمیلِ تخلیقِ آدمؑ -اور -عطاءِ خلعتِ خلافت

اور اس کے بعد پیش آیا تاریخِ کائنات کا عظیم ترین واقعہ یعنی ’’حیوانِ انسان‘‘ میں نفخ روحِ آدمؑ - اور اس طرح وجود میں آنے والے حضرت آدم علیہ السلام کو تفویضِ خلافتِ ارضی - اور اس کے لئے منعقد ہونے والے ’’جشن تاجپوشی‘‘ میں جملہ کارکنانِ قضا و قدر یعنی تمام ملائکہ کا بطورِ اظہارِ تسلیم و انقیاد ’’خلیفۃ اللّٰہ‘‘ کے سامنے سجدہ -لیکن ملائکہ کے طبقہ اسفل میں شامل جِنّ عزازیل کا اعلانِ بغاوت‘ اور نتیجتاً راندۂ درگاہِ رب قرار پانا. اور شیطان اور ابلیس کے خطابات سے نوازا جانا!

حکمت و فلسفۂ قرآن کی رو سے قصۂ آدم و ابلیس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ قرآن میں سات مرتبہ وارد ہوا - چھ بار مکی سورتوں میں‘ اور ایک مرتبہ مدنی سورت (البقرۃ)میں. پھر مکی سورتوں کے چھ مقامات جن میں یہ واقعہ مذکور ہے مصحف میں حیرت انگیز توازن و تقابل (symmetry) کے ساتھ واقع ہوئے ہیں. چنانچہ مصحف کے عین وسط میں واقع ہیں فلسفہ و حکمت قرآنی کے دو عظیم ترین خزانے یعنی سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف - جو سورتوں کے نہایت حسین و جمیل اور حد درجہ متوازن و متناسب جوڑے کی صورت میں ہیں‘ اس لئے کہ دونوں ہی بارہ بارہ رکوعوں پر مشتمل ہیں اور آیات کی تعداد بھی تقریبًا برابر (۱۱۱ اور ۱۱۰) ہے! - اور مزید حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان دونوں ہی کے ساتویں رکوع کے آغاز میں مذکور ہے یہ قصۂ آدم و ابلیس! - پھر سورۂ بنی اسرائیل سے پیچھے کی جانب مڑیئے تو ایک سورۃ (النحل) چھوڑ کر سورۃ الحجر میں یہ واقعہ مذکور ہے تو دوسری جانب سورۂ کہف سے آگے بڑھئے تو ایک سورت (مریمؑ) چھوڑ کر سورۂ طٰہٰ میں اس کا ذکر موجود ہے - پھر سورۃ الحجر سے چھ پارے پیچھے ہٹئے تو سورۃ الاعراف میں‘ اور ادھر سورۂ طٰہٰ سے سات پارے آگے جائیں تو سورۂ ص میں یہ قصہ وارد ہوا ہے - اور پھر ترتیب نزول کے اعتبار سے ان سب کے بعد یہ قِصّہ سورۃ البقرہ میں ایک اہم اضافے یعنی آدمؑ کو خلافتِ ارضی عطا کئے جانے کے ذکر کے ساتھ مذکور ہے - اس لئے کہ اس سورۂ مبارکہ کے نزول کے وقت سرزمین یثرب میں عرصۂ دراز کے بعد از سر نو ’’خلافتِ الٰہی‘‘ کے بالفعل قیام کا آغاز ہوگیاتھا!

متذکرہ بالا سات مقامات میں سے دو مقامات (سورۃ الحجر اور سورۂ ص) اس اعتبار سے نہایت اہم ہیں کہ ان میں حضرت آدمؑ کے ذکر سے قبل ’’بشر‘‘ کی تخلیق اور تسویہ کا ذکر ہے. چنانچہ سورۂ ص میں فرمایا گیا اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۱﴾ (۱)(آیت :۷۱اور سورۃ الحجر میں فرمایا گیا وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ (۱) ’’جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں‘‘. مَّسۡنُوۡنٍ (۱)(آیت: ۲۸گویا ان دونوں مقامات پر اولًا ؏ ’’ہر دو عالم خاک شد تا بست نقشِ آدمی!‘‘ کے مصداق انسان (بشر) کی تخلیق کے لئے قرآن میں جو چھ اصطلاحات وارد ہوئی ہیں یعنی تُراب ، پھر طِین‘ پھر طِیْنٍ لَّازِبٍ‘ پھر حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ‘ پھر صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ‘ اور بالآخر صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ - ان میں سے سورۂ ص میں ابتداء سے دوسری اصطلاح کا ذکر ہے - اور سورۃ الحجر میں آخری سے پہلی والی اصطلاح مذکور ہے!) 

- اور ثانیاً اس کے بعد ان دونوں سورتوں میں دو دو آیات بعینہٖ ایک جیسے الفاظ میں وارد ہوئی ہیں‘ یعنی 
فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ۙ۳۰﴾ (۲)(الحجر :۲۹۳۰ اور ص:۷۲۷۳ان دونوں مقامات پر ’’تسویہ‘‘کی اصطلاح میں سمو لیا گیا ہے پورا عمل ارتقاءِ حیاتِ ارضی‘ جو منتج ہوا ’’حیوانِ انسان‘‘ کے ظہور پر‘ اس کے بعد ذکر ہوا اُس حیوانِ انسان میں رُوحِ آدم کے پھونکے جانے کا - جو اُس وقت تک مخزنِ ارواح میں محوِ خواب تھی - اور جس کے عز و شرف کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی ذات کی جانب منسوب کیا - یعنی ’’مِنْ رُّوْحِیْ‘‘اور اس طرح وجود میں آئے حضرت آدمؑ جن کو سجدہ کرنے کا حکم جملہ ملائکہ کو دے دیا گیا! جنہوں نے بلا حیل و حجت اور بغیر پس و پیش آنِ واحد میں تعمیل حکم میں سرجھکادیئے‘ اس لئے کہ ان کی شان ہی یہ ہے کہ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ (۳)(التحریم:۶

(۱) ’’اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں‘‘.

(۲) ’’پھر جب میں اسے پوری طرح بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا! چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا‘‘

(۳) ’’وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں‘‘. جیسے کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے ملائکہ کا یہ سجدہ علامت یا symbol تھا ان کے حضرت آدم کو ’’خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ‘‘ تسلیم کر کے ان کے سامنے اطاعت و انقیاد کے اقرار کا - اور یہ گویا ’’جشن تاجپوشی‘‘ تھا جو حضرت آدم علیہ السلام کو خلعتِ خلافت عطا ہونے پر منعقد کیا گیا.