قرآن مجید کے متذکرہ بالا ساتوں مقامات پر جملہ ملائکہ کے حضرت آدمؑ کو سجدہ کر لینے کے ذکر کے معاً بعد الفاظ وارد ہوئے ہیں اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ اور پھر مختلف مقامات پر مختلف الفاظ ملتے ہیں‘ جیسے :سورۃ البقرۃ آیت ۳۴میں اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ (۱سورۃ الاعراف آیت ۱۱میں لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ (۲سورۃ الحجر آیت ۳۱میں اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ (۳سورۂ بنی اسرائیل آیت ۶۱میں قَالَ ءَاَسۡجُدُ لِمَنۡ خَلَقۡتَ طِیۡنًا (۴سورۂ کہف آیت ۵۰میں کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ (۵سورۂ طٰہٰ آیت ۱۱۶میں صرف ’’اَبٰی‘‘ اور سورۂ ص آیت۷۴میں اِسۡتَکۡبَرَ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ (۶(گویا سورۃ البقرۃ میں سورۂ طٰہٰ اور سورۂ ص میں وارد شدہ الفاظ جمع کر دیئے گئے ہیں!)
یہاں اس سوال کے دو جواب ممکن ہیں کہ جب حکم سجدہ فرشتوں کو دیا گیا 


(۱) ’’اس نے انکار کیا، وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا‘‘.
(۲) ’’وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا‘‘.
(۳) ’’اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ دینے سے انکار کر دیا‘‘.
(۴) ’’اس نے کہا: کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟‘‘
(۵) ’’وہ جِنّوں میں سے تھا اس لئے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا‘‘.
(۶) ’’اس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا‘‘. 
تو عزازیل نامی جِنّ اس کا مخاطب کیسے قرار پایا؟ - یعنی ایک یہ کہ حکم الٰہی اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ (۱فرشتوں اور جِنّات دونوں کو تھا لیکن ذکر برسبیلِ تغلیب صرف فرشتوں کا کیا گیا -اور دوسرا یہ کہ‘ جیسے کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے‘ عزازیل اپنے علم اور زہد و طاعت کی بنا پر ملائکہ کے طبقۂ اسفل میں شامل ہو گیا تھا - واللہ اعلم!

البتہ اصل لائق توجہ امر یہ ہے کہ خود ابلیس نے اپنے انکار و بغاوت کا سبب کیا بیان کیا - سورۃ البقرہ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے - سورۃ الاعراف میں اس کے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں کہ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۱۲﴾ (۲)(آیت ۱۲سورۃ الحجر میں یہ قول وارد ہوا قَالَ لَمۡ اَکُنۡ لِّاَسۡجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ (۳)(آیت ۳۲سورۂ بنی اسرائیل میں وارد شدہ الفاظ پہلے ہی درج کئے جا چکے ہیں یعنی قَالَ ءَاَسۡجُدُ لِمَنۡ خَلَقۡتَ طِیۡنًا سورۂ کہف اور سورۂ طٰہٰ میں بھی اس کا کوئی قول مذکور نہیں - البتہ سورۂ ص میں دوبارہ بعینہٖ وہی الفاظ وارد ہوئے ہیں جو سورۃ الاعراف میں ہوئے تھے یعنی اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ (آیت ۱۲) . 

اس پوری تفصیل کے بیان سے غرض یہ ہے کہ یہ حقیقت بالکل مبرہن ہو جائے کہ ابلیس کی بغاوت کا اصل سبب یہ تھا کہ اس کے سامنے حضرت آدمؑ کی شخصیت کا صرف وہ حیوانی پہلو تھا جو خاکی الاصل ہونے کے ناطے مرتبہ و مقام 

(۱) ’’سجدہ کرو آدم کو‘‘.
(۲) ’’میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے‘‘.
(۳) ’’اس نے کہا: میرا یہ کام نہیں کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے‘‘. 
کے اعتبار سے ناری الاصل جنات کے مقابلے میں کمتر تھا - اور یہ اس لئے کہ چونکہ ابلیس کا تعلق بھی حیوانِ انسان کی مانند عالمِ خلق سے تھا لہذا حیوانِ انسان سے تو وہ بخوبی واقف تھا - لیکن رُوحِ آدمؑ کا تعلق چونکہ عالمِ اَمر اور اس کے بھی طبقۂ اعلیٰ سے تھا جس تک جنات کے علم و ادراک کی رسائی ہی نہیں تھی لہذا وہ اس سے ناواقف اور ’’محجوبِ محض‘‘ تھا. جبکہ - آدمؑ کے عز و شرف کی اصل بنیاد اور انہیں خلافتِ ارضی کا اہل اور مسجودِ ملائک بنانے والی اصل شے ہی وہ رُوحِ ربّانی تھی جو ان کے حیوانی جسد میں پھونکی گئی - اور جسے خالق کائنات نے اپنی ذات کی جانب منسوب کیا! بفحوائے فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ (۱)(الحجر:۲۹اور ص:۷۲گویا ابلیس کی گمراہی اور بغاوت کا اصل سبب یہ تھا کہ آدمؑ کی مرکب شخصیت‘ جو دو اجزاء کے جمع ہونے سے وجود میں آئی تھی‘ یعنی ایک حیوانی وجود جس کا تعلق ’’عالمِ خلق‘‘ سے تھا‘ اور دوسرے روحانی وجود جس کا تعلق ’’عالمِ اَمر ‘‘ سے تھا‘ ان میں سے حیوانی وجود تو اس کے سامنے تھا‘ لیکن روحانی وجود سے وہ ’’محجوب‘‘ تھا!(اور غالباً یہی حقیقت ہے جس کی جانب اشارہ ہوا ہے اس فرمانِ الٰہی میں کہ خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ میں نے اس آدم کو اپنے ’’دونوں ہاتھوں‘‘ سے بنایا ہے - اور جس کی سادہ ترین تعبیر شیخ سعدی ؒ کے اس شعر میں ہے کہ ؏ 

’’آدمی زادہ طرفہ معجون است از فرشتہ سرشتہ وز حیواں‘‘
اور بعینہٖ یہی سبب ہے عہد حاضر کی اس عالمی ضلالت و شیطنت کا جو مادہ پرستانہ نقطۂ نظر اور اندازِ فکر کے غلبہ و استیلاء کی بنا پر پورے عالمِ انسانی کو اپنی 

(۱) ’’پھر جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘. لپیٹ میں لے چکی ہے - اور جسے دو آتشتہ یا سہ آ تشہ ہی نہیں صد آ تشہ کر دیا ہے نظریۂ ارتقاء کی جملہ سائنسی تعبیرات نے‘ جن کا حاصل یہ ہے کہ انسان بس نسبتاً زیادہ ارتقاء یافتہ حیوان ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں! - اس لئے کہ ٹھیک عزازیل ہی کے مانند علومِ طبیعی(Physical Sciences) بھی رُوح اور روحانیت سے محجوب ہونے کے باعث انسان کے صرف حیوانی وجود ہی سے بحث کر سکتے ہیں‘ رہے ’’عالمِ اَمر‘‘ کے معاملات یا بالفاظِ دیگر ’’مابعد الطبیعیات‘‘ تو وہ ان کے دائرہ تحقیق و تفتیش سے خارج اور ماوراء ہیں!

بہرحال‘ اسی ’’یک رخے‘‘ علم نے اُس ’’یک رخے‘‘ اور خالص مادہ پرستانہ فکر یعنی (Scientism) کو جنم دیا -جس سے موجودہ ’’یک چشمی‘‘ دجالی تہذیب وجود میں آئی ہے‘ جو خالص مادہ پرستانہ نقطۂ نظر پر مبنی اور رُوح اور رُوحانیت سے بیگانہ و نابلد محض ہے -اور جو آج نوعِ انسانی کی عظیم اکثریت میں اس درجہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ نفوذ کر چکی ہے‘ کہ مشرق و مغرب کے عوام الناس ہی نہیں‘ عہد حاضر کے بیشتر مسلم سکالر اور دانشور حتیٰ کہ داعیانِ تحاریک اسلامی بھی ’’رُوح‘‘ کے آزاد اور جداگانہ تشخص و وجود سے منکر ہیں - اور اسے صرف حیات یا زندگی یا ’’جان‘‘ کے مترادف خیال کرتے ہیں- فوا حسرتًا ویا اسفًا!!