رحم مادر میں نسل انسانی کے ہر فرد کے ضمن میں آغازِ حیات سے تاجپوشی آدم علیہ السلام تک کے طویل سفر کاخورد بینی اعادہ!

روئے ارضی پر حیات کا آغاز ایک ایسے خورد بینی جرثومے سے ہوا تھا جو صرف ایک خلیئے (Cell) پر مشتمل تھا. وہاں سے حیوانِ انسان (Homo Sapiens) تک کا سفر لکھوکھا برس میں طے ہوا - لیکن اس کے بعد نسل آدمؑ میں دوسرے حیوانات کی مانند جو سلسلۂ توالد و تناسل جاری ہوا‘ اس کے ضمن میں دوسرے حیوانات سے بالکل جداگانہ اور ممیز مرحلہ وہ آتا ہے جب رحم مادر میں پرورش پانے والے ابنِ آدم کے ہر جنین (Embryo) کی آدمؑ ہی کی طرح ’’تاجپوشی‘‘ ہوتی ہے‘ اور اس میں بھی اس کی وہ ’’رُوح‘‘ لا کر پھونک دی جاتی ہے‘ جو اس وقت تک ’’مخزنِ ارواح‘‘ میں محو خواب تھی!

قرآن حکیم میں علم جنین (Embryology) کے جو حوالے آئے ہیں‘ انہوں نے واقعہ یہ ہے کہ ماہرین علمِ جنین کو حیرت زدہ کر کے رکھ دیا ہے. اس سلسلے میں کینیڈا کے دو ماہرین علم جنین کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا. چنانچہ 

(۱) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو یقینا مٹنے ہی والا ہے‘‘. یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کتھ ایل مور‘ جن کی علم جنین پر دو تصانیف اکثر یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہیں‘ اور ڈاکٹر رابرٹ ایڈورڈز‘ جو ٹسٹ ٹیوب بے بی کے ضمن میں شہرت یافتہ ہیں‘ دونوں نے نہایت متحیرانہ انداز میں گواہی دی ہے کہ قرآن حکیم نے رحم مادر میں انسانی جنین کی درجہ بدرجہ پرورش کی جو نقشہ کشی کی ہے وہ ان معلومات کے ساتھ حیرت ناک حد تک مطابقت رکھتی ہے جو خورد بین کی ایجاد کے بعد حال ہی میں انسان کے علم میں آئی ہیں.

قرآن حکیم میں انسانی جنین کے مدارجِ ارتقاء کے حوالے یوں تو بہت سے مقامات پر آئے ہیں لیکن بلاشبہ ان کے ذروئہ سنام کی حیثیت حاصل ہے سورۃالمومنون کی آیات ۱۲ تا ۱۴ کو! جن میں تخلیق انسانی کو اولًا چار بڑے مراحل پر مشتمل قرار دیا گیا‘ جن کو کلمۂ ’’ثُمَّ‘‘ کے ذریعے ایک دوسرے سے متمیز کیا گیا - پھر ان میں سے ایک یعنی تیسرے بڑے مرحلے کو چار چھوٹے مراحل میں تقسیم قرار دیا گیا‘ جنہیں ایک دوسرے سے متمیز کیا گیا صرف کلمہ ’’فَ‘‘ کے ذریعے. (گویا تین آیات میں تین ہی بار ’’ثُمَّ‘‘ وارد ہوا‘ اور تین ہی مرتبہ کلمۂ ’فَ‘‘ )-اس تمہید کے بعدغور فرمایئے کہ پہلا بڑا مرحلہ بیان ہوا ان الفاظ میں کہ وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ۱۲﴾ یعنی ’’ہم نے پیدا کیا انسان کو گارے سے کشید شدہ خلاصے سے!‘‘ پھر دوسرا بڑا مرحلہ بیان ہوا‘ یعنی ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪۱۳یعنی ’’پھر ہم نے اسے ایک مضبوط جائے قرار (یعنی رحم مادر کی محکم فصیل یا دیوار) میں ایک بوند کی شکل میں رکھا!‘‘ - پھر تیسرے بڑے مرحلے کی تفصیلات آئیں جو چار چھوٹے مراحل میں منقسم ہے‘ یعنی ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ یعنی ’’پھر ہم نے اس بوند کو (جونک کی مانند) لٹکی ہوئی شکل دے دی‘ پھر اس لٹکی ہوئی شے کو ہم نے گوشت کے ایک (چبائے ہوئے) لوتھڑے کی صورت دے دی‘ پھر ہم نے اس لوتھڑے میں ہڈیاں بنا دیں‘ اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا‘‘ - اور آخر میں پھر ’’ثُمَّ‘‘ کے فصل کے ذریعے چوتھے اور آخری بڑے مرحلے کا ذکر فرمایا گیا ان الفاظ مبارکہ میں کہ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ یعنی ’’اس کے بعدہم نے اسے ایک اور ہی مخلوق بنا کھڑا کیا!‘‘ - اور آخر میں فرمایا فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ’’پس بہت ہی بابرکت ہے اللہ جو بہترین تخلیق فرمانے والا ہے!‘‘

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ 
ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ سے مراد کیا ہے؟ اس کے جواب کے لئے اپنے تعقل و تفکر یا تصور و تخیل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے رجوع کرنا چاہئے اُس ہستی کی جانب جس کے فرائض منصبی میں یہ داخل ہے کہ قرآن کے اجمال کی تفصیل اور ابہام کی تبیین فرمائیں‘ بفحوائے: وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ (۱)(النحل:۴۴)
فصَلَّی اللّٰہ علیہ وعلی اٰلہ واصحابہ وسلَّم! 

چنانچہ بخاریؒ اور مسلمؒ دونوں نے روایت کیا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے یہ فرمان نبوی  کہ
اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً نُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یُرْسِلُ اِلَیْہِ الْمَلَکُ فَـیَنْفُخُ فِیْہِ الرُّوحَ
یعنی ’’تم میں سے ہر شخص کی تخلیق اس طور سے ہوتی ہے کہ وہ رحم مادر میں چالیس روز تک نطفہ کی صورت میں ہوتا ہے‘ پھر اتنی ہی مدت علقہ کی صورت میں‘ اور پھر اتنا ہی عرصہ مضغہ کی صورت میں‘ اور پھر فرشتے کو بھیجا جاتا

(۱) ’’اور (اے نبیؐ !) یہ ذکر آپ پر نازل کیا گیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح وتوضیح کرتے جائیں جو ان کے لئے اتاری گئی ہے‘‘. ہے جو اس میں ’’ رُوح‘‘ پھونک دیتا ہے!‘‘ - گویا یہ ہے ابنِ آدم کی وہ ’’تاجپوشی‘‘ جس کے بعد وہ حقیقتاً ’’آدمی‘‘ قرار پاتا ہے. جبکہ اس سے قبل وہ رحم مادر میں صرف ’’حیوانِ انسان‘‘ کے ارتقائی مراحل طے کر رہا تھا!

اب سوائے اپنے سر کو پیٹنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے اس پر کہ جدید علوم سے بے بہرہ اور علم الحیات 
(Biology) کی ابجد سے بھی ناواقف ’’علماء‘‘ ہی نہیں‘ اچھے بھلے جدید تعلیم سے آراستہ و پیراستہ انسان بھی یہاں ’’ رُوح‘‘ سے مراد زندگی یا ’’جان‘‘ لے لیں! جبکہ علم الحیات کی ابجد سے واقف ہر بچہ بھی جانتا ہے کہ نہ صرف وہ ’’ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ‘‘ جو رحم مادر میں پروش پاتا ہے‘ بلکہ والد کی جانب سے آنے والا جرثومہ (Sperm) اور والدہ کا بیضہ (Ovum) جن کے امتزاج سے وہ نطفۂ امشاج وجود میں آتا ہے‘ دونوں ’’حیات‘‘ سے پوری طرح متصف ہوتے ہیں - بلکہ والد کی جانب سے آنے والا ’’سپرم‘‘ تو نہ صرف ’’زندہ‘‘ بلکہ بھرپور جوش و خروش کے ساتھ متحرک بھی ہوتا ہے!