نوع انسانی کا ذہنی اور عمرانی ارتقاء

ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کے جس مقالے کا ذکر اوپر آیا ہے اس میں انہوں نے تخلیق آدم کے بعد سے لے کر اب تک جاری رہنے والے دور کو نظریاتی یا تصوراتی ارتقاء (Ideological Evolution) کا دور قرار دیا ہے - جبکہ ان سطور کے عاجز و ناچیز راقم کے نزدیک ارتقاء کے اولین مرحلے یعنی خالص طبیعیاتی اور کیمیاوی ارتقاء‘ اور دوسرے مرحلے یعنی حیاتیاتی ارتقاء کے بعد ارتقاء کے دو مزید مراحل گزر چکے ہیں‘ اور تیسرا اس وقت جاری ہے!

ان میں سے پہلا مرحلہ راقم کی رائے میں ’’ذہنی ارتقاء‘‘ یعنی (Intellectual Evolution) کا تھا جس کا حاصل یہ تھا کہ انسان اس قابل ہو جائے کہ حقیقت الحقائق یعنی ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ‘ اور عظیم حقائقِ کونیہ سے ’’غیب‘‘ میں ہونے اور مادی کائنات کے زنداں میں محبوس ہو جانے کے باوجود کسی ’’غیبی اطلاع‘‘ - یعنی وحیٔ ربّانی کے بغیر خود اپنی فطرتِ سلیمہ اور عقل سلیم کی رہنمائی میں ’’آفاق میں گم شدگی‘‘ سے ؏ ’’ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں!‘‘ کے سے انداز میں چھلانگ لگا کر نکل آئے‘ اور کل آفاق کو خود اپنے اندر جذب یا ’’گم‘‘ کرتے ہوئے ’’منزلِ ما کبریاست!‘‘ 

اور ؏’’یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ!‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ’’بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‘‘ اور خالق کون و مکان کو نہ صرف پہچان لے بلکہ - ’’مال و دولت دُنیا‘‘ اور ’’رشتہ و پیوند‘‘ کے جملہ ’’بتانِ وہم و گمان‘‘ سے ناطہ توڑ کر بالکلیہ اسی کا ہو کر رہ جائے - چنانچہ یہ تھا انسان کے ذہنی و فکری ارتقاء کا وہ مرحلۂ اوّل جس کی تکمیل ہوئی حضرت آدمؑ سے لگ بھگ پانچ ہزار برس بعد حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت مبارکہ پر جنہوں نے ایسے ماحول میں پیدا ہونے کے باوجود جہاں ہر نوع کے شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے‘ چنانچہ بُت پرستی بھی تھی‘ اور ستارہ پرستی بھی‘ اور سب سے بڑھ کر ’’بادشاہ پرستی‘‘ بھی‘ اپنے ذاتی غور و فکر کے نتیجے میں (واضح رہے کہ سورۃ الانعام کی آیات ۷۶ تا ۷۸ کی ایک تاویل یہ بھی ہے!) یہ فیصلہ کر لیا کہ اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾ (آیت ۷۹یعنی :’’میں نے تو (کُل کون و مکاں اور ہر چہار سو سے منقطع ہو کر) اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا - بالکل اسی کا ہو کر رہتے ہوئے - اور میں ہرگز (اس کے ساتھ) شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں!‘‘ - چنانچہ یہی وہ توحید کامل تھی جوان کی پوری شخصیت میں سرایت کر گئی تھی‘ جس کی بنا پر وہایک جانب ’’خلیل اللّہ‘‘ قرار پائے بفحوائے وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا (۱)(النسائ:۱۲۵تو دوسری جانب اپنے بعد کی پوری نسل انسانی کے امام قرار دیئے گئے‘بفحوائے اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (۲)(البقرۃ:۱۲۴اگرچہ سب جانتے ہیں کہ انہیں اس مقام کے حصول کے لئے اپنی نظری ’’توحید‘‘ کے عملی ثبوت کے لئے ایک سے ایک بڑھ کر کڑے امتحانات اور یکے بعد دیگرے سخت سے سخت تر آزمائشوں اور ابتلاؤں میں سے گزرنا پڑا.

حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت پر اس ذہنی ارتقاء کی تکمیل کے بعد عمرانی ارتقاء یعنی (Social Evolution) کا مرحلہ شروع ہوا‘ جو عبارت ہے اس سے کہ سرمد کے اس شعر کے مصداق کہ

مُلّا گوید کہ محمدؐ بالائے آسماں رفت
سرمد گوید کہ آسماں بہ محمدؐ درشد!
(۳)

وہ توحید جو حضرت ابراہیمؑ کی پوری شخصیت میں سرایت اور آنجنابؑ کے روئیں روئیں میں حلول کر کے گویا پوری طرح Internalise ہو گئی تھی‘ جس سے ایک فرد کی حد تک ’’تَخَلَّقُوا بِاِخْلَاقِ اللّٰہ‘‘ (۴کا تقاضا بتمام و کمال پورا ہو گیا تھا. جس کے نتیجے میں صداقت اور وفا شعاری‘ اور حلم و تحمل کے جملہ اوصافِ عالیہ کا کامل انعکاس حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت میں ہو گیا تھا - اب وہ Externalise ہو‘ اور انسانی معاشرے اور اجتماعیت میں سرایت کر کے ایک ایسی ریاست وجود میں لے آئے جس میں ذاتِ حق سبحانہ‘ وتعالیٰ کی حاکمیتِ مطلقہ اور ربوبیتِ عامہ پورے طور پر منعکس اور ’’مشہود‘‘ ہو جائیں اور اس طرح اس کی وہشان بتمام و کمال ظاہر

(۱) ’’اور ابراہیم ؑ کو تو اللہ نے اپنا خلیل بنا لیا تھا‘‘.
(۲) ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘.
(۳) ترجمہ شعر: ’’ مُلا کہتا ہے کہ محمد  آسمان پر تشریف لے گئے، لیکن سرمد کا کہنا ہے کہ آسمان محمد  کے اندر اتر گیا‘‘.
(۴) ’’اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے متصف ہو جاؤ ‘‘. 
ہو جو اس کے نامِ نامی ’’العدل‘‘اور صفت مبارکہ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ (۱)(آل عمران:۱۸میں بیان ہوئی ہے.

یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں حضرت ابراہیمؑ سے قبل کے جن تین رسولوں کا ذکر بار بار آیا ہے یعنی حضرت نوحؑ ‘ حضرت ھودؑ اور حضرت صالح ؑ - ان کی قوموں کا صرف ایک ہی مرض بیان ہوا ہے یعنی شرک‘ اس لئے کہ محسوس ہوتا ہے کہ اُس وقت تک انسانی تمدن اتنا سادہ اور فطرت سے اتنا قریب تھا کہ ابھی جنسی بے راہ روی اور معاشرتی فساد‘ مالی لوٹ کھسوٹ اور معاشی استحصال‘ اور سیاسی جبر و استبداد یا ’’مستکبرین‘‘اور ’’مستضعفین‘‘ کی تقسیم ایسے عمرانی و تمدنی امراض پیدا ہی نہیں ہوئے تھے - لیکن حضرت ابراہیمؑ کے زمانے ہی سے یہ نظر آتا ہے کہ انسان کی ہیئت اجتماعی کے ان مفاسد اور امراض خبیثہ کا آغاز ہو جاتا ہے - چنانچہ حضرت لوطؑ مبعوث ہوئے سدوم اور عامورہ کی بستیوں کی جانب جہاں جنسی بے راہ روی (Sexual Perversion) بدترین اور مکروہ ترین صورت میں نمودار ہوئی‘ پھر حضرت شعیبؑ اٹھائے گئے اپنی قوم مدین یا مدیان میں‘ جس میں مالی لوٹ کھسوٹ کی مختلف صورتوں کا رواج ہو گیا تھا. اور پھر حضرت موسیٰؑ کو مبعوث کیا گیا بالخصوص فرعون اور اس کے سرداروں کی جانب جنہوں نے ایک قوم (بنی اسرائیل) پر جبر و استبداد اور جور و ظلم کی حد کر دی تھی‘ بفحوائے الفاظ قرآنی

اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ یُذَبِّحُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ یَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۴﴾ (۲)(القصص:۴).

ان تینوں جلیل القدر رسولوں کے ضمن میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس 

(۱) ’’انصاف پر قائم‘‘.
(۲) ’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا. ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، ان کے لڑکوں کو قتل کرتا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا. فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘. 
اعتبار سے تو کامیابی تینوں ہی کو حاصل ہو گئی کہ تینوں کے مخالفین و معاندین نیست و نابود کر دیئے گئے‘ تاہم ان کی دعوت کو اس پہلو سے کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی کہ ان کی قوموں کی بحیثیت مجموعی تقدیر بدل جاتی. البتہ یہ کامیابی صرف حضرت موسیٰؑ کو حاصل ہوئی کہ انہوں نے مجبور و مقہور قوم کو غلامی اور تعذیب سے بالفعل نجات دلا دی. اگرچہ یہ سب کچھ ہوا معجزات اور خالص خرقِ عادت حوادث و واقعات کے ذریعے -لیکن پھر حضرت عیسیٰؑ مبعوث ہوئے انہی بنی اسرائیل کی طرف اُس وقت جبکہ وہ اپنے دینی و اخلاقی زوال کی انتہا کو پہنچ گئے تھے‘ اور اِن کی مذہبی سیادت و قیادت‘ خواہ وہ احبار پر مشتمل تھی یا رھبان پر‘ مذہب کی بدترین Perversion کے شاہکار کی حیثیت اختیار کر چکی تھی‘ اور آنجنابؑ نے ان کی اس دُنیا پرستی کا پردہ چاک کیا جو مذہبیت اور دینداری کے پردے میں ہو رہی تھی‘ اور ان کی حقیقت و رُوحِ دین سے دوری اور بے جان رسم پرستی اور خشک قانونی موشگافیوں پر تیز و تند تنقیدیں کیں - تو ان کے قصر سیادت و پیشوائیت میں تو کوئی ضعف پیدا نہ ہو سکا‘ الٹا انہوں نے آنجنابؑ کو اپنے بس پڑتے تو سولی پر چڑھا دیا‘ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ کی قدرتِ کاملہ اور حکمت بالغہ نے وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ (۱) (النسائ:۱۵۷کی صورت پیدا کر دی اور آنجنابؑ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا -گویا حضرت ابراہیمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک تمام رسول معاشرتی‘ معاشی‘ اور سیاسی بے راہ روی اور بے اعتدالی‘ 

(۱) ’’حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیانہ صلیب پر چڑھایا، بلکہ معاملہ ان کے لئے مشتبہ کر دیا گیا. اور ظلم و تعدی کے خلاف جہاد تو کرتے رہے لیکن انہیں کہیں کوئی عملی کامیابی حاصل نہ ہو سکی! (واضح رہے کہ حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ اول تو رسول نہیں صرف نبی تھے - اور ثانیاً انہوں نے اپنے دور حکومت میں جو عدل و انصاف کی جھلک دکھائی‘ وہ اس حکومت و اقتدار کی بنا پر تھی جو ان کی دعوت و جہاد کے نتیجے میں نہیں بلکہ محض اتفاقی یا حادثاتی انداز میں خالص وہبی طور پر عطا ہوئی تھی.)

تاہم حضرت عیسیٰؑ سے چھ سو سال بعد بعثت ہوئی محمد رسول اللہ  کی جنہیں اقبال نے بجا طور پر ’’ آیۂ کائنات کا معنیٔ دیریاب‘‘ قرار دیا جس کی تلاش میں ’’قافلہ ہائے رنگ و بو‘‘ کو بہت دُور دراز اور طویل سفر طے کرنا پڑا - اس لئے کہ ایجاد و ابداعِ کائنات سے لے کر تخلیق و تسویہ تک کے جملہ مراحل تنزل و ارتقاء‘ اور پھر قَدَّرَ فَہَدٰی ۪ۙ﴿۳﴾ (۱) (الاعلیٰ:۳کے طویل سفر کی منزل مقصود آپؐہی کی ذاتِ مبارکہ تھی‘ جس نے ’’توحید‘‘ کو بہ تمام و کمال Externalise کر کے شہنشاہِ ارض و سماوات اور جملہ مخلوقات کے پالن ہار کی حاکمیت مطلقہ اور ربوبیت عامہ پر مبنی معاشرہ اور ریاست بالفعل قائم کردی. یعنی زمین پر اللہ کی خلافت کا کامل نظام عملاً قائم کر دیا. اور اس طرح نوع انسانی کے عمرانی ارتقاء کا مرحلہ اصولی اعتبار سے پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا.

واضح رہے کہ اقبال کے اس مصرعے کہ ؏ ’’تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے!‘‘ کے مصداق آنحضورؐ کی ذاتِ اقدس کے ذریعے کاروانِ ا نسانیت اور قافلۂ انبیاء و رُسل ’’دونوں‘‘ اپنی آخری ’’معراج‘‘ کو پہنچ گئے - قافلۂ انبیاء و رُسل اس اعتبار سے کہ ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ‘ جو خود قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ہے‘ کے جاری کردہ سلسلۂ بعثت ِانبیاء و رسل اور 

(۱) ’’اندازہ ٹھہرایا، پھر راہ معین کی‘‘. تنزیلِ کتاب و میزان کا اصل مقصد- یعنی لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ (۱) (الحدید:۲۵آپؐ ہی کے ذریعے پورا ہوا - اور کاروانِ انسانیت اس اعتبار سے کہ اس نظامِ عدل و قسط کے قیام کے لئے جو جدوجہد آپؐ نے کی وہ خالص انسانی سطح پر‘ سلسلۂ اسباب و علل کے حصار میں رہتے ہوئے‘ اور ٹھوس زمین پر قدم بہ قدم چلتے ہوئے کی. جس سے انسان کی عظمت آشکارا ہوئی. اور علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق جو انہوں نے غالب کی شان میں کہا ہے کہ ؎
فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پرِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا!

آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سعی و جہد‘ محنت و مشقت‘ ایثار و قربانی‘ صبر و مصابرت‘ اور ثبات و استقامت سے یہ حقیقت ’’روشن‘‘ اور مبرھن ہوئی کہ انسان واقعتا خالق ارض و سما کی تخلیق کا شاہکار اور حقیقتاً اشرف المخلوقات ہے!جس میں اللہ تعالیٰ نے قوّت و صلاحیت کے اتھاہ خزانے ودیعت کئے ہیں!

الغرض‘ اصولی اعتبار سے ’’انسانِ کامل‘‘ اور ’’رسولِ کامل‘‘  کے ظہور پر ایجاد و ابداع‘ تخلیق و تسویہ‘ اور تقدیر و ہدایت کا وہ طویل سفر ؏ ’’شکر صد شکر کہ جمازہ بمنزل رسید‘‘ کے مصداق اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گیا جو تنزلات اور ارتقاء کے طویل اور پیچ در پیچ مراحل سے گزرا تھا - اور اب اس کا صرف ایک ضمنی مرحلہ باقی ہے‘ یعنی یہ کہ جو بلند چھلانگ محمد رسول اللہ  نے انسانی معاشرے اور اجتماعیت کو آج سے چودہ سو سال قبل لگوائی تھی وہ ؏ ’’خدارا آں کرم بارے دگر کن!‘‘ کے مصداق دوبارہ لگے اور اس شان سے لگے کہ کُل روئے ارضی اور پورے عالمِ انسانیت کو اپنی آغوشِ رحمت میں لے لے - چنانچہ یہی ہے ’’نوع انسانی کے عمرانی 

(۱) ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘. ارتقاء‘‘ کی وہ آخری منزل جس کی جانب قافلہ انسانیت خواہی نخواہی کشاں کشاں بڑھ رہا ہے‘ اس حال میں کہ اس کی جھولی میں علم و حکمت اور بالخصوص اعلیٰ سماجی اقدار کی جو بھی ’’خیر‘‘ موجود ہے وہ فی الحقیقت محمد رسول اللہ  ہی کی ’’خیرات‘‘ ہے‘ اور اس ’’خیر‘‘ کی تکمیل کی ’’ آرزو‘‘ کے ضمن میں وہ اس وقت بالکل اسی طرح ’’ تلاشِ مصطفی ‘‘ میں سرگرداں ہے جیسے اربوں سال قبل ’’قافلہ ہائے رنگ و بو‘‘ نکلے تھے! بقول اقبال ؎ 

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آنکہ از خاکش بروید آرزو
یا زنورِ مصطفی ؐ او را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی ؐ است

چنانچہ یہ امر قطعاً شدنی اور اٹل ہے کہ ارتقائے نوعِ انسانی کی یہ آخری منزل لازماً آ کر رہے گی‘ اور کل روئے ارضی اور پورے عالمِ انسانیت پر وہ نظامِ عدل و قسط سایہ فگن ہو کر رہے گا جومحمد رسول اللہ  کی ’’رحمتٌ للعالمینی‘‘ کا سب سے بڑا مظہر ہے. اس لئے کہ متعدد صحیح اور مستند احادیث میں آنحضورؐ کی یہ صریح اور واضح پیشین گوئیاں وارد ہوئی ہیں کہ:

۱. ’’اللہ تعالیٰ نے میرے لئے ساری زمین کو لپیٹ دیا. چنانچہ میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لئے اور سارے مغرب بھی. اور (سن رکھو کہ) میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو زمین کو لپیٹ کر مجھے دکھا دیئے گئے ہیں!‘‘ (صحیح مسلمؒ عن ثوبان ؓ مولیٰ رسول اللہ )

۲ . ’’کُل روئے زمین پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر بچے گا‘ نہ اونٹ کے بالوں کے کمبلوں سے بنا ہوا خیمہ‘ جس میں اللہ کلمۂ اسلام کو داخل نہ کر دے‘ خواہ وہ عزت والے کے اعزاز کے ساتھ ہو خواہ کمزور کی مغلوبیت کی بنا پر - یعنی یا تو گھر اور خیمے والوں کو اللہ یہ اعزاز عطا فرمائے گا کہ وہ خود اسلام میں داخل ہو جائیں گے ‘ یا دوسری صورت میں اللہ انہیں مغلوب فرما دے گا‘ چنانچہ وہ (اسلامی ریاست کی) تابعداری اختیار کر لیں گے!‘‘ - اس پر راوی نے کہا:’’تب وہ بات پوری ہو گی جو فرمانِ الٰہی وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (۱)(الانفال:۳۹میں وارد ہوئی ہے‘‘. (مسند احمدؒ عن مقداد بن الاسودؓ ) 

اور خود قرآن حکیم میں وارد شدہ صغریٰ و کبریٰ کا منطقی نتیجہ بھی یہی ہے. چنانچہ قرآن حکیم میں تین بار تو یہ الفاظِ مبارکہ ہو بہو اور جوں کے توں وارد ہوئے کہ

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ (۲)(التوبہ :۳۳‘ الفتح :۲۸‘الصف :۹)
گویا آنحضورؐ کا مقصد بعثت غلبۂ دینِ حق ہے - اور پانچ مرتبہ مختلف الفاظ میں ادا ہوا یہ مضمون کہ آپؐ کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لئے ہے‘ جن میں سب سے زیادہ واضح اور صریح الفاظ یہ ہیں کہ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (۳) (سبا:۲۸یعنی آپؐ کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لئے ہوئی تھی - لہذا منطقی طور پر آپؐ کی بعثت کا مقصد بتمام و کمال اسی وقت پورا ہو گا جب وہ صورت پیدا ہو جائے گی جو متذکرہ بالا احادیث میں بیان کی گئی ہے!

چنانچہ علامہ اقبال کی اس نگاہ نے جس کے بارے میں خود ان کا کہنا ہے کہ ؏ ’’گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود!‘‘ -مستقبل کے پردوں کو چیر کر اُس آنے والے دور کی کوئی جھلک دیکھ لی تھی‘ جب یہ فرمایا کہ : 

(۱) ’’اور دین کُل کا کُل اللہ ہی کے لئے ہو جائے‘‘.
(۲) ’’وہی (اللہ) تو ہے جس نے اپنے رسول (محمد ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے‘‘.
(۳) ’’اور (اے نبیؐ !) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے‘‘.

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوئہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے 

البتہ دو باتیں واضح رہنی چاہئیں :ایک یہ کہ یہ سب کچھ از خود نہیں ہو جائے گا بلکہ اللہ اور محمد  پر ایمان رکھنے والوں کی اسی طرح کی جدوجہد ‘ محنت و مشقت‘ ایثار و قربانی‘ صبر و مصابرت‘ ثبات و استقلال‘ اور سرفروشی و جانفشانی سے ہو گا جس کا نقشہ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ ‘‘ کی پاک سیرتوں میں نظر آتا ہے اور دوسری یہ کہ اس خوشگوار اور جاں فزا منظر سے قبل موجودہ امت مسلمہ کی پیٹھ پر دین حق کے سواء السبیل اور صراطِ مستقیم سے انحراف کے باعث عذابِ الٰہی کے وہ کوڑے بھی پڑ کر رہیں گے جن کی خبریں کتب احادیث کے ابوابِ فتن‘ ملاحم اور اشراط الساعۃ اور علاماتِ قیامت میں دی گئی ہیں! - تاہم اس تادیب و تعزیر کے بعد ’’نورِ مصطفی‘‘ کے بتمام و کمال ظہور و بروز کا دور آ کر رہے گا! - اور اس کا راستہ نہ ابلیسِ لعین اور اس کے شیاطینِ جِنّ و اِنس پر مشتمل لشکر روک سکیں گے‘ نہ ’’یورپ کی مشینیں‘‘ اور ان کی آسمان سے بات کرنے والی ٹیکنالوجی روک سکے گی!

اور یہی ارتقائے انسان کی وہ آخری منزل ہو گی جس کے بعد قیامت آ جائے گی اور وہ سلسلۂ کون و مکان جو Big Bang سے شروع ہو کر آج تک پھیل رہا ہے یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ (۱) (الانبیائ:۱۰۴کے انداز میں لپیٹ اور سمیٹ لیا جائے گا - اور اس کے بعد کون جان سکتا ہے کہ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ (۲)(الرحمن:۲۹کی شان رکھنے والا ’’الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ ‘‘ اس ’’بشکست و رواں شد!‘‘ کی کیفیت کے بعد تکوین و تخلیق کی کونسی نئی بساط بچھائے گا !- ہم یقین کے ساتھ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۶﴾وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ ﴿ۚ۲۷﴾ (۳)(الرحمن:۲۶۲۷).

وآخِرُ دعوانا اَنِ الحمد للّٰہِ رَبِّ العٰلمین! 

٭-٭-٭ 

(۱) ’’وہ دن جب کہ ہم آسمان کو یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں. جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے‘‘.
(۲) ’’ہر آن وہ نئی شان میں ہے‘‘.
(۳) ’’ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے‘‘.