پیش لفظ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الحمد للّٰہ وکفٰی والصلٰوۃ والسّلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

قرآن مجید‘ فرقانِ حمید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ پوری نوعِ انسانی کے لیے تاقیامِ قیامت کتابِ ہدایت ہے. خود باری تعالیٰ نے اس کتابِ عزیز کے متعدد اوصاف مختلف اسالیب سے بیان فرمائے ہیں. اس کتاب کا ایک وصف تصریف ِ آیات ہے. سورۂ بنی اسرائیل میں یہ مضمون بایں الفاظ مبارکہ بیان فرمایا گیا ہے: وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِیَذَّکَّرُوۡا ؕ (آیت ۴۱اور یہی مضمون سورۃ الکہف میں ان الفاظِ مبارکہ میں بیان ہوا کہ وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ (آیت۵۴گویا ؏ ’’اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘ اور ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘کے مصداق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مبین میں صراطِ مستقیم کو مختلف اسالیب سے واضح و مبرہن فرما دیا اور اس طرح پوری نوعِ انسانی پر اتمامِ حجت فرما دی کہ اس میں کوئی ابہام نہیں رہا. پھر اسی اتمامِ حجت کو مؤکد کرنے کے لیے اپنی خاص رحمت کے طفیل انبیاء و رسل علیہم السلام مبعوث فرمائے‘ جن میں خاتم النبیین سید المرسلین جناب محمد رسول  کی ذاتِ بابرکات بھی شامل ہے.

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جملہ رسولوں کی بعثت کی غایت بیان فرمائی: رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ (النساء:۱۶۵اور نبی آخر الزمان‘ سید المرسلین حضرت محمد کے بارے میں ارشاد فرمایا: فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ (النساء) .لہذا نبی اکرم نے قولی وعملی شہادت‘ اپنے ارشادات و فرمودات ‘اپنی سنت اور اُسوۂ حسنہ سے قرآن حکیم کی ہدایات کی تبیین فرما دی اور عدل وقسط پر مبنی ایک کامل نظامِ حیات بھی قائم کر کے نوعِ انسانی پر آخری درجہ میں کامل اتمامِ حجت فرما دیا. چنانچہ قرآن و حدیث اور کتاب و سنت مل کر نوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے ایک وحدت بنتی ہیں اور نبی اکرم کے قائم کردہ نظامِ زندگی اور خلافت ِ راشدہ کے دورِ سعید کو پوری نوعِ انسانی کے لیے حجت ِ کاملہ کامقام حاصل ہے.

قرآن مجید کی عظمت و فضیلت کے متعلق امام ترمذی اور امام دارمی رحمہما اللہ نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت نقل کی ہے جس میں قرآن مجید‘ فرقانِ حمید کے متعلق نبی اکرم نے یہ بات بھی فرمائی ہے کہ فِیْہِ نَـبَأُ مَا قَـبْلَـکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَـکُمْ ’’اس (کتاب اللہ) میں تم سے پہلی اُمتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں اور تمہارے بعد (وقوع پذیر ہونے والے حالات) کی اطلاعات بھی ہیں (یعنی اعمال و اخلاق کے جو دنیوی و اخروی نتائج و ثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں‘ قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے) اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں‘ قرآن میں ان کا حکم اور فیصلہ بھی موجود ہے‘‘. لہذا ہر دور کے حالات و واقعات اور مسائل کے حل کے لیے قرآن حکیم‘ سنت ِ مطہرہ‘ اُسوۂ حسنہ اور فرموداتِ نبویؐ میں اُمت مسلمہ کے لیے کامل ہدایات و رہنمائی موجود ہے . البتہ ایمان و ایقان کے ساتھ کتاب و سنت میں غور و فکر اور تدبر کی ضرورت ہے. عالمِ اسلام میں اُمت مسلمہ دینی‘ اخلاقی اور دنیوی اعتبارات سے جس نکبت‘ مسکنت‘ زوال‘ انحطاط‘ گھمبیر اور پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے ان کے متعدد اسباب میں تین کو اوّلیت و اہمیت حاصل ہے. ایک ہے مسلمانوں کے تعلق مع اللہ میں ضعف‘ ایک ہے الہدیٰ یعنی قرآن حکیم سے بُعد اور ایک ہے اتباعِ سنت سے اغراض و اغماض. الا ماشاء اللہ.

اُمت مسلمہ کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ ایسے رجالِ دین کو اٹھاتا رہا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو ان تینوں اساسی امور کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی ہے. بحمداللہ ہمارے اس دور میں بھی ایسے رجالِ دین اٹھتے رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں. اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ڈاکٹر اسرار احمد بھی ان لوگوں میں شامل ہے جس نے اپنی عمر عزیز اسی کام کے لیے وقف کر دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق‘ تائید اور نصرت کے بھروسے پر اُمت مسلمہ پاکستان کو ان امور کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اور اقامت دین یا عام فہم اصطلاح میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے مقصد کے لیے انہوں نے ایک تحریک بھی ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے قائم کی ہے. تنظیم اسلامی کے چھٹے سالانہ اجتماع کے افتتاحی خطاب منعقدہ یکم مئی ۱۹۸۱ء میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے پاکستان کو درپیش پیچیدہ اور پرخطر حالات پر کتاب و سنت کے حوالوں سے گفتگو بھی کی اور ان کا حل پیش بھی فرمایا. مزید برآں تقرب الی اللہ کے مراتب کے موضوع پر مفصل اظہار خیال کیا اور اس کی روشنی میں عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان کے پرپیچ مسائل کا حل تجویز کیا. اس خطاب کے ذریعے سے ان شاء اللہ العزیز ’’تنظیم اسلامی‘‘ کی اساسی دعوت اور اس کا طریق کار بھی ایک نئے اسلوب اور انداز سے قارئین کرام کے سامنے آجائے گا.

اس خطاب کے لیے محترم ڈاکٹر اسرار احمد مدظلہ ٗ نے حسب ذیل موضوعات مقرر کیے تھے : 

ازروئے قرآن حکیم:
ہمارے بنیادی دینی فرائض کیا ہیں؟
اور آیا ان کی ادائیگی انفرادی طور پر ممکن ہے؟

سنت رسولؐ کا مقام کیا ہے؟ 
اور موجودہ دور میں اتباعِ رسول اور احیاءِ سنت کے تقاضے کیا ہیں؟ 

طریقت اور سلوک کی حقیقت کیا ہے؟
اور تقرب الی اللہ کے ذرائع ووسائل کون سے ہیں؟

مزید برآں یہ کہ
ملک و ملت کے بقاء و استحکام کے ضمن میں ہم اپنی ذمہ داریاں کس طرح ادا کر سکتے ہیں؟

خطاب میں موضوعات پر گفتگو کی ترتیب البتہ بدل گئی ہے‘ لیکن جملہ امور کا احاطہ ہو گیا ہے. ان سطور کے عاجز راقم کو محترم ڈاکٹر اسرار احمد مدظلہ کے متعدد دروس و خطاب ٹیپ کے فیتے سے صفحاتِ قرطاس پر منتقل کرنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق کی ارزانی ہوئی ہے‘ جن میں سے بعض کتابی شکل میں مطبوعہ موجود ہیں. تحدیث ِ نعمت اور اظہارِ واقعہ کے طور پر عرض ہے کہ اس خطاب کی منتقلی کے لیے اس عاجز نے اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی حتی الوسع سعی کی تھی. الحمد للہ والمنّہ یہ خطاب اوّلاً ’’تنظیم اسلامی ‘‘کے چھٹے سالانہ اجتماع کی روداد میں شائع ہو چکا ہے.اب اسے علیحدہ کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے تاکہ اس کے افادے کا حلقہ وسیع تر ہو سکے. اس احقر کی کوشش تھی کہ محترم ڈاکٹر صاحب اس پر نظر ثانی فرما لیتے. لیکن ارادے کے باوجود اپنی بے انتہا دعوتی و تنظیمی مصروفیات کے باعث وہ اس کام کے لیے وقت نہ نکال سکے. اس کتاب میں جو صواب اور حق ہے وہ منجانب اللہ تعالیٰ ہے اورجو خطا ہے‘ فروگزاشت ہے‘ اظہارِ مدعا میں ابہام ہے‘ اس کی ذمہ داری اس عاجز کے شانوں پرہے جس کے لیے یہ عاجز صمیم قلب سے بارگاہِ ربّ العزت میں دست بدعا ہے کہ:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا. اٰمین یَارَبَّ العٰلمین!

احقر
جمیل الرحمٰن عفی عنہ