قربِ الٰہی کے دو مراتب

اعوذ باللّٰہ مِنَ الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ (آل عمران) 

’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور دیکھنا تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر اس حال میں کہ تم (اللہ کے) فرماں بردار ہو. اور چمٹ جاؤ اللہ کی رسّی کے ساتھ مجموعی طور پر اور باہم تفرقہ میں مت پڑو. اور یاد کرو اللہ کی اُس نعمت کو جو تم پر ہوئی‘ جبکہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے.اور تم تو آگ کے گڑھے کے بالکل کنارے تک جا پہنچے تھے مگر اللہ نے تمہیں اس سے بچایا. اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا سکو! اور چاہیے کہ تم سے ایک ایسی جماعت وجود میں آئے جو خیر کی دعوت دے‘ نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘.
 
سورۂ آل عمران کی ان آیات میں ہم مسلمانوں کے لیے ایک لائحہ عمل ہے. اگرچہ قرآن مجید کی ہر آیت میں علمی نکات بھی ہیں‘ حکمت و فلسفہ کے مسائل بھی ہیں اور عملی رہنمائی بھی ہے‘ چنانچہ ان میں بھی یقینا علمی اعتبار سے بڑے وقیع نکات موجود ہیں‘ لیکن آج میری گفتگو ان کے عملی پہلوؤں کے مختصر بیان تک محدود رہے گی.اس لیے کہ علمی نکات پر توجہ کا ارتکاز زیادہ ہو جائے تو اکثر و بیشتر عملی رہنمائی کی طرف توجہ نہیں ہوتی.

قرآن مجید کی یہ تین آیات اس عملی رہنمائی اور ہدایت کے اعتبار سے جو وہ اہلِ ایمان کے سامنے رکھتا ہے ‘قرآن حکیم کے جامع ترین مقامات میں سے ہیں. اُمتِ مسلمہ کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ایک مسلمان کے کیا فرائض ہیں اور اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ اسے سب سے پہلے کن امور پر اپنی توجہات کو مرتکز کرنا ہو گا‘ ان کو بڑی جامعیت کے ساتھ پہلی آیت میں بیان کیا گیا ہے. دوسری آیت کا موضوع یہ ہے کہ ان افراد کو باہم جوڑنے والی چیز‘ انہیں ایک اُمت بنانے والی شے‘ انہیں ’’حزب اللہ‘‘ بنانے والی چیز‘ ان کے مابین ذہنی و فکری ہم آہنگی اور عملی اتحاد پیدا کرنے والی چیز کون سی ہے!!اور تیسری آیت میں یہ نشاندہی فرمائی گئی ہے کہ اس اُمت یا حزب اللہ یااس جماعت کا مقصد کیا ہے! کس کام کے لیے اس کو محنت اور جدّوجہد کرنی ہے!

ان آیات پرمزید گفتگو سے قبل میں آپ کے سامنے چند احادیث نبویہؐ پیش کررہا ہوں. 

عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ صَلّٰی لَـنَا رَسُوْلُ اللہِ  صَلَاۃَ الْفَجْرِ ثُمَّ وَعَظَنَا مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ‘ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُوْلَ اللہِ کَاَنَّھَا مَوْعِظَۃُ مُوَدِّع فَاَوْصِنَا‘ قَالَ : 
اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ عَزَّوَجَلَّ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ کَانَ عَبْدًا حَبْشِیًّا‘ فَاِنَّـہٗ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا‘ فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ‘ عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ ‘ وَاِیَّاکُمْ وَالْمُحْدَثَاتِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ (۱

پہلے ہم اس حدیث کا ایک رواں ترجمہ کر لیتے ہیں:
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک مرتبہ ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد ہمیں ایسا پُراثر وعظ فرمایا کہ ہماری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ہمارے دل اس سے لرز گئے. ہم نے عرض کیا:یارسول اللہ ! یہ تو ایسے لگتا ہے کہ آپؐ نے کوئی الوداعی وعظ فرمایا ہے (یعنی اس انداز سے جیسے آپؐ ہم سے وداع ہو رہے ہیں یا ہمیں وداع کر رہے ہیں) تو ہمیں نصیحت کیجیے! آپ نے فرمایا: ’’(سب سے پہلے تو) میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ کے تقویٰ کی‘ وہ جو العزیز ہے اور بہت جلالتِ شان والاہے‘ اور (دوسری نصیحت ہے) سننے اور ماننے کی (یعنی اجتماعی نظم و ضبط) اگرچہ ایک حبشی غلام تمہارا امیر بنا دیا جائے. اس لیے کہ جو کوئی تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ عنقریب بہت سے اختلافات دیکھے گا. پس تمہارے لیے میری سنت اور ہدایت یافتہ راست رَو خلفاء کی سنت کی پیروی لازم ہے. اسے اپنے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑے رہنا .(یہ محاورہ ہے‘ یعنی کسی چیز کوشدت اور مضبوطی کے ساتھ پکڑلینا) اور دیکھنا (دین میں) نئی نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچتے رہنا‘ اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے‘ اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘. 

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیثِ نبویؐ کی روشنی میں ہم یہ 

(۱) سنن الترمذی‘ ابواب العلم‘ باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع. وسنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین. وسنن الدارمی‘ المقدمۃ‘ باب اتباع السنۃ. الفاظ کم و بیش سنن دارمی کے ہیں. وسنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی لزوم السنۃ. سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ سنت کیا ہے‘ اتباعِ سنت کا مقام کیا ہے اور احیائے سنت کا مرتبہ کیا ہے! وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک مرتبہ ہمیں نمازِ فجر کے بعد وعظ و نصیحت فرمائی اور یہ ایسی نصیحت تھی کہ اس سے حاضرین کے قلوب پر رقت طاری ہو گئی‘ وہ لرز کر رہ گئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے. ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول( )! یہ تو ہمیں ایسے لگ رہا ہے جیسے آپؐ نے الوداعی نصیحت فرمائی ہو. کہیں آپؐ ہم سے رخصت تو نہیں ہو رہے؟ اور اگر یہ اسی نوعیت کی کچھ بات ہے تو ہمیں مزید وصیت فرمایئے کہ ہم آپؐ کے بعد کیا کریں؟ اگر آپؐ کے رخصت ہونے کا وقت ہے تو آپؐ کے بعد ہمارا سہارا کون ہو گا؟ اس پر آپؐ نے فرمایا: اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ عَزَّوَجَلَّ ’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں جو غالب ہے اور نہایت جلالت شان والا ہے‘‘. دیکھئے ہم نے سورۂ آل عمران کی جو تین آیات پڑھیں ان میں سے پہلی آیت میں بھی تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ہے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲

نبی اکرم نے پہلی وصیت اللہ کے تقویٰ کی فرمائی. بعدہ ٗ فرمایا: وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ’’اور میں تمہیں وصیت کرتا ہوں سمع و طاعت کی‘‘ یعنی سننے اور ماننے کی. نظم کی پابندی ہو‘ افتراق اور تفرقہ نہ ہو. سورۂ آل عمران کی دوسری آیت میں تفرقے سے بچنے کی تاکید ان الفاظ میں کی گئی ہے : وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ ’’اور مجموعی طور پراللہ کی رسّی (قرآن حکیم) کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور باہم تفرقہ میں مت پڑو!‘‘ قرآن اور حدیث میں کوئی فرق اور بُعد نہیں ہے. حدیث دراصل قرآن کی تبیین و تفہیم ہے. الفاظ محمدٌ رسول اللہ کے ہیں جبکہ مفہوم کُل کا کُل قرآن حکیم کا ہے. نبی اکرم نے سمع و طاعت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: وَاِنْ کَانَ عَبْدًا حَبْشِیًّا ’’خواہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو‘‘ پھر بھی تمہیں سمع و طاعت پر کاربند رہنا ہو گا. یعنی کسی غلام کا امیر و حاکم بننا تمہارے نفس پر بڑا شاق گزر سکتا ہے اور تمہارے لیے کٹھن امتحان بن سکتا ہے کہ ہم آزاد ہیں اور یہ غلام یا غلام زادہ ہم پر امیر کیسے ہو گیا؟ نبی اکرم نے ۸ھ میں ایک لشکر کا امیر اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بنایا اور حیاتِ طیبہ کے آخر ی ایام میں روم کی سرحدوں کی جانب بھیجے جانے والے جیش کا امیر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہماکو بنایا جن کی ماتحتی میں حضراتِ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہماجیسے جلیل القدر اصحاب بھی تھے. اس پر قریش کے بعض حضرات نے دبی زبان سے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا. اسی سے قیاس کر لیجیے‘ عربوں کا ذہن یہ تھا کہ اگر غلام آزاد بھی ہو جائے تو اس کو وہ اپنے برابر نہیں سمجھتے تھے‘ بلکہ وہ ’’مولیٰ‘‘ شمار ہوتا تھا .یعنی اس کے لیے غلامی اور آزادی کے درمیان کا کوئی مقام ان کے ذہن میں ہوتا تھا.

اس کے بعد نبی اکرم نے فرمایا: 
فَاِنَّـہٗ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ’’پس تم میں سے جو کوئی بھی میرے بعد زندہ رہا وہ جلد ہی کثیر اختلافات دیکھے گا‘‘.اُن اختلافات کے زمانے میں تمہارے لیے مشعل راہ کون سی ہے! تمہارے لیے روشنی کا مینار کون سا ہے! فرمایا: فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ یہاں کلمہ ’’فا‘‘ بہت معنی خیز ہے. یہ ان اختلافات کے لیے جائے پناہ کی طرف رہنمائی کر رہا ہے کہ جائے پناہ صرف یہ ہے کہ: ’’پس تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامنا‘‘. کیونکہ خلفائے راشدین المہدیّین کی سنت نبی اکرم کی سنت ہی کا تتمہ ہے. یہاں نبی اکرم نے اپنی سنت کے ساتھ خلفاء الراشدین المہدیّین کی سنت کو بھی ملحق فرمایا ہے. اس لیے کہ اگرچہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہمارے لیے نجومِ ہدایت ہیں‘ تاہم انفرادی (individual) طور پر ؏ ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است‘‘ کے مصداق کسی میں زہد کا رنگ غالب ہے‘ کسی میں مجاہدے کا رنگ غالب ہے‘ کسی کو انفاق سے زیادہ اُنس ہے‘ کوئی نمازیں زیادہ پڑھنے سے مناسبت رکھتا ہے‘ لیکن جماعتی حیثیت سے سنت رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام متشکل ہو کر سامنے آتی ہے خلفائے راشدین میں. اس لیے کہ یہ وہ دَور تھا کہ پوری اُمتِ محمدیہ‘ؐ ایک وحدت تھی‘ کوئی افتراق نہیں تھا. دینی اور مذہبی قیادت بھی خلفائے راشدین المہدیّین کے ہاتھ میں تھی اور سیاسی قیادت و حکمرانی بھی ان ہی کے ہاتھ میں تھی. پوری اسلامی مملکت ایک ہی تھی‘ مسلمانوں کی علیحدہ علیحدہ مملکتیں نہیں تھیں. ایک ہی نظام پوری مملکت اسلامیہ میں جاری و نافذ تھا. لہذا اُس وقت جو فیصلے ہوئے ‘یعنی خلفائے راشدین کے اجتہادات کواگر اُمت نے تسلیم کر لیا تو ان کے اجماع ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں. چنانچہ ان فیصلوں کی حیثیت محمدٌ رسول اللہ کی مجمع علیہ سنت کی ہو گی. میرے نزدیکفَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ کی یہ احسن اور صحیح تعبیر ہے. مزید برآں خلافت راشدہ نبوت کا تتمہ و تکملہ ہے .اسی لیے اس کو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کہا جاتا ہے.

آگے نبی اکرم امر کے صیغے میں حکم دے رہے ہیں کہ : 
عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ ’’اسے اپنے دانتوں کی کچلیوں سے مضبوطی سے پکڑ کر رکھو‘‘. معلوم ہوا کہ یہ آسان کام نہیں ہے‘ بڑے دباؤ آئیں گے‘ حالا ت کا رُخ کچھ اور ہو گا. ان میں سنتِ رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور سنت خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بڑی مضبوطی سے تھامنا ہو گا. آگے فرمایا: وَاِیَّاکُمْ وَالْمُحْدَثَاتِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ’’اور دیکھنا نئی نئی باتوں کے ایجاد کرنے سے بچنا‘ کیونکہ دین میں جو نئی چیز ایجاد کی جائے گی وہ بدعت ہو گی اور ہر بدعت گمراہی ہوتی ہے‘‘.