نبی اکرمﷺ کی سنت ِ جلیلہ کے دو اَجزاء

نبی اکرم کی آغازِ وحی سے الرفیق الاعلیٰ کی طرف مراجعت تک کُل کی کُل 

(۱) میزان الاعتدال للذھبی ۱/۵۱۹. والکامل لابن عدی ۳/۱۷۴
(۲) سنن ابن ماجہ‘ کتاب النکاح‘ باب ما جاء فی فضل النکاح.
(۳) مسند احمد. 
حیاتِ طیبہ کو بحیثیت مجموعی (as a whole) لیجیے‘ تو یہ ہے سنت رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام. اجزاء کا معاملہ‘ اُن کی اہمیت اور ان پر اجر و ثواب اپنی جگہ ہے‘ کون مسلمان ہو گا جو اس سے انکار کی جرأت کر سکے؟ جس چیز کے متعلق بھی معلوم ہو جائے کہ نبی اکرم کا طریقہ یہ تھا‘ اس کو اختیار کرنا یقینا بہت بڑے اجر و ثواب کا موجب ہو گا. لیکن یہ سو شہیدوں کے مساوی ثواب کی جو بشارت دی گئی ہے‘ اس کے بارے میں جان لیجیے کہ ان جزوی باتوں کے لیے نہیں ہے.

یہ بشارت نبی اکرم کے پورے طریقے کو مضبوطی سے تھامنے سے متعلق ہے. اس اعتبار سے فرض بھی سنت کا جزو بن جائے گا. فرض ویسے تو سنت سے بالاتر ہے ‘ لیکن جب آپ اس پہلو سے دیکھیں گے کہ نبی اکرم کا طریقہ بحیثیت مجموعی کیا ہے‘ تو اس میں فرائض بھی شامل ہیں‘ اس میں نوافل بھی ہیں‘ اس میں آپؐ کے معمولات بھی ہیں‘ شب و روز کے انداز بھی ہیں‘ جلوت بھی ہے‘ خلوت بھی ہے‘ آپؐ کے شمائل بھی ہیں. یہ سب مل کر جب ایک وحدت بنیں گے تو اس کا نام ہو گا ’’سنّتِ رسول‘‘ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام. اس میں فرائض بھی آ گئے اور نوافل بھی آ گئے. غرضیکہ سب کچھ آ گیا. یہ ہے جناب محمدٌ رسول اللہ کا طریقہ. اسی کا دوسرا نام ہے اُسوہ یعنی نمونہ. ازروئے الفاظِ قرآنی: 

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:۲۱
’’(اے مسلمانو!) رسول اللہ( )کی پوری زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے‘‘.

اس ضمن میں یہ بات میں نے متعدد بار عرض کی ہے کہ اس سنت کو آپ ہمیشہ دو حصوں میں منقسم سمجھئے. نبی اکرم کی سنت یعنی آپؐ کے طریقے کا سب سے پہلا اور اہم جزو ہے ’’عبدیت‘‘ یہ عبدیت آپؐ کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے. زندگی کے ہرگوشے میں سب سے غالب عنصر عبدیت کا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میں کھانا غلاموں کی طرح بیٹھ کر کھاتا ہوں. آپؐ کی پوری حیاتِ طیبہ پر اوّلین اور نمایاں ترین چھاپ اسی عبدیت کی ہے. آپ عبدیتِ کاملہ کے مظہر اَتم ہیں. حقیقت یہ ہے کہ یہ عبدیت اُس برف کے تودے‘ (iceberg) کے مانند ہے کہ جس کا بہت بڑا حصہ پانی میں چھپا ہوتا ہے‘ بس تھوڑا سا حصہ (tip) نگاہوں کے سامنے آتا ہے.رات کی تاریکیوں اور تنہائیوں میں ’’عبداللہ‘‘ اپنے ربّ کے حضور میں کھڑا ہوتاتھا( ) وہ بات ہی کچھ اور تھی. اس عبدیت کی وہ کیفیات بھی ہیں کہ : اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْـنِیْ (۱’’میں تو اس حال میں رات بسر کرتا ہوں کہ میرا ربّ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘. یہ معاملہ کہاں ہمارے فہم میں اور ہماری سمجھ میں آئے گا! ایک عظیم ماثور دعا ہے جس میں نبی اکرم پہلے اپنی زبانِ مبارک سے اپنی عبدیت کا اظہار فرماتے ہیں‘ پھر قرآن مجید کا ’’شِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ‘‘ ہونے کا جو وصف ہے اس کے لیے دُعا فرماتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ فِیْ قَبْضَتِکَ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُ کَ اَسْئَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھَوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ اَوْ اَنْزَلْــتَــہٗ فِی کِتَابِکَ اَوِ اسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِیْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَنُوْرَ صَدْرِیْ وَجِلَاءَ حُزْنِیْ وَذَھَابَ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ (۲(آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ)

’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں. تیرے ناچیز غلام اور ادنیٰ کنیز کا بیٹا ہوں. مجھ پر تیرا ہی کامل اختیار ہے اور میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے. نافذ ہے میرے بارے میں تیرا ہر حکم اور عدل ہے میرے معاملے میں تیرا ہر فیصلہ. میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں تیرے ہر اُس اسمِ پاک کے واسطے سے جس سے تو نے اپنی ذاتِ مقدس کو موسوم فرمایا‘ یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو تلقین فرمایا‘ یا اپنی کسی کتاب میں نازل فرمایا یا اُسے اپنے مخصوص خزانۂ غیب ہی میں محفوظ رکھا ‘کہ تو بنا دے قرآن مجید کو میرے دل کی بہار‘ اور میرے سینے کا نور‘ اور میرے رنج و حزن کی جِلا اور میرے تفکرات اور غموں کے ازالے کا سبب‘‘. 

(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الصوم ‘ باب التنکیل لمن اکثر الوصال. وصحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب النھی عن الوصال فی الصوم.
(۲) مسند احمد. 
(ایسا ہی ہو اے تمام جہانوں کے پروردگار!)

سنت رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا جو دوسرا جزوِ اعظم ہے وہ کُل کا کُل ظاہر ہے‘ نمایاں ہے اور آنکھوں کے سامنے بالکل عیاں ہے . وہ ہے سنتِ دعوت‘ سنتِ تبلیغ‘ سنتِ انذار‘ سنتِ تبشیر‘ سنتِ شہادت علی الناس‘ سنتِ اظہار دین الحق علی الدین کُلِّہ‘ سنتِ تکبیر ربّ‘ سنتِ اعلائے کلمۃ اللہ‘ سنتِ ہجرت اور سنت جہاد و قتال.