اجرائے وحی اور یومِ بعثت سے لے کر اس حیاتِ دُنیوی کے آخری سانس تک نبی اکرم کی پوری زندگی اسی سنت اور اسی طریق کے محور کے گرد گھوم رہی ہے. اس سے بڑی کسی سنت کا تصور ممکن نہیں. آنحضرت کی سیرت و شخصیت کا نمایاں ترین پہلو جس زاویۂ نگاہ سے دیکھ لیجیے آپ کو یہی نظر آئے گا کہ دعوت ہے‘ تبلیغ ہے‘ تلقین ہے‘ حق کی طرف بلانا ہے‘ امر بالمعروف ہے‘ نہی عن المنکر ہے‘ دین حق کو سربلند کرنے کی سعی و جہد ہے. اس کے لیے تمسخر وا ستہزاء انگیز کیا جا رہا ہے‘ پتھروں کی بارش جھیلی جا رہی ہے‘ معاشی و معاشرتی مقاطعہ برداشت کیا جا رہا ہے. اسی کے لیے مجاہدہ ہے‘ کشمکش ہے‘ تصادم ہے اور اسی کے لیے گھر بار کو چھوڑ اجا رہا ہے. اسی مقصد کی تکمیل کے لیے ایک جماعت کو منظم کیا جا رہا ہے اور جماعت سے وابستگان کا تزکیۂ نفس ہو رہاہے.اسی کے لیے جہاد مع النفس اور قتال بالسیف ہے. اسی کے لیے نظروں کے سامنے عزیز ترین جاں نثاروں کے تڑپتے ہوئے لاشے اور مثلہ شدہ نعشیں ہیں. یہ تمام دوسری سنت کے اجزاء ہیں. اب ان دونوں اجزاء یعنی سنت عبدیت اور سنت دعوت کوجمع کیجیے تو سنت رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ایک وحدت کی حیثیت سے سامنے آئے گی.

اب اگر کوئی شخص آنحضرت کے طریقے میں سے نماز والی سنت تو لے لے مگر دعوت و تبلیغ والی سنت کو ساقط کر دے تو معلوم ہوا کہ اس کا تصورِ سنت بہت ناقص ہے. آج تو معاملہ یہ ہو رہا ہے کہ نماز میں بھی چھوٹی چھوٹی سنتوں پر ہی ساری گفتگو ہے. رفع یدین اور آمین بالجہر سے بات آگے نہیں بڑھتی. اگر ایسا ہو کہ اس پورے نقشے کے اندر سنت عبدیت اور سنت دعوت کو پوری طرح قائم کر کے ان جزئیات پر بھی گفتگو ہو تو کیا کہنے! نورٌ علیٰ نور والی کیفیت ہو گی. لیکن اس کے بغیر یہ مسائل بے بنیاد‘ بے وزن اور بے اصل ہیں. درحقیقت اُس سنت کا احیاء مطلوب ہے جو عبارت ہے آپ کی پوری زندگی سے. مبارک ہیں ‘تہنیت کے قابل ہیں وہ لوگ جنہیں محمدٌ رسول اللہ کی سنت کے ساتھ شغف ہے‘ بایں معنی کہ سنت نبی اکرم کے پورے طریق کا نام ہے‘ جس میں عبدیت بھی ہے اور دعوت بھی. اوریہ کام آسان نہیں ہے ؎ 

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!

لیکن مسواک کر کے یہ سمجھ لیا جائے کہ سو شہیدوں کا ثواب حاصل ہو گیا‘ کیا کہنے ہیں!اس سے زیادہ سہل الحصول (made easy) معاملہ تو کوئی ہے ہی نہیں.اس طرح وہ شہادت یعنی راہِ حق میں نقد جاں کا نذرانہ پیش کرنا تو بالکل ہی بے وقعت اور بے معنی ہو کر رہ گئی.

ہمارے تصوراتِ دین اور تصوراتِ سنت میں جو عدم مناسبت اور عدم توازن نظر آرہا ہے اس کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم نے جزو کو کُل اور کُل کو جزو بنا رکھا ہے. نتیجہ یہ نکلا کہ سارا معاملہ تلپٹ ہو گیا اور اقدار کی عمارت (value structure) بالکل مسمار ہو کر رہ گئی. لہذا اس کو ذہن میں رکھیے کہ صحیح اور حقیقی تصورِ سنت محیط ہے سنتِ عبدیت اور سنتِ دعوت کو . کتنی درست بات کہی ہے علامہ اقبال نے کہ : ؎

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی ست!

ہمارے دین کی صحیح تعبیر یہی ہے کہ دین نام ہے اتباعِ رسول  کا.اس میں کوئی شبہ نہیں .چنانچہ پہنچاؤ اپنے آپ کو نبی اکرم سے قریب تر اور اس کا واحد راستہ ہے آپؐ کی سنت کی پیروی‘ آپؐ کے طریق پر عمل‘ آپؐ کا کامل اتباع. اگر یہ نہیں ہے‘ یعنی اگر سنتِ رسولؐ تک رسائی نہیں ہوئی‘اگر وہاں تک نہیں پہنچے تو یہ پھر تمام بولہبی 
ہے! میرے نزدیک یہ ہے صحیح تصورِ سنت. یہ ہے مقامِ سنت اور موجودہ دَور میں اتباعِ رسول اور احیائے سنت کا تقاضا‘ سنت عبدیت اور سنت دعوت کا اس کے تمام مراحل کے ساتھ اتباع.