اب ہم دوسری حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں. اس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے اپنی ’صحیح بخاری میں روایت کیا ہے. اس حدیث میں ایک تصور ایسا آ رہا ہے جس سے بعض اُن باتوں کا اثبات ہو گا جو صوفیاء کے حلقے کی ہیں. ہمارے ہاں اس معاملے میں بڑی افراط و تفریط ہے. یا تو وہ لوگ ہیں جو اِن باتوں کو سرے سے غلط اور سرتاسر باطل سمجھتے ہیں‘ ان کے کسی جزو کو بھی صحیح نہیں خیال کرتے. تو اس معاملے کا ایک رُخ یہ ہے. دوسری انتہا یہ ہے کہ ساری گفتگو کراماتِ اولیاء ہی کی ہو رہی ہے‘ آگے پیچھے دوسری کوئی بات ہی نہیں. سارا معاملہ بزرگانِ دین کا ہے اور بزرگانِ دین کا سارا معاملہ کرامات اور خرقِ عادت واقعات پر موقوف نظر آتا ہے. اس حلقے کے کُل دینی تصورات اسی کے گر دگھومتے ہیں. بس یہی چیزیں ان کا دین بن کر رہ گئی ہیں. میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں بھی جو نقطۂ اعتدال ہے اس کو اس حدیث شریف کے حوالے سے اچھی طرح سمجھ لیجیے. پہلے اس حدیث کے بارے میں چند اہم امور جان لیجیے. یہ حدیث قدسی ہے. یعنی یہ فرمانِ الٰہی ہے جس کو نقل فرما رہے ہیں خود جناب محمدٌ رسول اللہ اور آپؐ سے پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں. سند کے اعتبار سے اس کا جو درجہ ہے‘ اس کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے اس کو اپنی ’’صحیح ‘‘ میں روایت کیا ہے‘ جس کے متعلق علمائے اُمت کا اجماع ہے کہ یہ اَصَحُّ الکُتُب بعدَ کتابِ اللّٰہ یعنی قرآن حکیم کے بعد دنیا کی صحیح ترین کتاب ہے.

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ  : اِنَّ اللہَ تَـعَالٰی قَالَ : مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِــیًّا فَـقَـدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ‘ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ لَیَّ مِمَّا افْتَـرَضْتُ عَلَـیْہِ ‘ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَـیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّـہٗ ‘ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَیَدَہُ الَّـتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا‘ وَلَئِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ (۱

زیر مطالعہ حدیث میں نبی اکرم نے پہلی بات فرمائی : اِنَّ اللہَ تَـعَالٰی قَالَ : مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِــیًّا فَـقَـدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جس کسی نے میرے کسی ولی (دوست) سے دشمنی کی تو اُس کے لیے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے‘‘. یہاں لفظ ’’ولی‘‘ قابلِ غور ہے. معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اللہ کے ولی (دوست) ہوتے ہیں.یہی بات قرآن مجید سے بھی بایں الفاظ ثابت ہے : اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ (یونس) ’’آگاہ رہو‘ بلاشبہ جو اللہ کے ولی (دوست) ہیں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے‘‘. پھرولایت یک طرفہ نہیں ‘بلکہ اس کا معاملہ دو طرفہ ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ (البقرۃ:۲۵۷’’اللہ اُن لوگوں کا ولی (دوست) ہے جو ایمان لائے ہیں‘ وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے‘‘. اب یہ بات قرآن مجید اور حدیث شریف دونوں سے ثابت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا ولی ہے اور اہل ایمان اللہ کے ولی ہیں. گویا ولایت کا معاملہ دو طرفہ ہے. 

اب اصل میں اس لفظ ’’ولی‘‘ کو پہچاننے کی ضرورت ہے. اس کے مفہوم کا بھی ہم نے اپنے ذہن میں کچھ اور ہی نقشہ قائم کررکھا ہے. عربی بڑی وسیع المعانی زبان ہے. اس میں بہت سے الفاظ قریب المعانی ہوتے ہیں‘ لیکن ہر ایک کے معنی اور مفہوم میں ایک لطیف فرق ضرور ہوتا ہے.عربی میں دوست کے لیے جو الفاظ مستعمل ہیں‘ ان میں سے ہر ایک کے مفہوم میں فرق ہے. جیسے ’’صَدیق‘‘کے معنی میں سچی اور بے تکلفی 

(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب التواضع. کی دوستی کا عنصر شامل ہوتا ہے. اور ’’رفیق‘‘ کے معنی میں باہمی دمسازی و ہمدردی کا جذبہ غالب ہوتا ہے. یہ رِفق سے بنا ہے. ایک دوسرے کے دکھ کو محسوس کرنے والے ایک دوسرے کے رفیق ہیں. اسی دوستی کے لیے ایک لفظ ہے ’’خلیل‘‘. یہ خُلّت سے بنا ہے‘ اس کے معنی میں انتہائی غالب محبت بھری دوستی کا عنصر غالب ہوتا ہے. قرآن حکیم میں یہ لفظ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے استعمال ہوا ہے:
وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾ (النساء)

’’اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ( علیہ السلام ) کو اپنا دوست بنا لیا تھا‘‘.

یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امتیازی شان ہے . جبکہ رسول اللہ نے فرمایا تھا:
لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا مِنْ اُمَّتِیْ لَاتَّخَذْتُ اَبَابَکْرٍ (۱
’’اگر میں اپنی اُمت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر( رضی اللہ عنہ) کو بناتا‘‘.

معلوم ہوا کہ اس پوری دنیا میں نبی اکرم کا خلیل کوئی نہیں ہے. اگر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپؐ کے خلیل نہیں ہوئے تو اور کون ہو گا؟پس آنجناب نے خلت کا تعلق صرف اللہ تعالیٰ سے رکھا. چنانچہ آنحضرت کے مقامِ رفیع کے اعتبار سے شرک فی الخُلّت کی بھی گنجائش نہیں رہی. نبی اکرم نے اس کو بھی گوارا نہیں فرمایا. اب آیئے سمجھیں کہ ’’ولی‘‘ کے معنی کیا ہیں؟ ولی بھی عربی کا بڑا وسیع المعانی لفظ ہے. اس میں پشت پناہ‘ حمایتی‘ مددگار اور دوست کے مفاہیم شامل ہیں. ان سب کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب اس حدیث کے مضمون کو سمجھئے.