اس حدیث کے مطالعے سے پہلی اور نمایاں بات یہ سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کو ذلیل ہوتا نہیں دیکھ سکتا. واضح رہے کہ ایک ہے تکلیف میں نہ دیکھ سکنا اور ایک ہے اس کی ذلت و رسوائی کو برداشت نہ کرنا‘ جس کو ہم غیرت و حمیت کہتے ہیں. اللہ تعالیٰ بہت غیور ہے اور وہ اپنے کسی ولی کی ذلت و رسوائی کو برداشت نہیں کرتا.

اسی (۱)صحیح البخاری‘ کتاب الصلاۃ‘ باب الخوخۃ والممر فی المسجد. طرح جو اللہ کے ولی ہیں وہ اس کے دین کے لیے غیرت و حمیت رکھتے ہیں. اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے لیے تو کوئی مدد نہیں چاہیے. اللہ کو اپنی ذاتی حیثیت سے تو کوئی پشت پناہ درکار نہیں. اللہ تعالیٰ عاجز نہیں ہے کہ اُسے اپنی ذات کے لیے حمایتی اور پشتیبان کی ضرورت ہو. معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ. سورۂ بنی اسراء یل کے آخر میں الفاظ آئے ہیں: وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ (آیت ۱۱۱’’اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو‘‘. اللہ کو جو حمایت مطلوب ہے‘ اللہ کو جوپشت پناہی مطلوب ہے‘ اللہ کو جو غیرت درکار ہے‘ اللہ کو جس حمیت کی ضرورت ہے‘ وہ ہے اس کے دین کی. اپنے دین کے لیے وہ قرض بھی مانگتا ہے:

اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا یُّضٰعِفۡہُ لَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ شَکُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾ (التغابن)
’’اگر تم اللہ کو قرضِ حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا‘ اللہ بڑا قدردان بُردبار ہے.‘‘

اپنے دین کے لیے وہ مدد کی پکار بھی لگاتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ (الصّف:۱۴
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ کے مددگار بنو!‘‘

اللہ کے دین کے لیے پیسہ خرچ کرو تو یہ اللہ کو قرضہ حسنہ دینا ہے. اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرو تو یہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد شمار ہو گی. اللہ کے دین کی غیرت و حمیت ہے تو یہ اللہ کی ولایت ہے. یہ ہے حقیقی ولایت. وہ ولایت نہیں ہے کہ دین سرنگوں ہو‘ ہوا کرے. حدود اللہ پامال ہوں‘ ہوتی رہیں. شعائر دین کا مذاق اڑ رہا ہو‘ اڑتا رہے. وہ اپنی تہجد میں‘ اپنے نوافل میں ‘ اپنی تسبیحوں میں اور اپنے مراقبوں اور چِلّوں میں مگن ہے. یہ ولایت نہیں‘ یہ عبادت گزاری نہیں‘ بلکہ یہ تو معاندانہ طرزِ عمل ہے. یہ نسبتِ ولایت نہیں ہے‘ بلکہ یہ تومُنہ پر دے ماری جانے والی چیز ہے.

یہاں وہ حدیث سامنے رکھیے جو ایک مؤمن صادق کے جسم و جان پر لرزہ طاری کر دیتی ہے اور قلب ِ حساس کانپ کانپ جاتا ہے:

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ  : اَوْحَی اللہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرَئِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا : قَالَ فَقَالَ : یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھَا عَبْدَکَ فُــلَانًا لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ‘ قَالَ فَقَالَ : اَقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ! (رواہ البیھقی فی شعب الایمان) 
’’رسول اللہ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ فلاں فلاں بستیوں کو اُن کے رہنے والوں سمیت اُلٹ دو!‘‘ حضور نے فرمایا کہ اس پر حضرت جبرئیل ؑ نے عرض کیا: ’’اے میرے ربّ! ان میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے چشمِ زدن کی مدت تک بھی تیری معصیت میں بسر نہیں کی!‘‘ آنحضور نے فرمایا کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اُلٹ دو انہیں پہلے اس پر پھر دوسروں پر‘ اس لیے کہ اس کے چہرے کی رنگت کبھی میری (غیرت اور حمیت کی) وجہ سے متغیر نہیں ہوئی‘‘.

غور کیجیے کہ اس بندۂ عابد کی عبادت گزاری کی شہادت کون دے رہے ہیں اور کیا دے رہے ہیں؟ گواہی دے رہے ہیں حضرت جبرئیل امین ؑ ‘کوئی کرائے کا وکیل نہیں. وہاں دے رہے ہیں جہاں ابوجہل بھی جھوٹ نہیں بول سکے گا: 
یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا ﴿۳۸﴾ اور گواہی یہ دی جا رہی ہے کہ اس بندۂ عابد نے آنکھ جھپکنے کی مدت بھی اللہ تعالیٰ کی معصیت میں بسر نہیں کی. یہاں کوئی مبالغہ نہیں ہے. ایک شخص کی ذاتی عبادت اور نیکی کا یہ عالَم ہے. لیکن بارگاہِ خداوندی سے حکم یہ صادر ہوا کہ اَقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ ’’اُلٹوپہلے اس پر پھر دوسروں پر‘‘.کیوں؟ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ ’’اس لیے کہ اس کے چہرے کا رنگ میری (غیرت و حمیت )کی وجہ سے کبھی متغیر نہیں ہوا‘‘. یہ بے غیرت اور بے حمیت انسان اسی سزا کا مستحق ہے کہ میرا عذاب پہلے اس پر نازل ہو‘ پھردوسروں پر. 

حمیت و غیرت دین دراصل ایمان باللہ کا اہم ترین تقاضا ہے. اس حمیت و 
غیرتِ حق کے بغیر نہ ولایت کی کوئی ادنیٰ سی نسبت ہے نہ کوئی انفرادی عبادت‘ کوئی زہد اور کوئی ریاضت اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے. تواصی بالحق‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر‘ دعوت الی اللہ‘ اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی و جہد اسی غیرتِ حق اور حمیتِ دینی کے عملی مظاہر ہیں. یہ دین کی پشت پناہی اور نصرت ہے. ان چیزوں سے اگر زندگی خالی ہے اور انفرادی زہد و عبادت اور وظائف و اَوراد ہیں تو ولایت کی نسبت کا کوئی سوال نہیں. ان تمام ریاضتوں کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پرِکاہ کے برابر بھی نہ وقعت ہے اور نہ وزن ہے. کسی کی والدہ کی شان میں کوئی شخص کوئی گستاخانہ بات کہہ بیٹھے تو اس کے پورے جسم کا خون چہرے پر جمع ہو جائے گا ‘ وہ مرنے مارنے پر تل جائے گا. لیکن اللہ اور اس کے رسول کی شان میں گستاخی ہوتی رہے‘ اس کے دین کا مذاق اڑتا رہے اور کوئی اپنی نفلی عبادت و ریاضت میں مگن رہے تو اسے ولایت سے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟ یہ تو ابلیس کا مشن ہے جسے علامہ اقبال نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ؎

مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!

چنانچہ ولایت کا حقیقی مفہوم ہے غیرتِ حق‘ حمیت دینی‘ دین کی پشت پناہی‘ اس کی نصرت‘ اس کے غلبہ و اقامت کے لیے جہاد و قتال. اگر ولی کا یہ تصور آپ نے جان لیا تو اس کا منطقی نتیجہ بھی سمجھ میں آ جائے گا کہ : مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِــیًّا فَـقَـدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ ’’جس نے میرے کسی ولی سے عداوت رکھی اُس کے خلاف میرا اعلانِ جنگ ہے!‘‘ جو شخص ہمہ تن میرے دین کا حمایتی بنا ہوا ہے اُسے میں چھوڑ دوں ‘یہ کیسے ممکن ہے! جو اللہ کا ولی ہے اللہ بھی توا س کا ولی ہے. پس فرمایا کہ جس شخص نے میرے ولی کے ساتھ دشمنی رکھی تو اس کے خلاف میں اعلانِ جنگ کر چکا ہوں. یہاں ’’قَـدْ آذَنْـتُـہٗ بِالْحَرْبِ‘‘ فرمایا گیا. عربی میں فعل ماضی پر جب قَـدْ لگتا ہے تو ’’Present Perfect Tense‘‘ 
کا مفہوم پیدا ہوتا ہے.

یعنی کام کا ہو چکنا مراد ہوتا ہے .البتہ اللہ تعالیٰ کی جنگ ہماری آپس کی جنگ کی طرح نہیں ہوتی. اللہ تلوار لے کر نہیں آتا. اللہ کی جنگ کے لیے مختلف کیفیات ہوتی ہیں. اللہ بھی چال چلتا ہے اور خفیہ تدبیر کرتا ہے: اِنَّہُمۡ یَکِیۡدُوۡنَ کَیۡدًا ﴿ۙ۱۵﴾وَّ اَکِیۡدُ کَیۡدًا ﴿ۚۖ۱۶﴾ (الطارق) ’’یہ لوگ کچھ چالیں چل رہے ہیں او رمیں بھی ایک چال چل رہا ہوں‘‘. اور: وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ﴿٪۵۴﴾ (آل عمران) ’’اور وہ (بنی اسرائیل) خفیہ تدبیریں کرنے لگے اور اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی‘ اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے‘‘. اللہ کی چالوں میں سے ایک بہت بڑی چال ہے ڈھیل دینا اور رسّی دراز کرنا. ارشادِ الٰہی ہے: فَمَہِّلِ الۡکٰفِرِیۡنَ اَمۡہِلۡہُمۡ رُوَیۡدًا ﴿٪۱۷﴾ (الطارق) ’’(اے نبیؐ !) پس ڈھیل دیجیے ان کافروں کو‘ ڈھیل دیجیے ان کو ایک مدت تک‘‘. اللہ تعالیٰ کافروں کی رسّی دراز کرتا ہے تاکہ وہ ذرا اور جری ہو جائیں اور اپنا خبثِ باطن پوری طرح ظاہر کر لیں. اس کے بعد پھر اللہ کی پکڑ آ جاتی ہے.ازروئے الفاظِ قرآنی: سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۴(القلم) ’’ہم ایسے طریقے سے ان کو بتدریج تباہی کی طر ف لے جائیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہو گی‘‘. اس استدراج کے تصور سے مؤمنین صادقین ہر دَور میں لرزاں و ترساں رہے ہیں.ایک شخص غلط راستے پر جا رہا ہے اور لوگوں کو اپنی پیروی کی دعوت دے رہا ہے‘ ایک ہجوم اس کے پیچھے لگ گیا ہے‘ زندہ باد کے نعرے ہیں‘ پھولوں کی بارش ہے‘ اس کے ہاتھ اور پاؤں چومے جا رہے ہیں‘ وہ سمجھ رہا ہے کہ میں کامیاب ہوں. معلوم ہوا کہ یہ استدراج ہے‘ اللہ ڈور ڈھیلی کر رہا ہے‘ کانٹا حلق میں پھنسا ہوا ہے‘ وہ جا کہیں نہیں سکتا. یہ مہلت ہے. آگے فرمایا: وَ اُمۡلِیۡ لَہُمۡ ؕ اِنَّ کَیۡدِیۡ مَتِیۡنٌ ﴿۴۵﴾ ’’میں اُن کی رسّی دراز کر رہا ہوں‘ یقینا میری چال بہت مضبوط اور پختہ ہے‘‘. اس میں کسی ضعف کا کوئی سوال نہیں ہے .میری ڈور تڑا کر کوئی مچھلی جا نہیں سکتی‘ لہذا مجھے جلدی کی ضرورت نہیں ہے.

بہرحال ولایت ایک دو طرفہ نسبت ہے بندے او رربّ کے درمیان. اور جس نے بھی اللہ کے ولی سے دشمنی رکھی اس کے خلاف اللہ تعالیٰ اعلانِ جنگ فرما چکا. ولایت کی نسبت میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ وہ دراصل غیرت و حمیت ِ دینی اور دین کی نصرت و پشت پناہی کا نام ہے. معلوم ہوا کہ سنت کا اور ولایت کا جو مفہوم میں نے بیان کیا ہے وہ دونوں باہم قریب آ گئے. کسی شہر کے بہت سے دروازے ہوں تو جس دروازے سے بھی داخل ہوں گے اُسی شہر میں داخل ہوں گے.