زیر مطالعہ حدیث قدسی میں ا س کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا تقرب حاصل کرنے کے دو ذرائع ہیں. یہاں ایک ضمنی لیکن اہم بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جا سکتا ہے اور حاصل کیا جانا چاہیے.یہ کوئی نظریاتی و خیالی (theoretical) بات نہیں ہے. پوری شریعت‘ پوری طریقت اور کُل سلوک کا لبِّ لباب اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ تقرب الی اللہ ہے. شریعت کے معنی بھی چلنا‘ طریقت کے معنی بھی چلنا اور سلوک کے معنی بھی چلنا ہیں. تینوں الفاظ کے مفاہیم میں باریک سا فرق ہے‘ لیکن تینوں میں چلنے کا مفہوم مشترک ہے. چلنا کس لیے ہوتا ہے؟ کسی منزل سے قریب ہونے کے لیے! منزل کیا ہے؟

وہ ہے قربِ الٰہی. اب دوسرے الفاظ دیکھئے : صراط‘ صراطِ مستقیم‘ صراط السوی ‘ سواء السبیل‘ قصد السبیل. ان سب الفاظ میں راستے کا مفہوم مشترک ہے. راستے کا مقصود کیا ہوتا ہے؟ کسی منزل تک پہنچانا. منزل کیا ہے؟ اللہ کا تقرب. قرآن حکیم کے الفاظ ہیں: وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ وَ مِنۡہَا جَآئِرٌ ؕ (النحل:۹’’اور اللہ کے ذمے ہے سیدھا راستہ بتاناجب کہ ٹیڑھے راستے بھی بہت سے موجود ہیں‘‘.قصد السبیل وہ سیدھا راستہ ہے جو عین اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتا ہے. جیسے آپ کہتے ہیں کہ یہ سڑک وہاں جا کر ختم ہو تی ہے. ٹیڑھے راستے آپ کو اِدھر اُدھر بھٹکا دیں گے. 

اس حدیث میں جو بہت ہی قیمتی حدیث ہے‘ بہت ہی اہم حدیث ہے‘ تقرب الی اللہ کے دو ذریعے بتائے گئے ہیں .ایک تقرب بالفرائض اور دوسرا تقرب بالنوافل. ان دونوں میں بڑی عجیب (پیاری )نسبت ہے. تقرب بالفرائض اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اور پسند ہے. چنانچہ فرمایا: وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَـرَضْتُ عَلَـیْہِ ’’اور میرا بندہ میری کسی پسندیدہ شے کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنا چاہے تو میں نے اُس پر جو کچھ فرض کیا ہے اس سے بڑھ کر کسی اور ذریعے سے نہیں حاصل کر سکتا‘‘. یہ ہے تقرب بالفرائض. اب دوسرے ذریعے کو سمجھئے وہ کیا ہے؟ وہ ہے تقرب بالنوافل. دیکھئے یہاں لفظ سنت نہیں آیا. یہاں فرض کے بعد فوراً نفل آ گیا. یہ ایک اور انداز سے ترتیب ہے. ایک وہ چیز ہے جو اللہ نے لازم کر دی ہے‘ فرض کر دی ہے (اس پر آگے بحث ہو گی کہ وہ فرض کیا کیا ہیں) ایک اس سے آگے کا مرحلہ ہے جو ایک بندئہ مؤمن اپنی آزاد مرضی سے کرتا ہے‘ وہ نفل ہے. یہ تقسیم دین کے ہر میدان اور ہر شعبے میں ہے. پنج وقتہ نماز فرض ہے‘ اس کے علاوہ نمازنفل بھی ہے. اسی طرح صدقاتِ واجبہ ہیں‘ زکوٰۃ ہے‘ عشر ہے‘ جبکہ صدقاتِ نافلہ بھی ہیں جو زکوٰۃ کے علاوہ کیے جانے چاہئیں. رمضان کے روزے فرض ہیں‘ باقی نفلی روزے جو جتنے چاہے رکھے. صاحبِ استطاعت پر ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے‘ باقی جتنے چاہے حج کرے وہ نفل ہیں. اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ایک درجہ وہ ہے جس کا بجا لانا لازم ہے. اس پر ایک اضافی اور بالاتر درجہ ہے وہ نفل ہے. اس کی کوئی حد نہیں. اس میں جو جتنا چاہے آگے بڑھے‘ سبقت لے جانے کی کوشش کرے . لہذا پہلے فرمایا: وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَـرَضْتُ عَلَـیْہِ یعنی میں نے اپنے بندے پر جو چیزیں فرض کی ہیں ‘ ان کو بجا لا کر مجھ سے جو تقرب حاصل کرتا ہے تو یہ عمل مجھے محبوب ترین ہے.

لیکن اس کے ساتھ ہی فرمایا: وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَـیَّ بِالنَّوَافِلِ ’’اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب تر ہوتا رہتا ہے‘‘. میرا بندہ اگر نوافل کے ذریعے میرا تقرب تلاش کرتا رہے ‘ کوشاں رہے‘ اس میں پیہم جدّوجہد کرے‘ بڑھتا چلا جائے تو اس کا ایک نتیجہ نکلتا ہے . وہ یہ کہ : حَتّٰی اُحِبَّـہٗ ’’یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں‘‘. بڑا عجیب اور پیارا انداز ہے.

شخصاً محبوب وہ ہے جو تقرب بالنوافل کی منزلیں طے کر رہا ہے‘ جبکہ طریقے کے اعتبار سے محبوب تقرب بالفرائض ہے. اب دیکھئے کہ محبوبیت خداوندی کے لیے الفاظ کیا آئے ہیں. اگر کوئی انسان یہ الفاظ کہتا تو وہ کافر اور مشرک قرار پاتا .یہ تو عینیت ہو جاتی. اس میں اللہ اور بندے کی تقسیم ختم ہو جاتی اور نمعلوم کتنی پیچیدگیاں اور دشواریاں پیش آتیں اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا. لیکن غور کیجیے یہ کلام کس کا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا! یہ حدیث قدسی ہے. نقل کون فرما رہے ہیں؟ الصادق المصدوق جناب محمدٌ رسو ل اللہ . الفاظ ملاحظہ کیجیے : فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَیَدَہُ الَّـتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا ’’پس جب میں اپنے اس بندے سے محبت کرتا ہوں تو میں اُس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ‘اور میں اُس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے‘ اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘. اللہ اکبر! ہم کہہ سکتے ہیں یہ الفاظ؟ لیکن جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘ یہ حدیث قدسی ہے اور صحیح بخاری کی روایت ہے. اِن شاء اللہ آگے جب میں اس حدیث کی مزید شرح کروں گا تو توقع ہے کہ بات واضح ہو جائے گی.

حدیث شریف میں آگے فرمایا: وَلَئِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ ’’اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں لازماً اس کا سوال پورا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں لازماً اسے پناہ دیتا ہوں‘‘.