اس حدیث شریف کے مطالب و مفاہیم سے جو ایک اہم نتیجہ نکلتا ہے اب اسے جان لیجیے . کرامتِ اولیاء کے لیے یہ حدیث سند ہے‘ نص ہے. اللہ جس بندے کے پاؤں بن جائے اس کی رفتار کو آپ کس پیمانے سے ناپیں گے؟ برق کی رفتار تو اس سے کہیں پیچھے رہ جائے گی. اسی طرح جس کی آنکھ اللہ بن جائے اس کے بارے میں یہ سوچا جائے کہ اس نے یہ کیسے دیکھ لیا؟ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں مسجدنبوی ؐ کے منبرپر بیٹھے شام کا میدانِ جنگ کیسے دیکھ لیا؟ یہ ’’کیسے‘‘ کا سوال کسی کے ذہن میں آیا تو یہ حماقت اور پاگل پن ہے. اس میں کسی کو اگر استبعاد محسوس ہو تواس نے موٹی سی بات نہیں سمجھی. نبی اکرم کا ارشاد ہے: اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ (۱’’مؤمن کی فراست سے بچو اور ڈرو‘ اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے‘‘. ایکسریز آپ کے جسم میں سے گزر جائیں تو اس کی خفیف ترین چیز کو بھی ظاہر کر دیتی ہیں ‘تو اللہ کا نور کس کس چیز کو چیر جائے گا ! ؎

گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں!

یہ کیفیت ہے جو کبھی کبھی طاری ہوتی ہے. خود نبی اکرم نے فرمایا: وَلٰــکِنْ یَاحَنْظَلَۃُ سَاعَۃً وَسَاعَۃً (۲یعنی اے حنظلہ! یہ کیفیات مستقلاً نہیں ہواکرتیں‘ کبھی کبھی نصیب ہوتی ہیں.

پس اس حدیث سے اصولاً کراماتِ اولیاء کا اثبات ہوتا ہے .جو شخص اس حدیث کو صحیح مانتا ہے اسے اس بات کو بھی ماننا پڑے گا . اسے ان تمام باتوں کو تسلیم کرنا ہو گا جو اس میں بیان ہوئی ہیں. البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ ان کو ہم امکانی حد تک صحیح تسلیم کریں گے. کسی معین واقعہ کے متعلق یہ حکم نہیں لگایاجا سکتا کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہے. ہو سکتا ہے کہ کوئی استدراج یا امہال و تمہیل کا معاملہ ہو‘ یا شیطان نے کسی کو کوئی بات سجھا دی ہو‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا. اس لیے کہ شیطان کے وار سے محفوظ صرف نبی ہوتا ہے‘ باقی کوئی شخص محفوظ نہیں. بڑے سے بڑا ولی محفوظ نہیں. محفوظیت اور معصومیت صرف انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا خاصّہ ہے. لہذا بڑے سے بڑے ولی کو بھی کسی وقت شیطان چکمہ دے سکتا ہے. اس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوچکمہ دینے کی کوشش کی. احادیث میں ایسے واقعات موجود ہیں. نبی اکرم نے صحابہ کرامؓ سے ایسے چند واقعات سن کر فرمایا کہ تم نے پہچانا نہیں‘ یہ شیطان تھا! ساتھ ہی آنجناب نے 
(۱) سنن الترمذی‘ کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ. باب ومن سورۃ الحجر.

(۲) صحیح مسلم‘ کتاب التوبۃ‘ باب فضل دوام الذکر والفکر … الخ. 
متنبہ فرما دیا تھا کہ:

مَنْ رَآنِیْ فِی الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِیْ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَتَمَثَّلُ فِیْ صُوْرَتِیْ (۱)
’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے واقعی مجھے ہی دیکھا ہے ‘کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا‘‘. 
اگر کوئی یہ کہے کہ خواب میں شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی روح نے مجھ سے یہ کہا تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی شیطانِ لعین نے کوئی الٹی پٹی پڑھائی ہو اور کہا ہو کہ میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی روح ہوں.

ان دونوں چیزوں کو پیش نظر رکھیے. مطلقاً انکار کر دینا کہ ہو ہی نہیں سکتا‘ ناممکن ہے‘ محال ہے‘ یہ طرزِ فکر اس حدیث کے خلاف ہے. اللہ اپنے اولیاء کا کان بنتا ہے‘ آنکھ بنتا ہے‘ ہاتھ بنتا ہے‘ پاؤں بنتا ہے‘ یہ اس حدیث سے ثابت ہے. لیکن کسی معین واقعے کے بارے میں حتمیت‘ قطعیت اور یقین کے ساتھ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ صحیح ہے یا غلط ہے. کسی شخص معین پر ایمان لانے کا ہمیں مکلف نہیں ٹھہرایا گیا. جناب محمد آخری ہستی ہیں جن پر ایمان کا مطالبہ ہے. آگے نہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر ایمان لانے کا مطالبہ ہے اور نہ کسی اور صحابی پر. رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین.جب خلفاء راشدین المہدیّین اور دیگر صحابہ کرامؓ پر ایمان لانے کا مطالبہ نہیں ہے تو اولیاء اللہ پر‘ چاہے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ہوں‘ چاہے معین الدین اجمیریؒ ہوں‘ کسے باشد‘ ایمان لانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. ہم تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معصوم نہیں مانتے.

ان سے بھی خطا ہو سکتی ہے‘ لیکن وہ خطائے اجتہادی ہو گی‘ اس میں بدنیتی یا نفسانیت ہرگز نہیں ہو گی. اَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ. چنانچہ اولیاء اللہ سے بھی غلطیوں کا صدور ممکن ہے. لہذا ایک تو یہ توازن پیدا کرنا ہے کہ ان چیزوں کا بالکل انکار کر دینا درحقیقت دین کی ایک اہم اور بہت بڑی حقیقت کی طرف سے اپنی آنکھوں کا بند کر لینا (۱) صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ باب اثم من کذب علی النبی. وصحیح مسلم‘ کتاب الرؤیا‘ باب قول النبی  من رآنی فی المنام فقد رآنی. ہے. اگرچہ تعین کے ساتھ کسی بات کی نہ ہم تصدیق کریں گے‘ نہ توثیق کریں گے اور نہ تکذیب کریں گے. وہ جانے اور اس کا ربّ جانے. ہمارے لیے اصل دلیل اور حجت صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ  ہے. تصوف کے حلقے میں یہ بات مانی جاتی ہے کہ کسی ولی کا کشف دوسرے کے لیے دلیل و حجت نہیں ہے. ہاں اگر صاحب کشف کو یہ اطمینان ہو کہ مجھ پر صحیح بات منکشف ہوئی ہے تو اس کے لیے وہ کشف دلیل و حجت ہو جائے گا. آخر انسان کی فطرت بھی تو رہنمائی کرتی ہے . ایک گواہی اندر سے بھی تو اس کو حاصل ہوتی ہے. اگر اسے یقین ہو جائے کہ اس کشف میں شیطنت نہیں‘ بلکہ یہ خدائی الہام اور رحمانی القاء ہے تو اس پر و ہ حجت ہو جائے گا‘ بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے منافی نہ ہو. باقی رہا دوسروں کا معاملہ‘ تو اگر کسی ولی کا کشف قرآن و سنت کے مطابق بھی ہو تو کسی دوسرے کے لیے حجت نہیں ہے. دین میں حجت کوئی چیز ہے تووہ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہے. جو بات مانی جائے گی وہ اس دلیل اور بنیاد پر مانی جائے گی. اُصولی طور پر اس بات کو صوفیاء کے حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں.