تصوف کے میدان میں اہم ترین بحث ذکر کی ہے ‘لیکن ہمارا تصورِ ذکر مروّجہ تصورِ ذکر سے مختلف ہے. ہمارے نزدیک اصل ذکر ‘حقیقی ذکر‘ مجسم ذکر‘ مؤثر ترین ذکر قرآن مجید ہے‘ جس کو بھلا دیا گیا‘ جس کو پس پشت ڈال دیا گیا. ہماری فکری‘ ذہنی اور عملی کج روی اور بے راہ روی کا اصل سبب یہی ہے کہ ذکر اپنے اصل ہدف سے ہٹ گیا ہے ؏ 
آہ وہ تیرِ نیم کش ‘ جس کا نہ ہو کوئی ہدف!

میں نے عرض کیا کہ ہمارے نزدیک اصل ذکر قرآن حکیم ہے. اس کے بے شمار شواہد قرآن حکیم سے پیش کیے جا سکتے ہیں. اس وقت چند آیات پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں. سورۃ الحجر میں فرمایا :

وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡ نُزِّلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ اِنَّکَ لَمَجۡنُوۡنٌ ؕ﴿۶
’’اور لوگ کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر الذکر(قرآن مجید) نازل کیا گیا ہے! تو یقینا دیوانہ ہے‘‘. 

یہ کفارِ مکہ کا قول قرآن نے بیان کیا ہے. اس میں منکرین نے بھی قرآن کو ’’ذکر‘‘ کہا ہے‘ جس کی توثیق اللہ تعالیٰ اسی 
سورت میں اس طرح فرماتا ہے: 
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) 
’’بیشک ہم نے اس الذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘. 

سورۃ النحل میں فرمایا:
وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۴۴
’’اور ہم نے (اے نبیؐ ) آپ کی طرف یہ الذکر (قرآن مجید) نازل کیا ہے‘ تاکہ آپ اس تعلیم کی جو آپ کی طرف لوگوں کے لیے نازل کی گئی ہے ‘ ان کے سامنے توضیح و تشریح کریں اور شاید لوگ خود بھی غور و فکر کریں‘‘.

ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الذکر‘ مجسم ذکر‘ سرتاسر ذکر قرآن ہے.اسے پڑھو‘ اسے حرزِ جان بناؤ‘ اسے ذہن میں اتارو‘ اس کو حفظ کرو.اس کی تلاوت کرو جیسا کہ تلاوت کا حق ہے اور اس کے ذریعہ اپنے رات اور دن کو زندہ کرو. یہ ہے اصل ذکر.

اس کے علاوہ نماز کے متعلق فرمایا: 
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ (طٰہٰ) ’’نماز قائم کرو میرے ذکر کے لیے‘‘.گویا نماز کا مقصد ذکر ہے .اور اس ضمن میں سنت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کیا ہے؟ آنحضور کی رات کی نماز کا عالم یہ ہے کہ طویل قیام ہے اور اس میں قرآن کی طویل تلاوت ہے. ایک ایک رکعت میں سورۃ البقرۃ‘ سورۂ آل عمران اور سورۃ النساء تین طویل ترین سورتوں تک کی تلاوت ہے.اس کے علاوہ اذکارِ مسنونہ اور ادعیۂ ماثورہ ہیں. لیکن یہ طریقے چھوڑ کر ہم نے ضربیں لگانی سیکھی ہیں‘ خاص آسن ایجاد کیے ہیں‘ ہم نے نشست کے خاص انداز نکالے ہیں.یہ کہاں سے آئے؟ ان پر عمل کرنے والوں میں جو منصف مزاج لوگ ہیں وہ یہ بات مانتے ہیں کہ یہ طریقے رسول اللہ سے منقول و ماثور نہیں ہیں‘ بلکہ یہ بعد کے لوگوں کے اپنے اجتہادی اور تجرباتی معاملات ہیں. لیکن ہمارے لیے اس معاملے میں بھی سنت نبویؐ اور سنت خلفائے راشدین مہدیینؓ ہی کو اختیار کرنے میں عافیت ہے.

یہ نہ سمجھئے کہ ہم کسی سلوک کے قائل نہیں ہیں. ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ سلوکِ محمدی ہے جس پر ہم چلنا چاہتے ہیں. ہم نے سلوک اور سنت کو جمع کیا ہے. ہم نے سلوک کے غلط تصورات کو چھوڑا ہے جہاں نچلی منزل کی تعمیر کے بغیر اوپر کی منزل تعمیر کرنے کی کوشش ہوتی ہے‘ جہاں حمیت دینی اور غیرتِ دینی کا معاملہ خارج از بحث ہو گیا ہے. ہم نے ان تصورات کو ترک کیا ہے تو علیٰ وجہ البصیرت ترک کیا ہے. یہ بات نہیں ہے کہ تصوف کے جو مطلوبہ مقاصد ہیں ان کو ہم نہ مانتے ہوں اور ان کو نہ سمجھتے ہوں. تصوف کا اصل موضوع تطہیر قلب اور تعمیر سیرت ہے. ہم علیٰ وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ اس کا اصل منبع و سرچشمہ قرآن حکیم ہے‘جو 
شِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ بھی ہے‘ ھُدًی لِّلنَّاسِ بھی ہے‘ اَلذِّکْر اور اَلذِّکریٰ بھی ہے. ربیع قلب بھی ہے‘ نورِ صدر بھی ہے. جلاءِ حزن بھی ہے اور ذَھَابِ ھَمّ وَغَمّ بھی ہے. الغرض ہمارے نزدیک تزکیۂ نفس کا اصل ذریعہ ہے قرآن مجید.اس کا لبّ لباب ہے ایمان‘ اور ایمان کا لبّ لباب ہے توکل اور راضی بہ رضائے ربّ رہنا . یہی تصوف کا حاصل ہے. ؎

بروں کشید ز پیچاکِ ہست و بود مرا
چہ عقدہ ہا کہ مقامِ رضا کشود مرا!

کون اس کا انکار کرے گا! معاملہ ذرائع کا ہے. ہم نے سلوکِ محمدیؐ ‘ کو اختیار کیا ہے‘ جس کا منبع و سرچشمہ قرآن مجید ہے.