سیرت نبویؐ کا مطالعہ کیجیے اور دیکھئے کہ نبی اکرم کا سلوک کون سا تھا! آپ کو صاف نظر آئے گا کہ اس میں اصل اور بنیادی اہمیت تقرب بالفرائض کی تھی‘ اور آپؐ فریضۂ شہادت علی الناس کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف تھے. جبکہ تقرب بالنوافل میں آپؐ جس مقام و مرتبہ پر تھے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا. اس معاملے میں ہم کیا عرض کریں گے! آپ نے خود فرمایا: وَاَیُّکُمْ مِّثْلِیْ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ (۱’’تم میں سے کون میرے مانند ہو سکتا ہے؟ میں تو رات اپنے ربّ کے پاس بسر کرتا ہوں ‘ وہ مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے‘‘.

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا معاملہ دیکھئے کہ ان کا سلوک کون سا تھا؟یہ سلوک بالفرائض تھا. ان کا سارا زور‘ ان کی ساری توجہ فرائض پر مرکوز نظر آتی ہے.میں جب ’’دینی فرائض‘‘ کا ہمہ گیر اور جامع تصور آپ کے سامنے رکھوں گا تو بات مزید واضح ہو جائے گی. بدقسمتی یہ ہوئی کہ بعد کے اَدوار میں ان تصوراتِ دینی اور سلوکِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر رفتہ رفتہ مختلف حجابات پڑتے چلے گئے‘ تاآنکہ یہ دینی تصورات حجابات میں ایسے مستور ہوئے کہ عوام تو عوام خواص کی آنکھوں سے بھی اوجھل ہو گئے. اب تو عام طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ دینی فرائض بس نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کی عبادات میں محدود و محصور ہیں. ایسا کیوں ہوا؟ اس کے بھی چند نمایاں اسباب ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے.

نبی اکرم کی بعثت سے قبل تو ’’اسلام‘‘ بحیثیت دین موجود ہی نہیں تھا. موجود ہونا اور نافذ العمل ہونا تو درکنار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین توحید کو خود اُن کے جلیل القدر فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل گم کر چکی تھی اور اس پر مشرکانہ عقائد اور نظریات و توہمات کا بھرپور غلبہ تھا. یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں جو گھر خالص اللہ کی عبادت کے لیے ان باپ بیٹوں نے تعمیر کیا تھااس بیت اللہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے جن کی پرستش ہوتی تھی. حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لایا ہوا دین توحید کئی فرقوں میں منقسم ہو چکا تھا.روح اور عمل دونوں اعتبارات سے توحیدِ خالص کا تصور مسخ ہو چکا تھا‘ حتیٰ کہ ان میں ایک ایسا فرقہ بھی موجود تھا جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتا تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کا لایا ہوا دین توحید یونان و روم کی اصنام پرستی سے مغلوب ہو کر تثلیث کی صورت اختیار کر چکا تھا. مجوسی آتش پرستی اور ثنویت (یزدان اور اہرمن) کے قائل 

(۱) متفق علیہ. تفصیلی حوالہ گزر چکا ہے. تھے.الغرض پوری دنیا میں شرک کے اندھیارے چھائے ہوئے تھے.
اس صورت حال کا تقاضا تھا کہ دین توحید کو عملاً قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے. ازروئے حکمِ الٰہی : 
اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ (الشوریٰ:۱۳’’یہ کہ دین کو قائم کرو‘‘. اس معرکۂ حق و باطل کے لیے خود کو تیار کرنا تھا. اس کے لیے اپنے قلب و ذہن کو بیدار کرنا تھا اورتقرب الی اللہ کے لیے تقرب بالفرائض کے پہلو بہ پہلو تقرب بالنوافل کو بھی معمولات میں شامل کرنا تھا. ان دونوں ذرائع سے اپنے فکر ونظر کو نورِایمان سے منور اور شوقِ شہادت سے مملو اور معمور کرنا تھا. چنانچہ نبی اکرم کے جاں نثار ساتھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ہمیں دورِ نبویؐ اور دورِ خلافت ِ راشدہ میں یہی نقشہ نظر آتا ہے. یہ تھا صحابہ کرامؓ ‘کا سلوک. اسی کی شہادت قرآن مجید‘ احادیث شریفہ اور سیرت کی تمام مستند کتب دیتی ہیں.اسی نقشہ کی علامہ اقبال نے یوں تعبیر کی ہے ؎ 

با نشۂ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن!

البتہ بعد میں جب دین غالب ہو گیا‘ نہ صرف عرب بلکہ عراق‘ شام‘ فلسطین‘ ایران حتیٰ کہ افریقہ کے شمالی علاقے کے بہت بڑے حصے پر اللہ کے دین کا جھنڈا سربلند ہو گیا اور شریعت کا نفاذ عمل میں آ گیا تو اب منظر یہ تھا کہ اللہ کا حکم چل رہا ہے‘ اسلامی عدالتیں قائم ہیں‘قاضی ہیں‘ فتاویٰ دیے جا رہے ہیں‘ شریعت خداوندی کے مطابق فیصلے ہو رہے ہیں. لہذا اب وہ وقت آیا کہ تقرب بالفرائض کے ساتھ ساتھ تقرب بالنوافل کی طرف زیادہ توجہ دی جائے. چنانچہ اُس دَور میں بھی کثرت کے ساتھ ایسے حضرات نظر آتے ہیں جو تقرب بالفرائض کے ساتھ ساتھ تقرب بالنوافل میں بھی پورا انہماک رکھتے تھے. تاریخ کی یہ بڑی عجیب اور بڑی پیاری شہادت ہے کہ جب اللہ کے دین توحید کی دعوت وتبلیغ اور نظامِ قسط و عدل کے قیام و نفاذ کے لیے مجاہدین اسلام ایران جیسی وقت کی عظیم ترین قوت سے نبرد آزما ہوئے اور اس کی مضبوط اورعظیم عسکری قوت ان مٹھی بھر اور ناقص و نامکمل اسلحہ جنگ کے حامل مجاہدین کے ایمان کی آہنی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہونے لگی تو ایرانی سپہ سالار رستم نے اپنے جاسوس بھیجے کہ معلوم کریں کہ ان بے سروسامان جنگجوؤں کی قوت کا اصل راز کیا ہے‘ تو اس کے مخبروں اور جاسوسوں نے اسے ان مجاہدین کے بارے میں بتایا: ھُمْ فُرْسَانٌ بِالنَّھَارِ وَرُھْبَانٌ بِاللَّیْلِ یعنی دن میں یہ لوگ شہسوار اور مردانِ میدانِ کارزار ہیں اور ا ن کی راتیں اپنے اللہ کے حضور میں قیام و سجود‘گریہ و زاری اور دعا و مناجات میں بسر ہوتی ہیں. ان کی داڑھیاں اور ان کی سجدہ گاہیں خشیت الٰہی کے آنسوؤں سے تر ہوتی ہیں‘ حالانکہ دنیا جنگ کے جن طور طریقوں سے واقف تھی اور آج بھی آگاہ ہے‘ وہ تو یہ ہیں کہ فوجیوں کی راتیں شراب و کباب اور شباب سے کھیلنے میں بسر ہوتی ہیں. یہ وہ عجوبۂ روزگار‘ انوکھے اور نرالے اللہ کے سپاہی تھے کہ جن کے متعلق دشمن کے جاسوس یہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ لوگ رات کے راہب اور دن کے شہسوار ہیں.ایسے اولیاء اللہ سے جو بھی کبھی ٹکرایا وہ ریت کے ٹیلوں کی طرح بکھر گیا. پس یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا سلوک.

یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نبی اکرم کا ارشاد ہے کہ بیت اللہ میں نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا اور حرمِ نبویؐ میں پچاس ہزار گنا ہے. اس کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نمازیں چھوڑ کر جہاد و قتال کے لیے نکلے. اس لیے کہ اللہ کے دین کو بالفعل قائم کرنے کی سعی و جہد سب سے بڑا فرضِ منصبی ہے. یہ کام حرمِ شریف اور حرمِ نبویؐ میں نمازیں ادا کرنے سے بھی زیادہ اجر و ثواب کاباعث ہے. یہ تقرب بالفرائض میں شامل ہے‘ جس کے بغیر تقرب بالنوافل ممکن ہی نہیں.

دورِ خلافت راشدہ کے بعد ہمیں اپنے بزرگانِ دین کی اکثریت میں تقرب بالنوافل کثرت کے ساتھ نظر آتا ہے. اس کی توجیہہ بھی ہے ‘ جواز بھی ہے اور اس کا صحیح مقام و محل بھی سمجھ میں آتا ہے. وہ یہ کہ اُس وقت کی معلوم و متمدن دنیا کے ایک بہت بڑے خطے پر اللہ کا دین قائم و نافذ ہو چکا تھا‘ اللہ ہی کا کلمہ اور جھنڈاسربلند تھا‘ وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا کا مشاہدہ دنیا چشمِ سر سے کر رہی تھی.لیکن رفتہ رفتہ تقرب بالفرائض کو صرف ارکانِ اسلام میں محدود سمجھنے کا تصور پختہ ہوتا چلا گیا اور تواصی بالحق‘ دعوت الی اللہ‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ شہادت علی الناس‘ اقامت دین کے لیے جدوجہد اور قتال فی سبیل اللہ کو دینی فرائض کی فہرست سے خارج سمجھا جانے لگا‘ یہاں تک کہ ہمارے دینی نظامِ زندگی کا پورا قصر مسمار ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام بکمال وتمام دنیا کے کسی گوشے میں بھی قائم و نافذ نہیں رہا. اب صورتِ حال وہ ہو گئی تھی جس کو مولانا حالی نے بڑی دلسوزی کے ساتھ یوں تعبیر کیا ہے : ؎
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے 

اس وقت ضرورت اس امر کی تھی کہ دینی فرائض کا جامع اور ہمہ گیر تصور اجاگر کیا جاتااور پورے شد و مد سے تقرب بالفرائض پرزور دیا جاتا. لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا‘ بلکہ سلوک کا جو راستہ (تقرب بالنوافل) تصوف نے متعین کیا تھا یہ قافلہ اُسی پر چلتارہا. وہ ابھی تک اپنی اصل کی طرف لوٹ نہیں رہا‘ حالانکہ صورتِ حال یکسر بدل چکی ہے. اب پھر اسی سلوک کی ضرورت ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا تھا.