جن حضرات نے ہندوستان اور خاص طور پر دورِ مغلیہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ یہ بات یقینا جانتے ہوں گے کہ مجدد الف ثانی شیخ احمدسرہندی رحمہ اللہ علیہ کے زمانے میں ہندوستان میں حکومتی سطح پر خرابیاں تھیں‘فسق و فجور بھی تھا‘ اکبر کادین الٰہی بھی آ گیا تھا‘ لیکن شریعت کا ڈھانچہ موجود تھا‘ شرعی عدالتیں قائم تھیں‘ قاضی موجود تھے. چنانچہ حضرت مجدّد الف ثانی نے تلوار نہیں اٹھائی ‘لیکن سنت رسول علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے احیاء کے لیے صوفیاء کے حلقوں میں سے جس بزرگ ہستی کی طرف سے پہلی مرتبہ کوئی زوردار دعوت اٹھی تو وہ شخصیت تھی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ علیہ کی.اس کے بعد جب انگریز آ گیا اور ہمارے نظام کی پوری عمارت ہی زمین بوس ہو گئی تو اب ایک اور احمد اٹھا‘ اور یہ سید احمد بریلوی رحمہ اللہ علیہ تھے.یہ امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کے تربیت یافتہ تھے. انہوں نے جہاد و قتال کا نعرہ لگایا. (۱انہوں نے کہا کہ ہمارا سلسلہ ’’سلوکِ محمدیہ‘‘ ہے علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام . سلوک کے چار مشہور سلاسل ہیں: سلسلۂ قادریہ‘ سلسلۂ نقشبندیہ ‘سلسلۂ چشتیہ اور سلسلۂ سہروردیہ. انہوںؒ نے نہایت زور دے کر کہا کہ ہمارا طریقہ اور سلوک وہ ہے جس میں جنگ اور قتال فی سبیل اللہ ہے‘ جس میں اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آ جانا ہے. یہ طریق و سلوکِ محمدیہؐ ہے جس کوہم نے اختیار کیا ہے. اُسی کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں اور اسی پر ہم عمل پیرا ہیں. اور اس سلسلۂ محمدیہؐ کا ذکرِ اوّلین ہے قرآن مجید.

اسی تصور کو ہم نے علیٰ وجہ البصیرت اختیار کیا ہے جو سید احمد بریلوی شہیدؒ کے بقول طریق و سلوک محمدیہ‘علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہے. تقرب الی اللہ کا ہمارا جو تصور ہے ‘ طریقت اور سلوک کے بارے میں ہمارے جو نظریات ہیں ‘ ہمارے نزدیک تقرب الی اللہ کے جو وسائل اور ذرائع ہیں‘ ان میں جو نسبت و تناسب ہے ان امور کے بارے میں مَیں نے اپنی امکانی حد تک وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے .اور مجھے توقع ہے کہ ہمارا موقف آپ حضرات کے سامنے آ گیا ہو گا. یہ بالکل دوسری بات ہے کہ آپ اس سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں. 

ہماری اب تک کی گفتگو اِس سوالیہ نشان تک پہنچ گئی ہے کہ ’’ازروئے قرآن حکیم ہمارے بنیادی دینی فرائض کیا ہیں؟‘‘ اس کے ساتھ ہی مجھے اس امر کی بھی وضاحت کرنی ہے کہ ’’آیا اِن کی ادائیگی انفرادی طور پر ممکن ہے یا نہیں‘‘؟ آپ ایک درخت کا 

(۱) مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کی کتاب ’’پرانے چراغ‘‘ میں ولی اللہ حکمت کے متعلق یہ شعر نظر سے گزرا ؎

یہی ہے مختصراً حکمت ولی اللہ
جمے تو مدرسہ و خانقاہ اٹھے تو سپاہ

(جمیل الرحمن) تصور کیجیے. اس کی ایک جڑ اور ایک تنا ہے. پھر اس سے چار شاخیں نکلی ہوئی ہیں جن سے مزید بہت سی چھوٹی چھوٹی شاخیں اور پھر پتے ہیں. الغرض شاخوں کا ایک طویل سلسلہ ہے. یہی مثال اپنے دین اسلام کی سمجھئے. ساتھ ہی یہ بھی جان لیجیے کہ ’’فرض‘‘ کا تصور آپ کو ہر سطح (level) پر ملے گا. انسان کا سب سے پہلا اور بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ اللہ کا بندہ بنے. یہ اس درخت کا تنا ہے. ارشادِ ربّانی ہے : یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ (البقرۃ:۲۱اس سے آگے یہ مطالبہ آئے گا کہ نماز بھی پڑھیں‘ وہ بھی فرض ہے. یہ تنے سے شاخیں پھوٹ رہی ہیں. پھر نمازوں میں کچھ فرائض ہیں‘ کچھ سنتیں ہیں. اب ایک شاخ سے بہت سی شاخیں پھوٹ گئیں. آپ نے چار رکعت کی نیت کی. اب اس میں بھی کچھ فرائض ہیں. اس میں قیام اور قراء ت فرض ہے‘ رکوع و سجود فرض ہے. تو یہ فرض یہاں سے وہاں تک چل رہا ہے. اسی طرح جن نمازوں کو ہم سنتیں یا نوافل کہتے ہیں‘ ان میں بھی یہی فرائض موجود ہیں. فرائض کا بنیادی تصور اور پھر فرائض کا ثانوی تصور اگر ترتیب کے ساتھ نہیں سمجھیں گے تو ذہن کے اندر ایک الجھاؤ اور انتشار (confusion) رہے گا.