فرائض کے بارے میں ہمارے ہاں عمومی تصور یہ ہے کہ نماز پڑھ لی‘ فرض ادا ہوگیا.روزہ رکھ لیا‘ فرض ادا ہو گیا. صاحب نصاب ہیں تو زکوٰۃ ادا کر دی‘ صاحب ِ استطاعت ہیں تو حج کر لیا‘ یہ دونوں فرائض بھی ادا ہو گئے. اب اور کون سے فرائض ہیں‘ جن کی ادائیگی کا مطالبہ ہے؟’’ہاتھی کے پائوں میں سب کے پاؤں‘‘ کے مصداق آپ بنیادی فرائض کو اگر ایک لفظ میں سمجھنا چاہیں تو وہ ہے ’’عبادتِ ربّ‘‘یعنی اللہ کے بندے بننا. (۱

اسی بات کو واضح کرنے کے لیے قرآن مجید میں دو اصطلاحات اور آتی ہیں. 

(۱) اس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لیے محترم ڈاکٹر صاحب کی تالیف ’’مطالباتِ دین‘‘ کا مطالعہ ان شاء اللہ مفید مطلب ہوگا. (مرتب) ایک ہے : اَطِیْعُوا اللّٰہَ ’’اللہ کی اطاعت کرو‘‘اور دوسری ہے :اَسْلِمُوْا ’’سرِتسلیم خم کرو‘‘. مفہوم کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں. اللہ کے بندے بنو‘ اس کی غلامی اختیار کرو‘ بندگی کی روش اختیار کرو‘ اطاعت کرو‘ گردن جھکا دو‘ سرتسلیم خم کر دو‘ فرماں برداری کا وطیرہ اپناؤ. ان سب کا مفہوم ایک ہی ہے. چنانچہ پہلا فرض جو سارے فرائض کی جڑ اور بنیاد ہے ‘وہ ہے ’’عبادتِ ربّ‘‘. اور یہ کوئی آسان کام نہیں‘ بڑا کٹھن ہے. اس راہ میں بڑے بڑے موانع ہیں. سب سے پہلا مانع ہمارا اپنا نفس ہے ؎

نفسِ ما ہم کمتر از فرعون نیست
لیک اُو را عون ایں را عون نیست!

نفس نہیں مانتا‘ خواہشاتِ نفس اس راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں. پھر ماحول رکاوٹ بنتا ہے. خوداپنے بیوی بچے آڑے آتے ہیں. برادری نہیں مانتی‘ رشتہ دار نہیں مانتے. اس طرح یکے بعد دیگرے موانع کے کئی دائرے ہیں. ان میں سے ایک ایک سے نبردآزما ہونا ہے ؎ 

چوں می گویم مسلمانم بہ لرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا اِلٰہ را!

عبادتِ ربّ کے ضمن میں ایک بات اچھی طرح واضح رہنی چاہیے کہ عبادت اور بندگی کلی طور پر مطلوب ہے‘ جزوی مطلوب نہیں ہے. غلام تو ہمہ وقت غلام ہوتا ہے‘ جبکہ ملازمت ایک جزوی معاملہ ہوتا ہے. عبدیت تو ہمہ تن اور ہمہ وقت بندگی کا نام ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (البقرۃ:۲۰۸’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ!‘‘ اپنے پورے وجود‘ اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سمیت اسلام میں داخل ہونا پڑے گا. اپنے نفس کی تمام خواہشات کو اللہ کی فرماں برداری کا خوگر بنانا ہو گا. یہاں اگر ایک حکم بھی جان بوجھ کر سرکشی کے جذبے کے تحت توڑا اور اس پر اصرار کیا تو یہ ایک نافرمانی سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دے گی. ازروئے الفاظ قرآنی : بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۸۱﴾ (البقرۃ)

’’کیوں نہیں! جس کسی نے (اپنے دلی ارادے کے ساتھ) ایک برائی کمائی اور اس کی خطاکاری نے اس کو گھیرے میں لے لیا تو یہی لوگ دوزخی ہیں‘ وہ اُسی میں ہمیشہ رہیں گے‘‘. 
دین میں جزوی اطاعت نہیں‘ کلی اطاعت درکار ہے. جزوی اطاعت پر تو قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار فرمایا ہے:

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (البقرۃ) 
’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیاہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ اُن حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو‘‘.

اس آیت کے تیور پہچانیے. اس میں کس قدر غیظ و غضب کا اظہار ہو رہا ہے کہ یہ کیا روش ہے اور یہ کیا اطاعت ہے کہ تم کتاب کی کچھ باتیں مانتے ہو اور کچھ نہیں مانتے؟ یہ حکم ہمارا تھا‘ یہ سر آنکھوں پر! اور وہ حکم بھی ہمارا تھا‘ اُسے پاؤ ں تلے روند دیا! اس ڈھٹائی اور اس گستاخی کی سزا یہی ہے کہ دنیا میں تم کو ذلیل و رسوا کر کے رکھ دیا جائے اور آخرت میں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے. اور اس غرّے میں نہ رہنا کہ تم اللہ کو دھوکہ دے لو گے اور وہاں بھی تمہارا فریب چل جائے گا. جان لو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے. 
اس آیت کے اصل مخاطب یہود ہیں اور اس میں ان کے اس عظیم ترین جرم کا ذکر ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین و شریعت کے ساتھ روا رکھا تھا. لیکن قرآن کا 
یہ اسلوب ہے کہ اُمم سابقہ کے حالات و واقعات ‘ ان کی بداعمالیاں‘ ان کے کرتوت اور ان کے نتیجے میں وہ دنیا میں جس انجامِ بد سے دوچار ہوئے‘ اس کا ذکر سبق آموزی اور عبرت پذیری اور اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے انتباہ کے لیے بھی ہوتا ہے کہ دیکھنا نافرمانی اور سرکشی کی وہ روش اور طرزِ عمل اختیار نہ کرنا جو مغضوب و ضال اُمم نے اختیار کیا تھا. اگر تم نے بھی وہی کچھ کیا جو انہوں نے کیا تھا تو ہمارا قانون بے لاگ ہے‘ ہماری سنت اٹل ہے.

فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا ﴿۴۳﴾ (فاطر)
’’پس (یہی بات ہے تو) تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے‘ اور تم اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے پھرا ہوا ہرگز نہ پاؤ گے‘‘.

تمہارے ساتھ بھی وہی کچھ سلوک ہو گا جو نافرمان اور سرکش اممِ سابقہ کے ساتھ ہو چکاہے.
عبادتِ ربّ وہ فریضہ ہے جس کے لیے ہماری تخلیق ہوئی. سورۃ الذّٰریٰت میں ارشاد ہوا: 

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶
’’اور نہیں پیدا کیا میں نے جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘.

تمام انبیاء و رُسل علیہم الصلوٰۃ والسلام اسی دعوت اور اسی پکار کے ساتھ مبعوث ہوئے: 

یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ (الاعراف:۵۹۶۵۷۳۸۵)
’’اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو‘ اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے.‘‘

اور :

اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾ (نوح) 
’’یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو اوراس کی نافرمانی سے بچو اور میری اطاعت کرو.‘‘

قرآن مجید بھی آیا تو یہی دعوت اور پکار لیے ہوئے : 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ (البقرۃ) ’’اے بنی نوع انسان! اپنے اُس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی‘ تاکہ تم بچ سکو.‘‘

تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی اُمتوں کو یہی حکم دیا گیا کہ وہ ہر طرف سے مُنہ موڑ کر اور یکسو ہو کر صرف اللہ کی بندگی کریں اور اپنی اطاعت کو اسی کے لیے خالص کریں. ازروئے الفاظِ قرآنی :

وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ (البیّنۃ:۵)
’’اور ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ بندگی کریں اللہ کی‘ اُس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے‘ (ابراہیم ؑ کی طرح) یکسو ہو کر‘‘.