عبادت کے ضمن میں ایک انتہائی اہم شے ’’دعا‘‘ ہے جسے نبی اکرم نے عبادت کا جوہر بھی قرار دیا ہے: اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (۱اور یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ دعا ہی اصل عبادت ہے: اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (۲).

قرآن مجید نے اس کی طرف ان الفاظ میں دعوت دی ہے کہ :
وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ ﴿٪۶۰﴾ (المؤمن)

’’اور تمہارا ربّ فرماتا ہے کہ مجھ ہی کو پکارو (مجھ ہی سے مانگو) میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘ بے شک جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے مُنہ موڑتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کرجہنم میں داخل ہوں گے‘‘.
سورۂ بنی اسرائیل (آیت ۲۳) میں ایک قاعدہ کلیہ اور اٹل فیصلے کے طور پر فرمایا:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ

’’ آپ کے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف 

(۱) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات‘ باب منہ.
(۲) سنن الترمذی‘ کتاب تفسیر القرآن‘ باب ومن سورۃ المؤمن. وسنن ابی داوٗد‘ کتاب الصلاۃ‘ باب الدعاء. 
اُسی کی‘‘.
الغرض عبادتِ ربّ کی دعوت قرآن حکیم کا اصل موضوعِ خطاب ہے.