عبادتِ ربّ کا لازمی تقاضا ’’اقامت دین‘‘

اس طرح عبادتِ ربّ ہی کے لازمی تقاضے کے طور پر ہمارے سامنے دین کا یہ مطالبہ آتا ہے : اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ (الشوریٰ:۱۳’’یہ کہ دین کو قائم کرو‘‘. یہ فریضۂ اقامت دین ہے. ماحول پر بندگی ٔ ربّ قائم ہو گئی تو دین قائم ہو گیا. چنانچہ اپنے گھر پر دین قائم کرو‘ اپنے محلے اور بستی میں دین قائم کرو‘ اپنے شہر اور ملک میں دین قائم کرو. پھر دین کی آفاقی دعوت کے علمبردار بن کر پورے کرۂ ارضی پر اللہ کے دین کے قیام و نفاذ کے لیے جدوجہد کرو. سورۂ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے الفاظ وارد ہوئے ہیں:

اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ (آیت ۴۰)
’’فرماں روائی اور حکمرانی کا اقتدار و اختیاراللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے‘ اُس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ‘ یہی دینِ قیم ہے‘‘.

آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس آیت میں عبادتِ ربّ کے حکم سے پہلے یہ بات واضح کر دی گئی کہ حاکمیت (sovereignty) صرف اللہ ہی کے لیے ہے ؎

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری!

اور جب پورا نظامِ زندگی اللہ کی حاکمیت کے تصور پر قائم ہو تو اسی کا نام ہے 
’’الدین القیم‘‘.