دین کا اصل مفہوم ’’جزا و سزا‘‘ اور ’’بدلہ‘‘ ہے. اس بنیادی تصور کے تمام مقتضیات اور لوازم کے اجتماع سے قرآن مجید کی مخصوص اصطلاح ’’الدّین‘‘ بنی ہے. چنانچہ دین کے معنی ہیں ایک پورا نظامِ زندگی‘ مکمل ضابطہ ٔ حیات اور اکمل و اتم دستور و آئینِ اطاعت‘ جس میں ایک ہستی یا ادارے کو مطاع‘ مقنن (Law Giver) اور حاکمِ مطلق (Absolute Sovereign) مان کر اس کی سزا کے خوف اور اس کے انعام کے ذوق و شوق سے اس کے عطا کردہ یا جاری و نافذ قانون اور ضابطے کے مطابق اس ہستی یا ادارے کی کامل اطاعت کرتے ہوئے زندگی بسر کی جائے. پس اقامت دین کا حکم عبادتِ ربّ ہی کے اس عہد کا تقاضا ہے کہ جس کی ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں تجدید کرتے ہیں کہ ’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ ‘‘ یعنی ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے. چنانچہ لازم ہے کہ ہم خود بھی حقیقی معنوں میں اللہ کے بندے بنیں اور ساتھ ہی ہم اپنے گھر پر‘ اپنے محلے اور بستی پر‘ اپنے شہر اور ملک پر اور پھر کُل روئے زمین پر عبادتِ ربّ کا نظام یا بالفاظِ دیگر دین الحق کو قائم ‘ غالب اور نافذ کرنے کی سعی و کوشش کریں. اسی کے لیے محنت ہو‘ اسی کے لیے تگ و دَو ہو‘ اسی کے لیے بھاگ دوڑ ہو‘ اسی کے لیے سونا ہو‘ اسی کے لیے اٹھنا ہو‘ اسی کے لیے بیٹھنا ہو‘ اسی کے لیے جینا اور مرنا ہو‘ اسی کے لیے لوگوں سے جا کر ملنا ہو‘ اسی کے لیے اپنے ذہن و فکر کی قوتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہو‘ اسی کے لیے جسم و جان کی توانائیوں کو کھپانا اور اسی کے لیے سوچ بچار کرنا ہو.یہ ساری چیزیں عبادتِ ربّ میں شامل ہیں. یہی سنت رسول ہے اور یہی تقرب الی اللہ بالفرائض ہے. تینوںباتیں ایک ہی ہیں. اور یہی ہے سلوکِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام.