مسلمان ہونے کے اعتبار سے ہماری دو نسبتیں ہیں. پہلی یہ کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور دوسری یہ کہ ہم محمدٌ رسول اللہ کے اُمتی ہیں.اب تک میں نے عبادتِ ربّ کے ضمن میں چند چیزیں آپ کے سامنے رکھی ہیں. دعوت‘ تبلیغ‘ تلقین‘ نصیحت‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر. دین کو اپنے گھر‘ اپنے محلے‘ شہر ‘ ملک اور پوری دنیا میں قائم کرنے کی جدوجہد‘ یہ سب عبادتِ ربّ ہی کے تقاضے ہیں. اب آیئے غور کریں کہ محمد کے اُمتی ہونے کے اعتبار سے ہمارے فرائض اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ آنحضور کے اُمتی ہونے کی وجہ سے اس میں ایک مزید رُخ(dimension) اور پہلو (aspect) کا اضافہ ہو جاتا ہے. ایک وہ شخص ہے جو اپنے طو رپر بندگی ٔ ربّ کے تقاضے کے طور پریہ کام کر رہا ہے اور ایک وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ مامور فرما دے کہ تجھے کرنا ہی یہ کام ہے. اب معاملہ بہت بلند اور ارفع ہو گیا. جناب محمد اللہ کے بندے بھی ہیں اور رسول بھی ہیں. نَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُــہٗ نوعِ انسانی کے لیے نصح و خیر خواہی اور اس کی نجات کے لیے فکرمنداور متمنی ہونا آپ کی عبدیت کا بھی تقاضا تھا‘ جبکہ رسول ہونے کی حیثیت سے آپؐ اس کام پر مامور من اللہ ہوگئے‘ اب آپؐ ایک ایک شخص کے پیچھے جایئے‘ ایک‘ایک کے گھر پر دستک دیجیے‘ایک ایک کے دل پر جا کر صدا لگایئے. آپؐ کا معاملہ عام اولیاء اللہ والا نہیں ہے. آپؐ کو جب رسول بنا کر مامور کیا گیا ہے تو آپؐ کی ذمہ داری سوا ہو گئی ہے.