ہمارا ایمان ہے کہ نبوت و رسالت محمدٌ رسول اللہ پر اختتام کو پہنچی اور اکمال و اتمام کو بھی. اب کارِ رسالت کی ذمہ داری اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر بحیثیت اُمت عائد کر دی گئی ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (البقرۃ:۱۴۳

’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں اُمت وسط (بہترین گروہ) بنایا ہے تاکہ تم (دنیا کے) لوگوں پر گواہی دینے والے بن جاؤ اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے.‘‘
مزید فرمایا:

وَ جَاہِدُوۡا فِی اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ (الحج:۷۸)

’’اور (اے ایمان لانے والو!) اللہ کے لیے جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے. اُس نے تمہیں (اپنے اس کام کے لیے) چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی. قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر. اس نے پہلے بھی تمہارانام ’’مسلم‘‘ رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ تم پر گواہ ہو جائیں رسول اور تم لوگوں (بنی نوع انسان) پر گواہی دینے والے بن جاؤ ‘‘.

ایک مقام پر فرمایا: 
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ (آل عمران:۱۱۰)
’’تم (دنیا میں اب) بہترین اُمت ہو جسے لوگوں (کی رہنمائی اور ہدایت و اصلاح) کے لیے برپا کیا گیا ہے. تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘.

یہ تمام آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ختم نبوت و رسالت کے بعد کارِرسالت کی ذمہ داری یعنی نوعِ انسانی پر اپنے قول و عمل سے حق کی شہادت دینا‘ جیسے آنحضرت نے اُمت پر دی‘ اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے کاندھوں پر عائد کر دی گئی ہے. گویا اب اُمت محمد کا ایک ایک فرد ’’رسول‘‘ ہے.

جن لوگوں نے اناجیل کا مطالعہ کیا ہے انہوں نے دیکھا ہو گا کہ ان میں ایک مستقل باب ہے ’’رسولوں کے افعال‘‘ (Acts of the Apostles) . یہ رسول (apostles) کون ہیں؟ یہ تھے حواریینِ حضرت مسیح علیہ السلام . البتہ ان کا تصور ہمارے تصور سے مختلف ہے. انہوں نے حضرت مسیحؑ کو ابن اللہ قرار دے کر الوہیت کے مقام پر پہنچایا تو اُن کے شاگردوں کو باقاعدہ رسول بنا دیا. اس طرح انہوں نے ان کو ایک درجہ اونچا اٹھا دیا. ہمارا تصور یہ ہے کہ اللہ نے بھیجا اپنے رسول  کو. رسول اللہ نے اُمتیوں کو اسی کام کے لیے لوگوں کی طرف بھیجا کہ جاؤ لوگوں تک یہ دعوت پہنچاؤ‘ اس کی تبلیغ کرو. مثلاً آنحضور پر وحی نازل ہوتی تھی. دارِ ارقم میں آنجنابؐ کی مجلس میں چند صحابہ کرامؓ حاضر ہوتے تھے. وہ آنحضرتؐ سے نازل شدہ وحی سیکھتے اور مکہ میں ان لوگوں کو پہنچا دیتے جو ایمان لا چکے تھے‘ لیکن ہمہ وقت صحبت نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں حاضر نہیں رہ سکتے تھے. یہ اصحابِ رسولؐ گویا ایک طرح پیغامِ وحی پہنچانے کے لیے ’’پیغامبر‘‘ کا فریضہ انجام دیتے تھے اور اس طرح کارِ رسالت میں آنحضرت کے ’’رسول‘‘ تھے.

آپ کو معلوم ہوگا کہ ۱۱ نبوی میں بارہ اشخاص یثرب (مدینہ منورہ) سے آئے اور بیعت ِ عقبہ ٔ اولیٰ ہوئی. اس موقع پر ان حضراتؓ نے نبی اکرم سے درخواست کی کہ ہمیں کوئی ایسا شخص دیجیے جو ہمیں قرآن پڑھائے اور احکامِ اسلام سکھلائے. آنحضور نے اس خدمت کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مامور فرمایا. وہ اللہ کے رسولؐ کے فرستادہ یعنی ’’اللہ کے رسولؐ کے رسول‘‘ تھے. اس معنی میں ہر اُمتی اللہ کے رسول کا رسول ہے. ایرانی افواج کے سپہ سالار رستم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے جب ایران پر یلغار کا سبب معلوم کیا تھا تو اس کے جواب میں حضرت سعدؓ نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے:

اِنَّا قَدْ اُرْسِلْنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ ظُلُمَاتِ الْجَھَالَۃِ اِلٰی نُوْرِ الْاِیْمَانِ وَمِنْ جَوْرِ الْمُلُوْکِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَامِ
’’بلاشبہ ہم بھیجے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نورِ ایمان کی طرف اور بادشاہوں کے ظلم و ستم سے عدلِ اسلام کی طرف نکالیں‘‘.

اس میں لفظ ’’اُرْسِلْنَا‘‘ خاص طور پر قابل توجہ ہے. حضرت سعدؓ صاف بتا رہے ہیں کہ ’’ہم خود نہیں آئے بھیجے گئے ہیں‘‘ اور بھیجنے والے کون ہیں؟جناب محمدٌ رسول اللہ ! یہ لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر نورِ ایمان سے بہرہ مند کرنے اور ملوک و سلاطین کے پنجہ ٔجورو ستم سے نجات دلا کر اسلام کے نظامِ عدل و انصاف سے مستفید کرنے کے لیے بھیجے ہوئے لوگ ہیں. یہ ہیں رسول اللہ کے رسول‘ آنحضرت کے فرستادہ.یہ ہیں وہ نفوسِ قدسیہ جو سلوکِ محمدی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام کی ارفع اور بلند ترین منزلیں طے کرنے کی خاطر میدانِ قتال میں جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے تھے. 

خلافت راشدہ میں صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اسی کارِ رسالت محمد کی انجام دہی اور نبی اکرم کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے ایک ہاتھ میں قرآن مجید اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر نکلے تھے. وہ اس لیے نکلے تھے کہ حجۃ الوداع میں دین متین کی اہم تعلیمات کی تذکیر‘ حقوقِ انسانی کا ایک منشور اور ہدایاتِ ربّانی کا ایک خلاصہ پیش فرمانے کے بعد آنحضور نے کمالِ حکمت کے ساتھ شہادت علی الناس (۱اور دعوت و تبلیغ دین حق کی ذمہ داری اُمت کی طرف اس طرح منتقل فرما دی کہ خطبے کے آخر میں آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع سے دریافت فرمایا: اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ ’’لوگو! میں نے (خدا کا پیغام) تم تک پہنچا دیا کہ نہیں؟‘‘آنحضرت نے یہ بات تین مرتبہ دریافت فرمائی اور صحابہؓ نے تینوں مرتبہ جواب دیا:’’جی ہاں!‘‘ صحیح مسلم کی روایت میں صحابہ کرامؓ کا جواب ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ (۲’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے (خدا کا پیغام) پہنچا دیا‘ حقِ امانت اور حقِ نصح و (۱) تفصیل کے لیے ڈاکٹر صاحب کی تالیف مطالباتِ دین‘‘ کا مطالعہ مفید مطلب ہو گا.

(۲) صحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب حجۃ النبی  . خیر خواہی ادا فرمایا‘‘.اس کے بعد آنحضور نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور انگشتِ شہادت سے آسمان کی طرف اورپھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع کی طرف اشارہ کر کے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ’’اے اللہ تو بھی گواہ رہ!‘‘پھر دعوت و تبلیغ اور کارِ رسالت کی ذمہ داری اُمت کی طرف یہ ہدایت دے کر منتقل فرما دی کہ : فَلْیُـبَلِّـغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (۱’’پس اب جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ اُن تک پہنچائیں جو یہاں نہیں ہیں‘‘.