یہ ختم نبوت و رسالت کا لازمی نتیجہ ہے کہ اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اجتماعی طور پر کارِ رسالت کی انجام دہی پر مامور کی گئی ہے اور اُمت مرحومہ کا ہر فرد دعوت و تبلیغ‘ شہادت علی الناس اوراقامت دین کی جدوجہد کے لیے مامور ہے اور وہ رسول اللہ کا رسول ہے.آنحضور نے یہ فرما کر ہر اُمتی کے لیے کارِ رسالت کی انجام دہی میں آسانی پیدا فرما دی ہے کہ : بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً (۲’’پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت پہنچاؤ‘‘.شخصاً رسالت ختم ہو گئی‘ تاہم اُمت کی حیثیت سے اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام فریضۂ رسالت کی ادائیگی پر مامور ہو گئی. یہ ہے نبی اکرم کے امتی ہونے کے اعتبار سے ہماری ذمہ داری کا دوسرا رُخ. چنانچہ ہر اُمتی پر لازم ہے ‘ واجب ہے‘ فرض ہے کہ وہ دعوت و تبلیغ ‘ تلقین و نصیحت‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ شہادت علی الناس اور اقامتِ دین کے لیے اپنے جان و مال کو لگائے اور کھپائے. جس طرح رسول اللہ نے تیئیس سالہ مسلسل محنت شاقّہ اور جاں گسل مساعی کے نتیجے میں جزیرہ نمائے عرب کی حد تک اللہ کے دین کو عملاً قائم و نافذ کیا ویسے ہی اب اُمت کے ذمہ ہے کہ وہ پورے روئے زمین پر اللہ کے دین کو قائم و نافذ کرنے کی جدوجہد کرے . 

(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الحج‘ باب الخطبۃ ایام منی.

(۲) صحیح البخاری‘ کتاب احادیث الانبیاء‘ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل. یہ ہیں ازروئے قرآن ہمارے فرائضِ دینی. ہم جن فرائض (نماز‘روزہ‘ زکوٰۃ اور حج) سے واقف ہیں ‘وہ اسلام کے ارکان ہیں اور عبادت کے ہمہ گیر تصور کا جزوِ لاینفک ہیں‘ لیکن ہمیں تو پوری زندگی عبادتِ ربّ میں بسر کرنی ہے‘لہذا عبادتِ ربّ ہی کے تقاضے کے طور پر مذکورہ بالا تمام امور ہمارے دینی فرائض میں شامل ہیں.

ہمارا المیہ یہ ہے کہ فرائض دینی کا جو اصل اور حقیقی تصور ہے وہ بدل گیا ہے اور فرض عبادات (نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج) ہی کو کُل عبادت سمجھ لیا گیا ہے. اس طرح اصل اور بنیادی فرائض یعنی عبادتِ ربّ‘ شہادت علی الناس اور اقامت ِ دین کا تصور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہے. حالانکہ بات بالکل سیدھی ‘صاف اور آفتاب کی طرح روشن ہے کہ دین اصلاً اللہ کا ہے اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ اس کی دعوت و تبلیغ اور اس کو کُل جنس دین یعنی نظام ہائے اطاعت پر غالب کرنا لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہ اصلاً فرضِ منصبی ہے رسول اللہ کا. چنانچہ آپؐ کو حکم ہوا: قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ (المدّثّر) اب جو لوگ اللہ اور رسولؐ پر ایمان کے مدعی اور دعوے دار ہوں اُن کے خلوص و اخلاص کا اصل امتحان اور اصل کسوٹی یہ ہے کہ اگر اپنا تن من اس کام میں کھپا دیں اور اللہ اور رسولؐ دونوں کے مددگار ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیں یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ تو کامیاب و کامران‘ ورنہ خائب و خاسر اور ناکام و نامراد قرار پائیں گے. 

یہ ختم نبوت و رسالت کا ایک لازمی و لابدی تقاضا ہے کہ جو فرائضِ منصبی آنحضور کے تھے آپؐ کے بعد اب وہ سب کے سب آپؐ کی اُمت کے ذمے ہیں. گویا خواہ دعوت و تبلیغ‘ انذار و تبشیر‘ تعلیم و تربیت اور اصلاح و تزکیہ ہو جو بعثتِ انبیاء و رُسل کی غرضِ اصلی اور غایتِ اولیٰ رہی ہے‘ خواہ اعلاءِ کلمۃ اللہ‘ شہادت علی الناس‘ اقامت ِ دین اور اظہارِ دین الحق علی الدین کلہ ہو جو بعثت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا مقصد ِ امتیازی اور منتہائے خصوصی ہے‘یہ سارے فرائض اب ان لوگوں پر عائد ہوتے ہیں جو النبی الخاتم‘ رسولِ کامل و اکمل جناب محمد کے اُمتی ہونے کے مدعی ہیں اور جو آپؐ کے نامِ نامی اسمِ گرامی سے منسوب ہونے پر فخر کرتے اور آپؐ ‘کی اُمت میں ہونے کو موجب سعادت سمجھتے ہیں. اس لیے کہ آنحضور آخری نبی و رسول ہیں اور آپؐ دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں. ایک اپنے زمانے کے اہل عرب کی جانب اور دوسری تاقیامِ قیامت پوری نوعِ انسانی کی جانب. (۱ازروئے آیاتِ قرآنی : ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ (الجمعۃ:۲وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (سبا:۲۸اور وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ (الانبیائ) نبی و رسولِ آخر الزمان کا مشن زندہ ہے‘ تابندہ ہے اور تاقیامِ قیامت زندہ رہے گا. اب حضورؐ کے ہر اُمتی کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ کارِ رسالت کے اس تسلسل کو جاری و ساری رکھے اور اس راہ میں اپنی جان‘ اپنا مال اور اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں کو کھپا دینے کو اپنا فرضِ عین سمجھے اور اس کو اپنے لیے سعادت متصور کرے. ؎

وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے!