صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس جماعت نے دعوت الی اللہ‘ اعلائے کلمۃ اللہ‘ شہادت علی الناس اور اظہارِ دین کے لیے شدائد و مصائب‘ کشمکش و تصادم‘ سعی و محنت اور جہاد و قتال میں جان نثاری اور صبر و مصابرت اور استقامت کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جن کی نظیر تاریخِ انسانی آج تک پیش نہیں کر سکی اور نہ آئندہ پیش کر سکے گی. وہ خاک و خون میں لوٹے ہیں اور انہوں نے نقد ِ جاں کا نذرانہ اللہ کی راہ میں پیش کیا ہے تو اللہ کا دین غالب اور قائم و نافذ ہوا ہے. ایسے ہی جان نثاروں کے لیے یہ نوید جانفزا دی گئی ہے : اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ (الصّف)
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
غور کیجیے کہ بالفرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آنحضورﷺ کی دعوت الی اللہ پر لبیک نہ کہتے‘ آپؐ کے دست مبارک پر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جان نثاری اور سرفروشی کی بیعت نہ کرتے‘ استقامت اور صبر و مصابرت کا عملی مظاہرہ نہ کرتے‘ سمع و طاعت کو اپنا شعار نہ بناتے اور ہجرت و جہاد کو اپنے لیے دنیا و آخرت کی سعادت اور فوز و فلاح ہونے کا یقین نہ رکھتے تو کیا اس عالمِ اسباب میں وہ نتائج برآمد ہوتے جو عہد ِ نبوت اور عہد ِ خلافت راشدہ میں نکلے اور اس دنیا میں وہ صالح معاشرہ وجود میں آتا جو ہر لحاظ سے نوعِ انسانی کے لیے جنت ارضی ثابت ہوا؟