آگے چلیے اور سیرتِ مطہرہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال لیجیے. اس عالمِ اسباب اور عالمِ علت و معلول میں جزیرہ نمائے عرب کے اندر اللہ کا دین بتمام و کمال قائم و نافذ ہوا ہے تو آنحضور کے شانہ بشانہ اُن صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی جانفشانیوں‘ سرفروشیوں‘ قربانیوں‘ جدوجہد اور جہاد و قتال کے نتیجے میں ہوا ہے جو اللہ پر‘ اُس کے رسول پر اور یومِ آخرت پر پختہ ایمان و ایقان رکھتے تھے اور جو اس کسوٹی پر کھرے ثابت ہوئے تھے جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ میں بیان فرمائی ہے: 

وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ
’’اور تاکہ اللہ دیکھ لے کہ کون مدد کرتا ہے اس کی اور اس کے رسولوں کی غیب میں رہتے ہوئے.‘‘

آنحضور پر ایمان لانے والے جان نثاروں کی جو جماعت اور تنظیم قائم ہوئی تھی اس کی مدح اللہ تعالیٰ سورۃ الفتح میں ان الفاظِ مبارکہ سے فرماتا ہے:

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۲۹

’’محمد( ) اللہ کے رسول ہیں ‘اور جو لوگ اُنؐ کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں. تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی طلب میں مشغول پاؤ گے. سجدوں کے اثرات اور نشانات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں. یہ ہے ان کی صفت تورات میں‘ اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتیہے جس نے پہلے کونپل نکالی‘ پھر اس کو تقویت دی‘ پھر وہ گدرائی‘ پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی‘ کاشت کرنے والوں کو وہ بھلی لگتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں. ان میں سے ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں سے اللہ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے.‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس جماعت نے دعوت الی اللہ‘ اعلائے کلمۃ اللہ‘ شہادت علی الناس اور اظہارِ دین کے لیے شدائد و مصائب‘ کشمکش و تصادم‘ سعی و محنت اور جہاد و قتال میں جان نثاری اور صبر و مصابرت اور استقامت کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جن کی نظیر تاریخِ انسانی آج تک پیش نہیں کر سکی اور نہ آئندہ پیش کر سکے گی. وہ خاک و خون میں لوٹے ہیں اور انہوں نے نقد ِ جاں کا نذرانہ اللہ کی راہ میں پیش کیا ہے تو اللہ کا دین غالب اور قائم و نافذ ہوا ہے. ایسے ہی جان نثاروں کے لیے یہ نوید جانفزا دی گئی ہے : 
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ (الصّف) 

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را 

غور کیجیے کہ بالفرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آنحضور کی دعوت الی اللہ پر لبیک نہ کہتے‘ آپؐ کے دست مبارک پر اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جان نثاری اور سرفروشی کی بیعت نہ کرتے‘ استقامت اور صبر و مصابرت کا عملی مظاہرہ نہ کرتے‘ سمع و طاعت کو اپنا شعار نہ بناتے اور ہجرت و جہاد کو اپنے لیے دنیا و آخرت کی سعادت اور فوز و فلاح ہونے کا یقین نہ رکھتے تو کیا اس عالمِ اسباب میں وہ نتائج برآمد ہوتے جو عہد ِ نبوت اور عہد ِ خلافت راشدہ میں نکلے اور اس دنیا میں وہ صالح معاشرہ وجود میں آتا جو ہر لحاظ سے نوعِ انسانی کے لیے جنت ارضی ثابت ہوا؟