مذکورہ بالا دو نظیروں کے بعد مزید کسی عقلی دلیل کی ضرورت نہیں ہے. معلوم ہوا 
کہ عبادتِ ربّ‘ شہادت علی الناس اور اقامت ِ دین کے لیے التزامِ جماعت ناگزیر اور لابُدّمنہ ہے. لیکن اس پر مستزاد رسول اللہ نے التزامِ جماعت کا حکم بھی فرمایا ہے. حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ : بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (۱)
’’(مسلمانو!) میں تم کو پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں‘اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے: (۱) جماعت کا (۲) سننے کا(۳) ماننے کا (۴) ہجرت کا (۵) اللہ کے راستے میں جہاد کا‘‘.

چنانچہ یہ سنت رسول بھی ہے اور اس کا حکم بھی دیا گیا ہے. یہ تقرب بالفرائض کا لازمی حصہ ہے . رسول اللہ اُمت کو ان پانچ باتوں کا حکم دے رہے ہیں‘ لیکن ہمارا تصور دین اتنا بدل گیا ہے کہ یہ پانچ باتیں لاکھ میں سے ایک کو بھی یاد نہیں ہوں گی‘ بلکہ یہ اکثر علماء کو بھی یاد نہیں ہیں. مجھے اس حدیث کی سند درکار تھی تو میں نے ایک بہت بڑے عالمِ دین سے رجوع کیا اور ان کو یہ حدیث سنا کر سند معلوم کرنی چاہی. فرمانے لگے : ’’الفاظ غیر مانوس سے ہیں‘‘‘حالانکہ یہ روایت مشکوٰۃ میں موجود ہے اور مشکوٰۃ تو گویاعلمِ حدیث کا قاعدہ ہے جو ہر دارالعلوم کے نصاب میں لازماً شامل ہوتی ہے. یہ حدیث مشکوٰۃ میں مسند احمد اور ترمذی کے حوالے سے روایت کی گئی ہے. 

رسول اللہ نے پہلی بات یہ فرمائی: بِالْجَمَاعَۃِ ’’ـجماعت کی زندگی اختیار کرو‘‘. اور جماعت کیسی؟ چار آنے کی ممبری والی جماعت نہیں. کوئی محض جزوی سے تعاون کی طلب گار جماعت نہیں. بلکہ جو جماعتی زندگی اختیار کر لینے کا حکم دیا جا رہا ہے اس میں دو باتیں لازمی ہیں: وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ جس میں ڈسپلن ہو‘ نظم ہو کہ ’’سنو اور اطاعت کرو‘‘. 

(۱) مسند احمد‘ مسند الشامین‘ ح۱۶۷۱۸ و ۱۷۳۴۴ و باقی مسند الانصار‘ ح ۲۲۴۰۳. وسنن الترمذی‘ ابواب الامثال عن رسول اللہ ‘ باب ما جاء فی مثل الصلاۃ والصیام الصدقۃ. مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب الامارۃ والقضاء‘ الفصل الثانی.