ہجرت اور جہاد کا وسیع تر مفہوم

اس جماعت کا کام کیا ہو گا؟ جماعت مقصود بالذات تو نہیں ہے. اس جماعت کو جو کام کرنا ہے اس کے دو حصے ہیں. ایک وَالْھِجْرَۃِ اور دوسرا وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ. ہجرت کا وسیع تر مفہوم ہے ہر اُس چیز سے کٹ جاؤ جس سے کٹنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ہر وہ کام کرو جس کے کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے. نبی اکرم سے پوچھا گیا:

اَیُّ الْھِجْرَۃِ اَفْضَلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟

’’کون سی ہجرت افضل ہے اے اللہ کے رسول؟‘‘
آنحضور نے فرمایا:

اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ عَزَّوَجَلَّ (۱

’’یہ کہ تو ہر اُس چیز کو چھوڑ دے جو تیرے ربّ عزیز و جلیل کو پسند نہیں‘‘.
یہ ہے ہجرت اور جہاد کا نقطۂ آغاز کون سا ہے!
یاد کیجیے کہ میں نے اوّلین‘ مقدم ترین فرض بیان کیا تھا ’’عبادتِ ربّ‘‘. یہ ہے وہ تنا جس سے فرائض کی تمام شاخیں پھوٹتی ہیں. اس فرض کی بجاآوری کے لیے سب سے پہلے اپنے نفس سے کشمکش کرنی پڑتی ہے. ایک حدیث میں نفس کے خلاف جہاد کو ’’افضل الجہاد‘‘ قرار دیا گیا ہے. حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اَفْضَلُ الْجِھَادِ اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی (۲

’’افضل جہاد یہ ہے کہ تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کا مطیع بنانے کے لیے ان کے خلاف جہاد کرو‘‘.

دراصل سب فرائضِ دینی ایک وحدت ہیں. اس شجرۂ طیّبہ کی جڑ ہے ایمان اور اس کا تنا ہے عبادتِ ربّ. بات ایک ہی ہے خواہ کسی حوالے سے سمجھ لی جائے. اتباعِ (۱) سنن النسائی‘ کتاب البیعۃ‘ باب ھجرۃ البادی.

(۲) سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی : ۱۴۹۶. رواہ ابونعیم فی ’’الحلیۃ‘‘ (۲؍۲۴۹) والدیلمی (۱؍۱؍۱۲۸). کنز العمال ۴؍۲۶۹ سنت کے حوالے سے سمجھ لی جائے ‘یا تقرب الی اللہ کے حوالے سے ‘ یا اس حوالے سے سمجھ لی جائے کہ ازروئے قرآن حکیم دینی فرائض کا تصور کیا ہے!