اس پر مستزاد ہم پاکستانیوں کا معاملہ یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہی نہیں ہے دُنیا بھی ہے. ہم تو ’’ناچار مسلمان شو‘‘ پر مجبور بھی ہیں. اچھی طرح جان لیجیے کہ ہمارا دنیا میں ’’دین‘‘ کے قیام و نفاذ کے بغیر کوئی ٹھکانہ نہیں. دین کے نفاذ سے اعراض و اغماض کی سزا کے طور پر ہمارا ملک دولخت ہوا. اب پھر دین سے بے اعتنائی‘ لاتعلقی بلکہ اس کے خلاف افعال و اعمال کی پاداش میں موجودہ پاکستان بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے. اس کے خلاف عالمی سطح پر سازشیں ہو رہی ہیں.بہرحال ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ اس سلسلہ میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں! 

یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے اولیاء کے ضمن میں معاملہ بڑا مختلف ہے. اگر یہاں صحیح معنی میں چند لوگ گفتار و کردار کے لحاظ سے اللہ کے ولی بن جائیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کی وجہ سے اس ملک کی کشتی بھنور سے نکل سکے اور بیڑا پار لگ سکے. وہ بات غلط نہیں ہے جو فارسی کے اس شعر میں کہی گئی ہے ؎

تا دلِ صاحب دلے نامد بہ درد
ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد!

اللہ تعالیٰ کو اپنے اولیاء اتنے محبوب ہوتے ہیں کہ بعض اوقات کسی ایک ولی کا دکھ بھی اسے گوارا نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ اس کا اتنا کچھ تعلق ہوتا ہے کہ پوری پوری قوموں کے فیصلے اس کے حوالے سے ہو جاتے ہیں. پاکستان میں اقامت دین کی جدوجہد کا راستہ یہی ہے کہ ایک تنظیم اور جماعت ہو جو خود بھی عبادت ربّ کی راہ پر گامزن ہونے کی مخلصانہ کوشش کرے اور لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دے. اس کے سوا کوئی اور چارئہ کار نہیں ہے. انفرادی طو رپر ایمان کی اساسات جیسے جیسے محکم ہوں گی اور سیرت و کردار کی تعمیر شروع ہو گی ‘اخلاق بدلیں گے‘ معاملات درست ہوں گے‘ گھر کے ماحول میں صبغۃ اللہ غالب ہو گا اور جیسے جیسے خلقِ خدا کو دعوتِ عبادتِ ربّ دی جائے گی ویسے ویسے یہ تبدیلی اور دعوت معاشرے پر اثر انداز ہوتی چلی جائے گی اور اس طرح ان شاء اللہ اصلاحِ معاشرہ کا یہ عمل اسلام کو اس ملک میں مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے میں ممدو معاون ہو گا.