اہل ایمان کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل

آغازِ خطاب میں سورۂ آل عمران کی تین آیات (۱۰۲ تا ۱۰۴) کی تلاوت کی گئی تھی. ان آیات میں دعوتِ عبادتِ ربّ ایک دوسرے اسلوب سے دی گئی ہے اور مسلمانوں کو ان کے فرائض کی بجاآوری کے ضمن میں ایک سہ نکاتی لائحہ عمل دیا گیا ہے. 

i) تقویٰ کی تاکید :

پہلی آیت میں ایک مسلمان کے انفرادی فرائض کو emphasize کیا گیا ہے.سب سے پہلے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دی گئی فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ 
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کا تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے‘‘.

ہمارے دین کی اصطلاحات میں ’’تقویٰ‘‘ انتہائی جامع اصطلاح ہے. اجمالاً یہ سمجھ لیجیے کہ تقویٰ عبادتِ ربّ کے اس طرزِ عمل کی تشریح ہے کہ ایک بندۂ مؤمن اللہ کی ناراضگی اور اس کی سزا کے خوف اور اس کے انعام‘ نگاہِ کرم اور نظر ترحم کے شوق سے نافرمانی و معصیت کے ہر عمل سے بچتا ہوا دین کے تقاضوں اور مطالبوں کو ادا کرنے کی فکرکرے.
آیت کا اگلا حصہ اسی تقویٰ کی زندگی کی شرح ہے:

وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲
’’اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم اللہ کے فرمانبردار ہو‘‘.

یعنی زندگی کا کوئی لمحہ بھی شعوری طور پر اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی میں نہ گزرے‘ مبادا اسی حال میں تم کو موت آ دبوچے کہ تم معصیت کا ارتکاب کر رہے ہو. لہذا دعوتِ بندگی ٔ ربّ کا پہلا نکتہ ہو گا اسی تقویٰ کی دعوت‘ تطہیر افکار و اعمال کی دعوت‘ اخلاق و معاملات کی درستگی کی دعوت‘ تمام معاصی سے اجتناب کی دعوت اور مسلمان کی حیثیت سے جینے اور مرنے کی دعوت. 

ii) اعتصام بحبل اللہ :

اگلی آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ افرادِ اُمت کو باہم جوڑنے اور انہیں ایک اُمت بنانے والی شے اور ان کے مابین ذہنی و فکری ہم آہنگی پیدا کرنے والی شے کون سی ہے!فرمایا: 

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪
’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘.

اللہ کی رسّی سے مراد ’’قرآن مجید‘‘ ہے (۱.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں قرآن مجید کے بارے میں نبی اکرم کے الفاظ نقل ہوئے ہیں : ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ’’یہی اللہ کی مضبوط رسّی ہے‘‘. چنانچہ یہ کتابِ الٰہی وحدتِ اُمت کی اوّلین اور مضبوط ترین بنیاد ہے. یہی اَلْعُرْوَۃُ الْوُثْقٰی ہے اور اسی کا وصف لَاانْفِصَامَ لَھَا ہے. اسی کو مضبوطی سے تھامنے اور تفرقے سے بچنے کا آیت کے اس حصے میں حکم دیا گیا ہے.

اُمت کے اتحاد اور وحدت کو پارہ پارہ کرنے والا عمل تفرقہ ہے. اختلاف اور تفرقے میں بڑا فرق ہے. اختلاف دین کے دائرے میں رہے تو کوئی مضائقہ نہیں‘ لیکن رائے‘ قیاس اور تعبیر کے اختلافات کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ باقاعدہ فرقے بنا لینا دینی نقطۂ نظر سے بالکل غلط اور تباہ کن ہے. غور کیجیے کہ ان اختلافات کی نوعیت ہے کیا؟ کوئی رفع یدین کرنے کا قائل ہے کوئی نہیں کرتا‘ کوئی آمین زور سے کہتا ہے کوئی آہستہ ‘ کوئی امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا قائل ہے کوئی نہیں. یہ فروعی اختلافات 

(۱) اس موضوع پر ڈاکٹر صاحب موصوف کی معرکۃ الآراء تالیف ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ کا مطالعہ ان شاء اللہ مفید مطلب ہو گا. (مرتب) ہیں اور ان سے کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا. ان تمام مسالک کے حق میں احادیث بھی موجود ہیں اور آثارِ صحابہؓ ‘بھی . لیکن اب ان مسائل کی تائید یا تردید پر تمام توجہات مرکوز کرنا آخر کون سی دین کی خدمت ہے؟ جبکہ حال یہ ہے کہ ہماری نوے فیصد آبادی دین سے دُور جا چکی ہے اور سرے سے نماز کی ادائیگی ہی سے غافل ہے. یہ تفرقہ بازی اُمت کے لیے کتنی ہلاکت خیز ثابت ہو رہی ہے اس کا اندازہ ہر حساس شخص خود کر سکتا ہے. اس تفرقہ بازی کا علاج بھی اللہ تعالیٰ نے ’’اعتصام بالقرآن‘‘ قرار دیا ہے کہ ’’اللہ کی رسّی (یعنی قرآن حکیم) کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ میں مت پڑو!‘‘

اس آیت کے اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت اور احسان کا ذکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید اور ایمان و اسلام نے اُن قبیلوں کو باہمی شیر و شکر اور بھائی بھائی بنا دیا جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے‘ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاکت اور تباہی سے بچا لیا. فرمایا:

وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ’’اور (اے مسلمانو!) یاد کرو اپنے اوپر اللہ کا یہ احسان جب تم آپس میں دشمن تھے‘ پھر اُس نے تمہارے دلوں میں باہم محبت پیدا کر دی‘ پس اللہ کے انعام و اکرام سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے. اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے تک جا پہنچے تھے‘ پس اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا‘‘.

قرآن حکیم کا ایک عظیم ترین اعجاز یہ بھی ہے کہ اس کے وقتی احکام اور تبصروں میں ابد الآباد تک کے لیے ہدایات موجود ہوتی ہیں.

غور کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظِ مبارکہ ہمارے ہی لیے نازل کیے گئے ہیں اور ان میں ہمارے لیے پوری رہنمائی موجود ہے. ہم فی الواقع تفرقے اور انتشار کے تباہ کن اور ہلاکت خیز گڑھے کے کنارے کھڑے ہیں اور تباہی و بربادی کے اس گڑھے میں گرا ہی چاہتے ہیں. ہم اس سے بچائے جا سکتے ہیں اور ہم پر اللہ کی اس 
نعمت کا فیضان ہو سکتا ہے کہ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے سے الفت‘ مودّت اور اخوت پیدا ہو جائے. لیکن اس کی شرائط ہم کو پوری کرنی ہوں گی اور وہ یہ کہ ہم واقعی بندۂ ربّ بنیں. تقویٰ‘ اسلام اور اعتصام بالقرآن کو اپنا لائحہ عمل اور مقصود و مطلوب بنا لیں اور آخرت میں اللہ کی رضا کا حصول ہمارا نصب العین بن جائے. ہم تفرقے سے بچیں اور متقی مسلمانوں کی طرح انفرادی و اجتماعی زندگی بسر کرنے کی اخلاص کے ساتھ پوری کوشش کریں. اس آیت مبارکہ کے آخر میں فرمایا:

کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾ 
’’اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں واضح کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا سکو.‘‘

ان نشانیوں سے تمہیں ہدایت کا سیدھا راستہ نظرآ جائے اور تم اس پر گامزن ہو جاؤ . ان دونوں آیتوں کے بین السطور میں یہ ہدایت موجود ہے کہ اصلاحِ حال کے لیے اس ملک میں وسیع پیمانے پر عبادتِ ربّ ‘ تجدید ایمان‘ تقویٰ و اسلام‘ توبہ و انابت اور اصلاحِ افکار و اعمال کی ایک زوردار دعوت اٹھے‘ جس کے داعی خود بھی حقیقی طور پر بندۂ ربّ بننے کی سعی و کوشش کریں‘ اپنے غلط و غیر اسلامی ماحول سے کشمکش کریں اور لوگوں کو بھی دعوت دیں کہ اللہ کے بندو! ہوش میں آؤ ‘ کہاں جا رہے ہو؟ تم مدہوش ہو‘ خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہو. تمہیں اپنے ذاتی مفادات کی فکر ہے‘ فروعی اور جزوی مسائل میں الجھ کر تم ایک دوسرے سے دست بگریباں ہو‘ جبکہ حال یہ ہے کہ وہ پورا جہاز ہچکولے کھا رہا ہے جس میں ہم سب سوار ہیں. تم کو اس جہاز کی سلامتی کی فکر کرنی چاہیے. یہ ہیں ان لوگوں کے کرنے کے کام جن کو اپنے ان دینی فرائض کی ادائیگی کا احساس ہو جائے.

iii) لزومِ جماعت کی تاکید اور اس کے لیے سہ نکاتی پروگرام:

اگلی آیت میں ایسی داعی جماعت کے لزوم کی تاکید فرما کر اس جماعت کے لیے سہ نکاتی پروگرام پیش فرما دیا گیا ہے: 

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ 
الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴
’’اور تم میں ایک جماعت تو ایسی ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو خیر اور نیکی کی طرف بلانے والی ہو‘ جو بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے ‘اور یہی لوگ (جو جماعتی طو رپر دعوت کا یہ کام کریں گے) فلاح پائیں گے.‘‘

غور کیجیے‘ اس آیت مبارکہ میں حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جس کا مقصدِ وجود صرف دعوت الی الخیر‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہو. اس دنیا میں اس جماعت کو نہ تو کسی بدلے اور اجر کی خواہش ہو اور نہ ہی دنیا کا کوئی مفاد اور کوئی غرض اس دعوتی کام سے وابستہ ہو. اس جماعت کے وابستگان صرف یہی تین کام کریں جو اس آیت مبارکہ میں بیان کیے گئے ہیں. ان کے سوا کسی چوتھے کام کے خیال کو وہ اپنے ذہن میں گزرنے بھی نہ دیں. وہ علیٰ رؤس الاشہاد اعلان کر دیں کہ ہمارا انتخابی سیاست سے کوئی تعلق و سروکار نہیں ہو گا. جو لوگ یک سو ہو کر ہمہ تن دعوت الی الخیر‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سہ نکاتی پروگرام میں مصروف ہو جائیں گے ان ہی کے لیے یہ بشارت اور نوید جانفزا ہے کہ یہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے.