میں نے عرض کیا تھا کہ وہ جماعت یا تنظیم جو دعوت الی الخیر کے لیے وجود میں آئے اسے انتخابی سیاست سے بالکلیہ علیحدہ رہنا چاہیے. اس کی حکمت بھی سمجھ لیجیے. انتخابی سیاست کا میدان حصولِ اقتدار اور سیادت و قیادت کی جنگ کا میدان ہے. یہ تحزب‘ تعصّب اور حریفانہ طرزِ عمل کی راہ ہے. یہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا راستہ ہے. ا س راہ میں دلوں میں کدورتیں اور تلخیاں بڑھتی ہیں‘ مخالفتیں اور دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں. اس راہ میں ’’ووٹروں‘‘ کی خوشنودی مطلوب ہوتی ہے‘ اس لیے ان کے غلط اور غیر اسلامی افکار و اعمال اور معاملات پر مداہنت اختیار کرنی پڑتی ہے. اس میدان میں ہر پارٹی دوسری پارٹیوں اور اُن کے قائدین کو طعن و تشنیع اور استہزاء و تمسخر کا ہدف بناتی ہے جس کے باعث آپس میں نفرتیں بڑھتی ہیں. جبکہ دعوت الی الخیر اصلاح اور نصح و خیر خواہی کی راہ ہے‘ دلوں کو جیتنے اور باہمی الفت و مودّت اور اخوت پیدا کرنے کی راہ ہے.

یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ دین میں سیاست کوئی شجرِ ممنوعہ ہے یا ہمارے دین کے دائرے سے باہر کی کوئی چیز ہے. واقعہ یہ ہے کہ ہمارے دین میں سیاست بھی ہے‘ حکومت کے معاملات بھی ہیں. ہمارا دین انسانی زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتا ہے‘ چاہے وہ انفرادی زندگی سے متعلق ہوں یا اجتماعی زندگی سے. ارشادِ الٰہی ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (البقرۃ:۲۰۸)

’’اے اہل ایمان! اسلام (نظامِ فرمانبرداری) میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ.‘‘
’’سیاست‘‘ کا لفظ بڑے قابل احترام انداز میں حدیث شریف میں آیا ہے.نبی 
اکرم نے فرمایا:

کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِ یْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ (۱)
’’بنی اسرائیل کا معاملہ یہ تھا کہ اُن کی سیاست انبیاء کے ہاتھ میں رہتی تھی‘‘.

علامہ اقبال نے دین اور سیاست کا تعلق اس طرح بیان کیا ہے : ؏ 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!

چنانچہ دعوت الی الخیر میں سیاسی نظام کی تبدیلی بھی شامل ہے. یہ اظہار دین الحق علی الدین کلہٖ کی اعلیٰ و ارفع منزل ہے. یہ دنیا میں عبادتِ ربّ کا مظہرِ اتم ہے. لیکن انتخابی سیاست‘ جس کی بنیا دحریفانہ انداز سے حصولِ اقتدار ہوتی ہے‘ ہمیں اس طور کی سیاست میں کسی حال میں شریک نہیں ہونا. ہماری منزل اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور غلبۂ دین حق ہے ‘اور میرے نزدیک یہ خواب اُمت مسلمہ میں تجدید ایمان‘ توبہ اور تجدید عہد کی عمومی تحریک کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا. لہذا اسلامی انقلاب کا پہلا اور مقدم مرحلہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت و کردار ہے جس کی اصل اساس ایمان ہے اور اس ایمان و یقین کا منبع و سرچشمہ قرآن حکیم ہے.