اَ لصَّوْمُ لِیْ

جملہ عباداتِ اسلامی …صلوٰۃ وزکوٰۃ اورصوم و حج… میں سے عبادتِ صوم کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے بارے میں متعدد روایات کی رُوسے، جن میں بخاری اور مسلم کی متفق علیہ روایت بھی شامل ہے، ایک حدیثِ قدسی میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ:

اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ
روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا

جنہیں بعض لوگوں نے اعراب کے ذرا سے فرق کے ساتھ یوں بھی پڑھا ہے کہ:

اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اُجْزٰی بِہٖ
روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزاہوں!

یہاں فطری طورپر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نماز خدا کے لیے نہیں؟ اسی طرح کیا زکوٰۃ اور حج اللہ کے سواکسی اور کے لیے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ ان سوالوں کا جواب صرف نفی ہی میں دیا جاسکتا ہے . قرآنِ حکیم کے واضح ارشادات ہیں:

۱وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ:۱۴)
اورقائم کر نماز میری یاد کے لیے!

۲ . حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْالِلّٰہٖ قَانِتِینَ. (البقرۃ: ۲۳۸
محافظت کرونمازوں کی .اور خاص طور پر نماز وسطیٰ کی اور کھڑے رہو اللہ کے لیے پوری فرمانبرداری کے ساتھ!

۳وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ
اور لوگوں کے ذمّے ہے اللہ کے لی ے َ منِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (اٰل عمران: ۹۷)
حج بیت اللہ. جوکوئی بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی

۴وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ (البقرۃ : ۱۹۶)
اور پوراکرو حج اور عمرے کو اللہ کے لیے

۵اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا ﴿۹﴾ (الدھر: ۹
ہم کھانا کھلاتے ہیں تمیں صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے ، اور تم سے طالب ہیں نہ کسی جزا کے نہ شکریے کے!

اس اشکال کاایک سطحی ساحل بعض حضرات نے اس طرح کرنے کی کوشش کی ہے کہ روزے میں ریا ممکن نہیں ہے جب کہ بقیہ تمام عبادتوں میں ریاء کا امکان ہے، اس لیے کہ روزے کی کوئی ظاہری صورت نہیں ہے جو لوگوں کو نظر آسکے بلکہ وہ ایک راز ہے عبد اور معبود کے مابین. ظاہر ہے کہ یہ بالکل بے بنیاد ہے اس لیے کہ نماز میں ریاء یہی تو ہے کہ پڑھے تو انسان نماز ہی لیکن خالصتہً لوِجہِ اللہ نہ پڑھے بلکہ اس میں لوگوں کو دکھانے کی نیت شامل ہو جائے بعینہٖ یہی معاملہ روزے کے ساتھ بھی ممکن ہے …رہی دوسری انتہائی صورت کہ انسان روزے سے نہ ہو اور لوگوں سے کہے کہ میں روزہ سے ہوں تو یہ ریاء نہیں دھوکا اور فریب ہے اور اسے مقابل کی صورت نماز کے معاملے میں یہ ہوگی کہ کوئی ظاہراً تو نماز کیلیے دست بستہ کھڑا ہوجائے لیکن بجائے سورۃ فاتحہ کے کوئی عثقیہ اشعارشروع کردے. یا نعوذ باللہ من ذالک، خداتعالیٰ اور رسولؐ کو گالیاں دینا شروع کر دے!… پھر ایک نصِّ قطعی کے طور پر موجود ہے وہ حدیث بھی جس کی رُو سے آنحضور نے فرمایا ہے کہ:

مَنْ صَلّٰی یُرَائِی فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَائِی فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِی فَقَدْ اَشْرَکَ (رواہُ احمد، مشکوۃ باب الریاء والسمّعہ) جس نے نماز پڑھی دکھاوے کیلیے وہ شرک کر چکا ، اور جس نے روزہ رکھا دکھاوے کے لیے وہ شرک کر چکا اور جس نے خیرات دی دکھاوے کی غرض سے وہ بھی شرک میں ملوث ہو چکا!

اس حدیث ِ قُدسی کا یہی وہ اشکال ہے جس کے باعث یہ عام و اعظین کے مواعظ میں تو بیان ہو جاتی ہے لیکن اسلام کے جدید’مفکرین‘ کی تحریر و تقریر میں بار نہیں پاتی . اس لیے کہ واقعہ یہی ہے کہ دین کے بہت سے دوسرے لطیف تر حقائق جیسے عہدِ اَلَست، وَحی، الہام ، کشف اور رُویائے صادقہ وغیرہ کی طرح اس حدیثِ قُدسی کی حقیقت بھی ان لوگوں پر منکشف نہیں ہوسکتی جو دَورِ حاضر کے مادّہ پرستانہ اور عقلیّت پسندانہ رُجحانات کے زیرِ اثر رُوحِ انسانی کے جسدِ خاکی سے علیٰحدہ مستقل وجود اور جُداگانہ تشخص اور اس کے ذاتِ باری کے ساتھ خصوصی ربط و تعلق کے یاتو سرے سے قائل ہی نہیں ہیں یا کسی درجے میں ہیں بھی تو اُس کے اعتراف و اعلان میں جھجک اور حجاب محسوس کرتے ہیں ! بقول اکبرؔ الٰہ آبادی :

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتاہے خدا کا اس زمانے میں

اس لیے کہ اس حدیث ِ قُدسی کی واحدممکن توجیہہ یہ ہے کہ روزہ روح کے تغذیہ و تقویت کا ذریعہ ہے جسے ایک تعلق خاص اور نسبت خصوصی حاصل ہے ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ لہذا یہ گویا خاص اللہ کے لیے ہے جس کی جزاوہ بطورِ خاص دے گا.یایوں کہہ لیں کہ چونکہ اس کا حاصل ہے تقرب الی اللہ تو گویا اللہ خود ہی بنفس نفیس اس کی جزا ہے.
واقعہ یہ ہے کہ ’ارواحِ انسانی ‘ کا ایجاد و اِبداع ’اجساد‘ کی تخلیق سے بہت پہلے ’’جُنُوْدٌمُّجَنَّدَۃ‘‘ (مُسلم عن ابی ہُریرہ ؓ ) کی صورت میں ہوااور حضرت آدم علیہ السلام کی عالمِ اجساد میں تخلیق سے بہت قبل خود ان کی اور ان سے لے کر تا قیام قیامت پیدا ہونے والے تمام انسانوں کی ارواح مستقل جداگانہ تشخص اور پورے شعورِ ذات اور فیما بین جُملہ امتیازات کے ساتھ موجود تھیں. ا س حقیقت کے اوراک و شعور کے بغیر ، واقعہ یہ ہے کہ عہدِ اَلَست کا وہ اہم واقعہ جسے قرآن مجید نے بڑے اہتمام اور شدو مد کے ساتھ بیان کیا ہے اور جسے محاسبہ اخروی کے ضمن میں ایک اہم حجت قرار دیا ہے یا تو محض تمثیل و استعار قرار پاتا ہے یا پھر اس کے بارے میں اچھے اچھے مصنفین کے قلم سے بھی نادانستہ انتہائی لغو اور مہمل جملے نکل جاتے ہیں. (۱سیدھی سی بات یہ ہے کہ یہ عہد اجسادِ انسانی کی تخلیق سے قبل عالم ارواح میں ارواح انسانی نے پورے ہوش اور شعور کے ساتھ کیا اور میدانِ حشر میں جب تمام نسل ِ انسانی دوبارہ (۲’’جُنُوْدٌمُّجَنَّدَۃ‘‘ کی صورت میں اپنے خالق کے سامنے پیش ہوگی تو یہی عہدِ اَلَست ان کے خلاف حجت اولیٰ کے طور پر پیش ہوگا! (’’مبادا تم کہنے لگو قیامت کے دن کہ ہم کو اس کی خبر ہی نہ تھی یا یوں کہنے لگو کہ اصل میں تو شرک کا ارتکاب کیا تھا ہم سے بہت پہلے ہمارے آباء و اَجداد نے اور ہم تو بعد میں ان کی نسل میں پیدا ہوئے تھے!‘‘سورۂ اعراف آیات۷۲ا،۱۷۳)
اسی طرح اس حقیقت کو جانے اور مانے بغیر کوئی توجیہہ ممکن نہیں ان متعدد احادیث کی جن سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم نہ صرف یہ کہ خلق کے اعتبار سے سب پر مقدم ہیں بلکہ آپ اس وقت بھی نبی تھے جبکہ ابھی جسد آدمؑ تخلیق و تسویہ کے مراحل سے گزر رہا تھا.اس سلسلے میں اس روایت سے قطع نظر جس میں ’’اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللہُ نُوْرِیْ‘‘

(۱) مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں:’’یہ اقرار انسان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی عالم غیب میں خدا نے اس سے لیا ہے‘‘.(تدبر قرآن جلد سوم صفحہ ۳۹۴)

(۲) وَ عُرِضُوۡا عَلٰی رَبِّکَ صَفًّا ؕ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا کَمَا خَلَقۡنٰکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍۭ ۫ بَلۡ زَعَمۡتُمۡ اَلَّنۡ نَّجۡعَلَ لَکُمۡ مَّوۡعِدًا ﴿۴۸﴾ (الکہف: ۴۸)
’’اور پیش کئے جائیں گے اپنے ربّ کے سامنے صف در صف (تب وہ فرمائے گا کہ) آپہنچے ہو تم ہمارے پاس بالکل اسی طرح جس طرح ہم نے پیدا فرمایا تھا تمہیں پہلی بار.لیکن تم تو اس مغالطے میں مبتلا ہوگئے تھے کہ ہم تمہارے لیے اس ملاقاتِ مَوعُودۃ کے لیے کوئی وقت نہ متعین کریں گے!‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اس لیے کہ وہ محدثین کرام کے نزدیک مستند نہیں ہے، آخر اس حدیث کی کیا توجیہہ ممکن ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ: قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللہ! مَتٰی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّۃُ؟ قَالَ وَاٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن) 

ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ صحابہ ؓ نے دریافت کیا یا رسُول اللہ آپؐ کو نبوت کب ملی؟فرمایا اس وقت جبکہ آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے( یعنی ان میں روح نہیں پھونکی گئی تھی!)ترمذی بحوالہ ترجمان السنہ اول

ظاہر ہے کہ اسکی ایک ہی توجیہہ ممکن ہے اور وہ یہ کہ اجسادِ انسانی کی تخلیق سے بہت قبل ارواحِ انسانی خلعتِ وجود سے مشرف ہو چکی تھیں اور ان کے مابین مراتب و مناصب کے جملہ امتیازات بھی موجود تھے.!

بعد ازاں جیسے ہی آدم کے جسد خاکی کا ہَیُولیٰ تخلیق و تسویہ کے طویل مراحل طے کرکے اس قابل ہوا کہ روح آدم اس سے ملحق کی جا سکے تو نفخ روح ہوا اور روح و جسد کا یہ مجموعہ مسجودِ ملائک قرار پایا بفحوائے آیاتِ قرآنی:

۱وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿۲۸﴾فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾ (الحجر: ۲۸،۲۹
اور( یاد کرو) جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے ،میں پیدا کرنے والا ہوں اس سَنے ہوئے گارے سے جو سوکھ کر کھنکھنانے لگا ہے ایک بشر، تو جب مَیں اسے پوری طرح مکمل کر چکوں اور اس میں اپنی رُوح میں سے پھونک دوں تو گر پڑنا اس کے لیے سجدے میں.

۲اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۱﴾فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۷۲ (ص: ۷۱،۷۲اور(یاد کرو) جب کہا تیرے رَب نے فرشتوں سے، میں بنانے والا ہوں مٹی سے ایک بشر. تو جب میں اسے پوری طرح بنا کر درست کردُوں اور پھونک دوں اس میں اپنی روح میں سے تو گرپڑنا اس کے لیے سجدے میں.
اور پھر پوری نوعِ انسانی کو صُلبِ آدم سے متعلق کر دیا گیا. چنانچہ جیسے جیسے ارحام ِ امہات میں افرادِنوع انسانی کے اجساد تیار ہوتے رہے ایک خاص مرحلے پر جنودِ ارواح میں سے ایک ایک روح ان کے ساتھ متعلق کی جاتی رہی. جس کو تعبیر کیا سورۂ مومنون میں ’’خَلْقًا اٰخَرَ‘‘ کے الفاظ مبارکہ سے اور جس کی خبردی مزید وضاحت کے ساتھ صادق و مصدوق علیہ الصلوٰۃ السلام نے . ازروئے آیات و حدیث مندرجہ ذیل:

۱وَ بَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ ۚ﴿۷﴾ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَہٗ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ ۚ﴿۸﴾ثُمَّ سَوّٰىہُ وَ نَفَخَ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِہٖ (السجدھ: ۷،۸،۹)
اور اس نے انسان کی تخلیق کا آغاز کیا مٹی سے،پھر چلائی اس کی نسل نچڑے ہوئے بے قدر پانی سے. پھر اس کو درست کیا پوری طرح اور پھونکا اس میں اپنی روح میں سے.!

۲وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ۱۲﴾ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪۱۳﴾ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾ (المؤمنون: ۱۲ تا ۱۴)
اور ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے خلاصے سے. پھر کردیا ہم نے اس کو ایک بوندجمے ہوئے ٹھکانے میں، پھر بنایا اس بوند سے ایک علقہ اور پھر بنایا اس علقہ سے ایک لوتھڑا، پھر بنائیں اس لوتھڑے سے ہڈیاں، پھر پہنایا ہڈیوں کو گوشت. اور پھر اٹھایا اسے ایک اور ہی اٹھان پر.سوبڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب سے اچھی تخلیق فرمانے والا.!

۳عَنْ اَبِی عَبْدِالرَّحْمٰنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ حَدَّ ثَنَا رَسُوْلُ اللہِ  وَ ھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یُرْسَلُ اِلَیْہِ الْمَلَکُ فَیـَنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحَ (رواہ البخاری ومسلم)
ابو عبدالرحمن ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ فرمایا نبی اکرم نے جو سچے ہیں اور ان کی سچائی مُسلَّم ہے کہ :’’تم میں سے ہر ایک کی تخلیق رحمِ مادر میں چالیس دن تو نطفے کی صورت میں ہوتی ہے، پھر اتنے ہی دن علقہ کی صورت میں، پھر اتنے ہی دن مضغہ کی صورت میں . پھر اس کے بعد ایک فرشتہ بھیجا جا تا ہے جو اس میں رُوح پھونکتا ہے(اس حدیث کو روایت کیا امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے)

واضح رہے کہ یہاں روح سے مراد زندگی لینا بہت بڑ امغالطہ ہے اس لیے کہ بے جان تو نہ وہ ’’بَیْضَۃُالْاُنْثٰی‘‘ ہی ہوتا ہے جو طویل مسافت طے کر کے رحم میں پہنچتا ہے اور نہ ’’نُطْفَۃُالرَّجُل‘‘ جو نہایت جوش و خروش سے حرکت کرتے ہوئے پوری قوت کے ساتھ اس میں داخل ہوتا ہے. رہے علقہ اور مضغہ تو ان میں تو نشوونما کا خالص حیاتیاتی عمل انتہائی زور شور سے جاری ہوتا ہے . لہذا یہاں بے جان مادے میں زندگی پھونکنے کا کوئی سوال نہیں بلکہ جسدِ انسانی کے ساتھ جو تخلیق وتسویہ کے مراحل طے کر رہا ہے روحِ انسانی کے الحاق کامعاملہ ہے، فافھم و تدبر!

اب آئیے اصل موضوع کی طرف! حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک مرکب وجود کا حامل ہے جو دو اَجزاء پر مشتمل ہے:
ایک اس کا وجودِ حیوانی جو مجموعہ ہے جسم اور جان یا جسد وحیات دونوں کا اور دوسرے روحِ (۱انسانی جس کے شرف و مجد کے اظہار کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی ذات کی طرف نسبت دی!(وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُّوْحِیْ!) ایک کا تعلق ہے عالمِ خلق سے جس میں تخلیق و تسویہ کا عمل لازماً تدریج و ارتقاء کے مراحل سے ہوکر گزرتاہے ، جب کہ دوسرے کا تعلق ہے عالمِ امر سے جہاں ابداع اور ایجاد و تکوین کاظہور کن فیکونی شان کے ساتھ ہوتا ہے بفحوائے الفاظ قرآنی:

۱وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ (بنی اسرائیل: ۸۵)
اور پوچھتے ہیں تم سے روح کے بارے میں. کہو رُوح میرے رَبّ کے امر سے ہے!

۲وَ مَاۤ اَمۡرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ ﴿۵۰﴾ (القمر: ۵۰)
اور نہیں ہے ہمارا امر مگر بس ایسے جیسے ایک لپک نگاہ کی!

۳اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَـیَکُوْنُ (یٰس: ۸۲)
اور اس کے امر کی شان تو یہ ہے کہ وہ بس کہہ دیتا ہے کہ ہو جا اور ہو جاتا ہے!
مزید برآں… ایک کا رجحان ہے عالم سفلی کی طرف جبکہ دوسرے کی پرواز ہے (۱) اکثر لوگ روح کو حیات یا زندگی کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں حالانکہ زندگی تو جمیع حیوانات ہی نہیں نباتات تک میں ہے. وہ روحِ ربانی جس سے انسان جملہ حیوانات سے ممیز ہوتا ہے بالکل دوسری چیز ہے!

عالمِ علوی کی جانب، بلکہ ایک بالقوہ ’’اَسْفَلَ سَافِلین‘‘ (۱کے حکم میں ہے تو دوسرے کا اصل مقام اعلیٰ ’’علیین‘‘ (۲میں ہے، ایک خاکی الاصل ہے اور ’’کُلُّ شَیْئٍی یَرجِعُ اِلیٰ اَصْلِہٖ‘‘ (۳کے مصداق’’وَلٰکِنَّہٗ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرضِ‘‘ (۴کی مکمل تصویر، جبکہ دوسرا نوری الاصل اور ؏ :’’ اپنے مرکز کی طرف مائل ِ پرواز تھا حسن!‘‘ کے مصداق ہمیشہ عالمِ بالا کی جانب مائل ومتوجہ . ایک خالصتہً حیوانات کی سطح پر ہے تو دوسرا فرشتوں کا ہم رتبہ ہی نہیں بالقوہ ان سے بھی آگے ! بقولِ شیخ سعدیؒ ؎

آدمی زادہ طُرفہ معجون است
از فرشتہ سرشتہ وز حیواں

گویا دونوں باہم متضادو متصادم ہیں.چنانچہ ایک تقویت پاتا ہے تو دوسرا لازماً مضمحل ہوتا ہے اور ایک کا دباؤ بڑھے تو دوسرے کا کچلا جانا لازمی ہے! چنانچہ بطن وفرج کے تقاضوں کی بھر پور تسکین اور کثرت آرام وا ستراحت سے روح مضمحل ہوتی چلی جاتی ہے، حتی کہ وہ وقت بھی آجاتا ہے جب انسان کا جسد خاکی چلتا پھرتا اور کھاتا پیتا الغرض ہر اعتبار سے زندہ ہی نہیں خوب فربہ و توانا نظر آتاہے در آنحا ل یہ کہ اس کی روح، کمزور اور لاغر ہوتی ہوتی بالآخرسسک سسک کر دم توڑ دیتی ہے اور جسد انسانی اس روح کے لیے چلتی پھرتی قبر بن کر رہ جاتا ہے بقول

(۱) سورۃ التین
(۲) سورۃ المطفّفین
(۳) ایک مقولہ:’’ہر شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے!‘‘.
(۴) سورہ اعراف:۱۷۶
(۵) قرآنِ حکیم نے ایک سے زائد مقامات پر منافقین کے ’تن و توش‘ کی جانب خصوصی اشارے کیے ہیں مثلاً سورۂ منافقون میں فرمایا!

وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ (سورہ منافقون:۴
اور(اے نبیؐ ) جب تم انہیں (منافقین کو) دیکھتے ہو تو ان کے تن و توش سے متاثر ہو جاتے ہو چنانچہ جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کی گفتگو کو بغور سنتے ہو.حالانکہ در حقیقت وہ سوکھی لکڑیوں کے مانند ہیں جنہیں سہارے سے رکھ دیا گیا ہو. علامہ اقبال ؏ ’’رو ح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد!‘‘
اوربفحوائے الفاظِ قرآنی:
اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ (النمل:۸۰، الروم: ۵۲)
یقینا (اے نبی) تم نہیں سنا سکتے (اپنی بات) مُردوں کو اور نہ سنا سکتے ہو (اپنا پیغام) بہروں کو!

افسوس کہ دورِ حاضر میں مادہ پرستانہ نقطۂ نظر کے تسلط کے باعث روح اور جسد کے جداگانہ تشخص اور ان کے تقاضوں کے باہم متضادو متصادم ہونے کو شعور و ادراک عوام تو کجا خواص تک کو حاصل نہیں رہا. حتیٰ کہ بہت سے جدید،مفکرین ِ اسلام، تو اس حقیقت کبریٰ کا ذکر بھی بطرزِ استہزاء و استحقار کرتے ہیں.چنانچہ عصرِ حاضر کے ایک بہت بڑے ’مفکرِ اسلام‘ (۱’’اسلام کا روحانی نظام‘‘ کے عنوان سے ایک نشری تقریر میں فرماتے ہیں:

’’فلسفہ ومذہب کی دنیا میں عام طور پر جو تخیل کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ روح اور جسم ایک دوسرے کی ضد ہیں، دونوں کا عالم جدا ہے. دونوں کے تقاضے الگ بلکہ باہم مخالف ہیں… اسلام کا نقطۂ نظر اس معاملے میں دنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں سے مختلف ہے…‘‘

اس ضمن میں انہوں نے دنیا پرستی ‘ اور ترکِ دنیا‘ کی دوانتہائی صورتوں کی جو تردید کی ہے وہ اصولاً بالکل درست ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ان کی توجہ اس حقیقت کی جانب کیوں منعطف نہ ہوئی کہ انسانی تاریخ میں ان دونوں انتہاؤں کی موجودگی بجائے خود اس کا ثبوت ہے کہ انسانی شخصیت میں دو بالکل متضاد اور مخالف قوتیں کارفرماہیں. جن کے مابین مسلسل رسہ کشی جاری رہتی ہے.چنانچہ کبھی ایک پلڑا بھاری ہو جاتا ہے کبھی دوسری کا.بقول علامہ اقبالؒ ؎

اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں 
کبھی سوزو سازِ رومیؔ کبھی پیچ و تابِ رازیؔ

(۱) مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم 
اسلام بلاشبہ ان کے مابین توازن پیدا کرنا چاہتا ہے اور عدم توازن (۱کو ہرگز پسند نہیں کرتا لیکن توازن کا یہ تصور بجائے خود دلیل قاطع ہے جسد اور روح کے تضاد اور ان کے تقاضوں کے باہم متقابل و متبائن ہونے کی .بقول شاعر ؎

درمیانِ قعر دریا تختہ بندم کردہ ای!
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش!

واقعہ یہ ہے کہ فکر و نظر کی اس بنیادی غلطی نے تصورِ دین کی پوری عمارت ہی کوکج کر ڈالا ہے. چنانچہ جب روح، صرف زندگی کے ہم معنی ہوکر رہ گئی تو ’دین‘ بھی بس ایک نظامِ حیات ، بن کر رہ گیا اور مذہب کا ایک ایسالا مذہبی 
(Secular) ایڈیشن تیار ہوگیا جس میں مذہب کے لطیف حقائق سرے سے خارج از بحث ہوگئے ؎

خشتِ اول چوں نہد معمار کج!
تا ثریا می رود دیوار کج!!
ایک حقیقت کی جانب مزید توجہ فرمالیجئے!

جسدِ انسانی یا انسان کا وجودِ حیوانی خاکی الاصل ہے چنانچہ اس کی جملہ ضرورتیں اور اس کے تغذیہ و تقویت کا تمام سامان بھی زمیں ہی سے حاصل ہوتا ہے جبکہ روح انسانی قدسی الاصل اور امر رب ہے لہذا اس کے تغذیہ و تقویت کی ضروت بھی تمام تر کلام ِ ربانی ہی سے (۱) اگرچہ عدمِ توازن کی تمام صورتیں برابر نہیں ہیں. چنانچہ بہت فرق ہے اس عدمِ توازن میں جو دنیا پرستی یا شکم پروری و شہوت پرستی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اس عدمِ توازن میں جو ترکِ دنیا یا رہبانیت کی صورت اختیار کرتا ہے. سابقہ اُمتوں میں عدمِ توازن کی پہلی صورت کی مثال یہود ہیں جنہیں ’’المغضوب علیہم‘‘ قرار دیا گیا ہے اور دوسری صورت کی مثال نصاریٰ ہیں جنہیں صرف ’’ضالین‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے. مزید تقابل کے لیے دیکھئے سورۂ حدید، جس کے وسط میں یہود کا ذکر ہے جن کی دنیا پرستی نتیجہ تھی قساوتِ قلبی ، کا اور آخر میں مُتّبعین عیسیٰ علیہ السّلام کا ذکر ہے جن کی رہبانیت کو اگرچہ بدعت قرار دیا گیا لیکن اس تصریح کے ساتھ کہ تھی یہ نیکی کے جذبے ہی کی ایک غیر معتدل صورت! پوری ہو سکتی ہے جسے قرآن حکیم نے روح (۱ہی سے تعبیر کیا ہے ازروئے آیاتِ مبارکہ:

۱وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا 
(الشورٰی: ۵۲
اور اسی طرح (اے نبیؐ ) ہم نے وحی کی تمہیں ایک رُوح اپنے امر سے (اس سے پہلے) تم کچھ نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا. لیکن (اب) بنا دیا ہے اسے ایک نُور جس کے ذریعے ہدایت دیتے ہیں ہم اپنے بندوں میں سے جس پر چاہیں!

۲یُلۡقِی الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ (المومن: ۱۵)
اِلقاء فرماتا ہے روح اپنے امر سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے!

۳یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ (النمل: ۲)
نازل فرماتا ہے فرشتوں کو وحی کے ساتھ اپنے امر سے ، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے!
اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ رمضان المبارک کے پروگرام کی دوشقیں ہیں ایک دن کا (۱) یہاں اس حقیقت کی جانب بھی توجہ ہو جائے کہ وحی کے لانے والے کو بھی قرآن نے کہیں ’’روح القدس‘‘ سے موسوم فرمایا ہے اور کہیں ’’الروح الامین‘‘ سے اور مہبطِ وحی بھی قرار دیا ہے قلب کو جو دراصل بمنزلہ ’شاہ درہ‘ ہے شہر روح کے لیے . تو حقیقت وحی کے ضمن میں بھی ایک کلید مل جاتی ہے اگرچہ یہ بجائے خود ایک مستقل موضوع ہے! گویا وحی خود بھی روح، اس کے لانے والا بھی روح اور اس کا مہبط بھی روح. جگرؔ کا ایک شعر اس نغمہ ٔ وحی کی ماہیت کو خوب واضح کرتا ہے ؎

نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو روح سنے اور روح سنائے! روزہ اور دوسرے رات کا قیام اور اس میں قرأت و استماعِ قرآن! اور اگرچہ ان میں سے پہلی شق فرض کے درجے میں ہے اور دوسری بظاہر نفل کے، تاہم قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ علیٰ صاجہاالصلوٰۃ والسّلام دونوں نے اشارۃً اور کنایتہ واضح فرما دیا کہ یہ ہے رمضان المبارک کے پروگرام کا جزو لاینفک!چنانچہ قرآن نے وضاحت فرمادی کہ روزوں کے لیے ماہ ِ رمضان معین ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ اس میں قرآنِ مجید نازل ہواتھا: گویا یہ ہے ہی نُزولِ قرآن کا سالانہ جشن!

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ (البقرۃ: ۱۸۵)
رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا.

اور احادیث نے تو بالکل ہی واضح کر دیا کہ رمضان المبارک میں’صیام‘اور ’قیام‘لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں:چنانچہ:-

۱. امام بہیقیؒ نے رمضان المبارک کی فضیلت کے ضمن میں جو خطبہ آنحضور کا ’شعب الایمان‘ میں نقل کیا ہے، اس کے الفاظ ہیں:

جَعَلَ اللہُ صِیَا مَہ فَرِیْضَۃً وَ قِیَامَ لَیْلِہ تَطَوُّعًا
اللہ نے قرار دیا اس میں روزہ رکھنا فرض اور اس کا قیام اپنی مرضی پر.
گویا قیام اللیل اگرچہ ’’تَطَوُّعًا‘‘ ہے تاہم اللہ کی جانب سے ’مجعول‘بہر حال ہے!

۲. بخاریؒ اور مسلمؒ دونوں نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ آنحضور  نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ 
’’ جس نے روزے رکھے رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ‘ بخش دئیے گئے اس کے تمام سابقہ گناہ‘ اور جس نے (راتوں کو ) قیام کیا رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ‘ بخش دئیے گئے اس کے جملہ سابقہ گناہ. ‘‘ ۳. امام بہیقیؒ نے’ شعب الایمان ، میں حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاصؓ سے روایت کیا کہ آنحضور نے فرمایا کہ:

اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ‘ یَقُوْلُ الصِّیَامُ اَیْ رَبِّ اِنِّی مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھَوَاتِ بِالنَّہَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ فَیُشَفَّعَانِ
ــ’’روزہ اور قرآن دونوں بندہ مومن کے حق میں سفارش کریں گے روزہ کہے گا اے رب ! میں نے اسے روکے رکھا دن میں کھانے اور خواہشات سے پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے روکے رکھا اسے رات کو نیند سے پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما . تودونوں کی سفارش قبول کی جائے گی ‘‘

اور اب غور فرمائیے صوم رمضان کی حکمتوں پر!
حقائقِ متذکرہ بالا کے پیشِ نظر صیام و قیامِ رمضان کی اصلی غایت و حکمت اور ان کا اصل ہدف و مقصود ایک جملے میں اس طرح سمویا جا سکتا ہے کہ :… ایک طرف روزہ انسان کے جسد حیوانی کے ضعف و اضمحلال کا سبب بنے تاکہ روحِ انسانی کے پاؤں میں پڑی ہوئی بیڑیاں کچھ ہلکی ہوں اور بہیمیت کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی اور سسکتی اور کراہتی ہوئی روح کو سانس لینے کا موقع ملے …اور دوسری طرف قیام ُ اللیل میں کلامِ ربانی کا روح پرور نزول (۱اس کے تغذیہ و تقویت کا سبب بنے …تاکہ ایک جانب اس پر کلامِ الٰہی کی عظمت کَمَاحَقَّہٗ منکشف ہوجائے اور وہ اچھی طرح محسوس کر لے کہ یہی اس کی بھوک کو سیری اور پیاس کو آسودگی عطا کرنے کا ذریعہ اور اس کے دُکھ کا علاج اور درد کادرماں ہے!اور دوری جانب روحِ انسانی از سرِ نو قوی اور توانا ہوکر’’ اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز‘‘ ہوگویا اس میں تقرب الی اللہ کا داعیہ شدت سے بیدار ہوجائے اور وہ مشغول ِ دعا و مناجات ہو جو اصل روح ہے عبادت (۲کی اور لُبِّ لُباب ہے رُشد و ہدایت کا!

یہی وجہ ہے کہ قرآن ِ حکیم میں صوم و رمضان سے متعلق آیات (۳میں:
اولاً …مجرد صوم کی مشروعیت اور اس کے ابتدائی احکام کا ذکر ہوا اور اس کی غرض و غایت بیان ہوئی ’’لَـعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ کے الفاظ میں اور
ثانیاً …صومِ رمضان کی فرضیت اور اس کے تکمیلی احکام کا بیان ہوا اور اس کے ثمرات و نتائج کا ذکر ہوا دو طرح پر:
ایک… وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰکُمْ وَلَـعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ 
کے الفاظ میں جو عبارت ہے انکشافِ عظمتِ نعمتِ قرآن اور اس پر اللہ کی جناب میں ہدیہ تکبیر و تشکر پیش کرنے سے اور
دوسرے… وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِلا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَـعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ 
کے الفاظ میں جو عبارت ہے انسان کے متوجہ الی اللہ و متلاشی ٔ قربِ الٰہی اور مشغولِ دُعا اور محوِ مناجات ہونے سے جو اصل حاصل ہے عبادتِ رَبّ کا!

الغرض! صیام و قیام رمضان کا اصل مقصود یہ ہے کہ روح انسانی بہیمیت کے غلبے اور تسلط سے نجات پاکر گویا حیاتِ تازہ حاسل کرے اور پوری شدت و قوت اور کمالِ ذوق و شوق کے ساتھ اپنے رب کی جانت متوجہ ہوجائے! (۱) تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کُشا ہے نہ راز ہی نہ صاحب ِ کشاف!(اقبالؔ)

(۲) احادیثِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ’’اَلدُّعَاُء مُخْ اَلْعِبَادَۃِ‘‘ اور ’’اَلدُّعَاء ھُوَ الْعِبَادَۃُ‘‘

(۳) سورہ بقرۃ آیات ۱۸۳ تا ۱۸۷ اب ذرا ایک بار پھر سوچئے کہ یہ’ روحِ انسانی ‘ درحقیقت ہے کیا؟ جیسے کہ پہلے واضح ہو چکا ہے، یہ ’’اَمرِ رَبِّی‘‘ بھی ہے اور جلوۂ ربانی بھی . اس کا تعلق ذاتِ خداوندی کے ساتھ بالکل وہی ہے جو سورج کی ایک کرن کا سورج کے ساتھ کہ لاکھوں اور کروڑوں میل دور آجانے کے باوجود اپنے منبع سے منقطع اور اپنے جداگانہ وجود کے باوصف اپنی اصل سے منفصل نہیں ہے …بعینہٖ یہی کیفیت ہے روح ِ انسانی کی کہ اپنے علیحدہ تشخص کے باوجود خدا سے منفصل نہیں بلکہ متصل ہے بقول عارفِ رومیؔ ؎

اتصالے بے تکیف بے قیاس
ہست ربُّ الناس را با جانِ ناس!

گویا قلبِ انسانی کی مکین روحِ ربانی براہ راست متصل ہے ذاتِ رب کے ساتھ اور یہی ہے وہ عظیم امانت جس کے بارگراں کے نہ سماوات متحمل ہو سکے نہ ارض و جبال لیکن جو حصے میں آئی ظلوم و جہول انسان 
(۱کے: ؎

آسماں بارِ امانت نتواں گشت کشید
قُرعٔہ فال بنام ِ منِ دیوانہ زدند!

یہی وجہ ہے کہ ایک حدیثِ قُدسی کی رو سے قلبِ مومن کی مکین خود ذاتِ الٰہی ہے:
مَا وَسَعَنِی اَرْضِیْ وَلَا سَمَائِیْ وَلٰکِنْ وَسَعَنِیْ قَلْبُ عَبْدِی الْمُؤْمِن 

میں نہ زمین میں سما سکا نہ آسمان میں، البتہ اپنے مومن بندے کے دل میں میری سمائی ہو گئی. ۳ ص ۱۴،احیاء العلوم الدین، امام غزالیؒ )
؎

من نگنجم در زمین و آسماں
لیک گنجم در دلِ مومن عیاں!
(سعدیؔ)

تو کیا بالکل درست نہیں یہ قول مبارک کہ ’’اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ‘‘ …بلکہ ’’اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اُجْزٰی بِہٖ‘‘ …اس لیے جب کہ دوسری بدنی اور مالی عبادتوں کا حاصل تزکیہ و تطہیر نفس وہاں صوم رمضان کا حاصل ہے تغذیہ و تقویتِ رُوح جو متعلق ہے براہ راست ذاتِ خداوندی (۱) سورۂ احزاب آیت :۷۲ کے ساتھ …لہذا روزہ ہوا خاص اللہ کے لیے، اب چاہے یوں کہہ لیں کہ وہ خود ہی اس کی جزا دے گا یا یوں کہہ لیں کہ وہ خود ہی بہ نفسِ نفیس اس کا انعام ہے، کوئی فرق واقع نہیں ہوتا اس لیے کہ خدا تو منتظر رہتا ہے کہ جیسے ہی کوئی بندہ خلوص و اخلاص کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو وہ بھی کمالِ شفقت و عنایت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوجائے …یہاں تک کہ ایک حدیث ِ قُدسی کی رو سے اگر بندہ اس کی جانب چل کر آتاہے تو وہ بندے کی جانب دوڑ کر آتا ہے اور اگر بندہ اس کی طرف بالشت بھر بڑھتا ہے تو وہ بندے کی طرف ہاتھ بھر بڑھتا ہے …

گویا بقول علامہ اقبالؔ مرحوم ؎

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں!
راہ دکھلائیں کسے؟ رَہروِ منزل ہی نہیں!