میری یہ تحریر‘ جو صفحاتِ آئندہ میں پیش کی جا رہی ہے‘ اولاً ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور بابت جون۱۹۶۷ء کے ادارتی صفحات میں شائع ہوئی تھی. بعد ازاں مئی ۱۹۶۸ء میں اسے دار الاشاعت الاسلامیہ لاہور‘ نے ایک کتابچے کی صورت میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا. دوسری بار یہ کتابچہ دسمبر ۱۹۷۲ء میں دو ہزار کی تعداد میں طبع ہوا. تیسری بار جون ۱۹۷۳ء میں چار ہزار کی تعداد میں شائع ہوا. چوتھی مرتبہ جون ۱۹۸۰ء میں دوہزار طبع ہوا. اور اب پانچویں بار اپریل ۱۹۸۴ء میں ساڑھے پانچ ہزار کی تعداد میں طبع ہو رہا ہے.

اس میں‘ میں نے اپنے فہم کی حد تک بھرپور جائزہ لینے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت ہم بحیثیت مسلمان کس مقام پر ہیں اور یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور اُمت ِمسلمہ کی تعمیر نو کے لیے اب تک کیا کچھ ہو چکا ہے‘ فی الوقت کیا ہو رہا ہے اور کیا کرنا باقی ہے. ساتھ ہی اپنے تجزیے (analysis) کی بنیاد پر میں نے ایک اساسی لائحہ عمل بھی پیش کیا تھا اور فوری اور اوّلین قدم کے طور پر ایک ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کے قیام کی تجویز بھی پیش کی تھی.

اس لائحہ عمل کو پیش کرنے کے فوراً بعد ہی ‘بحمد اللہ‘ میں نے عملی جدوجہد کا آغاز بھی کر دیا تھا. چنانچہ پانچ سال کی محنت کے دوسرے بہت سے ثمرات کے ساتھ ساتھ ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آیا کہ اس نہج پر باقاعدہ اجتماعی جدوجہد اور خصوصاً ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کے مجوزہ خاکے کو عملی صورت دینے کے لیے ۱۹۷۲ء میں’’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘ کا قیام عمل میں آ گیا جس کی قراردادِ تأسیس(memorandum) اور اغراض ومقاصد میں ان تجاویز کو بالکلیہ سمو لیا گیا اور اسے گویا اس کے اساسی منشور (manifesto) کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے.

پندرہ سال کی مدت میں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت کے دریا میں بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور حالات بہت کچھ بدل گئے ہیں تاہم کچھ اس بنا پر کہ میرے نزدیک حالات میں بنیادی تغیر کوئی واقع نہیں ہوا اور کچھ اس وجہ سے کہ اب اس تحریر کی حیثیت ایک تاریخی دستاویز کی ہے‘ اسے بغیر کسی ترمیم کے شائع کیا جا رہا ہے‘ بجز اس کے کہ آخری دو صفحات کی عبارت میں کچھ اختصار کر کے مجوزہ قرآن اکیڈمی کے ضمن میں پیش رفت کا جائزہ پیش کر دیا گیا ہے. 

خاکسار : اسرار احمد
اپریل ۱۹۸۲ء
صدر مؤسس انجمن خدام القرآن لاہور