تہذیب جدید کی بنیاد میں جو فکر کام کر رہا ہے وہ نہ تو کوئی ایک دن میں پیدا ہو گیا ہے اور نہ ہی کوئی سادہ اور بسیط شے ہے بلکہ ان ڈیڑھ دو سوسالوں کے دوران فلسفے کے کتنے ہی مکاتب فکر یورپ میں پیدا ہوئے اور کتنے ہی زاویہ ہائے نگاہ سے انسانوں نے انسان اور انسانی زندگی پر غور و فکر کیا. لیکن اس پورے ذہنی و فکری سفر کے دوران ایک نقطۂ نظر جو مسلسل پختہ ہوتا چلا گیا اور جسے بجا طور پر اس پورے فکر کی اساس قرار دیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ’’خیالی‘‘ اور ’’ماورائی‘‘ تصورات کے بجائے ’’ٹھوس‘‘ حقائق و واقعات کو غور و فکر اور سوچ بچار کا اصل مرکز و محور ہونے کی حیثیت حاصل ہے اور خدا کے بجائے کائنات ‘روح کے بجائے مادہ اور موت کے بعد کسی زندگی کے تصور کے بجائے حیاتِ دُنیوی کو اصل موضوعِ بحث قرار دیا گیا ہے. خالص علمی سطح پر تو اگرچہ یہ کہا گیا کہ ہم خدا‘ روح اور حیات بعد الممات کا نہ اقرار کرتے ہیں نہ انکار‘ لیکن اس عدم اقرار و انکار کا نتیجہ بہرحال یہ نکلا کہ ’’یہ تصورات‘‘ رفتہ رفتہ بالکل خارج از بحث ہوتے چلے گئے اور انسان کے سارے غور و فکر اور تحقیق و تجسس کا مرکز و محور کائنات‘ مادہ اور حیاتِ دنیوی بن کر رہ گئے.

انسان کو اللہ تعالیٰ نے جن بے پناہ قوتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے وہ انہیں جس میدان میں بھی استعمال کرے نتائج بہرحال رونما ہوتے ہیں اور ہر ڈھونڈنے والا اپنے اپنے دائرۂ تحقیق و جستجو میں نئی دنیائیں تلاش کر سکتا ہے پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح کائنات کی عظمت ووسعت کے اعتبار سے مہردرخشاں کی حیثیت و وقعت ایک ’’ذرّۂ فانی‘‘ سے زیادہ نظر نہیں آتی‘ لیکن اگر ایک ’’ذرّۂ فانی‘‘ کی حقیقت و ماہیت پر غور کیا جائے تو وہ بجائے خود ’’مہردرخشاں‘‘ کی عظمت و سطوت کا حامل نظر آتا ہے(۱). اسی طرح حقیقت (۱) مہر درخشاں ذرّۂِ فانی ذرّۂِ فانی مہر درخشاں (کوثرؔ)
؏ ’’لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں.‘‘ (اقبالؔ) نفس الامری کے اعتبار سے چاہے خدا کے مقابلے میں کائنات ‘ روح کے مقابلے میں مادہ اور حیاتِ اُخروی کے مقابلے میں حیاتِ دُنیوی کیسے ہی حقیر اور کتنے ہی بے وقعت ہوں اگر نگاہوں کو انہی پر مرکوز کر دیا جائے تو خود ان کی وسعتیں بے کراں اور گہرائیاں اتھاہ نظر آنے لگتی ہیں.

چنانچہ یورپ میں جب’’ کائنات‘‘ اور ’’مادہ‘‘ تحقیق و جستجو کا موضوع بنے تو یکے بعد دیگرے ایسے ایسے عظیم انکشافات ہوئے اور بظاہر خفتہ و خوابیدہ مظاہر قدرت کے پردوں میں ایسی ایسی عظیم قوتوں اور توانائیوں کا سراغ ملا کہ عقلیں دنگ اور نگاہیں چکاچوند ہوکر رہ گئیں اور علم و فن کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گیا قدرت کے قوانین کی مسلسل دریافت‘ فطرت کی قوتوں کی پیہم تسخیر اور نت نئی ایجادات و اختراعات نے ایک طرف تو یورپ کو ایک ناقابل شکست قوت بنا دیا اور دوسری طرف مادے کی یہ عظمت اور اس کی قوتوں کی یہ سطوت بجائے خود اس امر کی دلیل بنتی چلی گئیں کہ اصل قابل التفات شے مادہ ہے نہ کہ روح اور کائنات اور اس کے قواعد و قوانین ہیں نہ کہ خدا اور اس کی ذات و صفات!