اسلامی نظامِ حیات کا تصور اور بیسویں صدی عیسوی کی اسلامی تحریکیں

عمرانیات کے میدان میں مغرب کے اس فکری ارتقاء یا بالفاظ صحیح افراط و تفریط کے دھکوں کا اثر عالم اسلام پر یہ پڑا کہ یہاں بھی لوگوں نے اسلام پر بطور نظام زندگی غور و فکر شروع کیا اور اسلام نے حیاتِ دُنیوی کے مختلف شعبوں کے لیے جو ہدایات دی تھیں‘ ان کی تالیف و ترتیب سے ’’اسلامی نظامِ حیات‘‘ کی تدوین ہوئی اور ساتھ ہی اس نظامِ زندگی کو دنیا میں عملاً نافذ کرنے کے لیے مختلف ممالک میں تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا.

بیسویں صدی عیسوی کی یہ اسلامی تحریکیں‘ جو انڈونیشیا سے مصر تک متعدد مسلمان ممالک میں تقریباً ایک ہی وقت میں شروع ہوئیں‘ بہت سے پہلوؤں سے ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں اور یہ کہنا بہت حد تک صحیح ہے کہ تقریباً ایک ہی تصور دین ان کی پشت پر کام کر رہا ہے اور ایک ہی جذبہ ان میں سرایت کیے ہوئے ہے پھر یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی وجہ سے عالم اسلام میں اسلام پر کم از کم ایک بہتر ضابطہ ٔحیات ہونے کے اعتبار سے عمومی اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوان نسل کے ذہنوں سے مغرب کی عام مرعوبیت میں بحیثیت مجموعی کمی واقع ہوئی ہے.

مغربی فلسفہ و فکر اور تہذیب و تمدن سے مرعوبیت میں عمومی کمی کے کچھ دوسرے اسباب بھی ہیں. مثلاً ایک یہ کہ مغرب کے سیاسی غلبے اور عسکری تسلط کا جو سیلاب تیزی سے آیا تھا وہ نہ صرف یہ کہ رُک گیا ہے‘ بلکہ مختلف ممالک میں قومی تحریکوں نے اس کا رُخ پھیر دیا ہے اور مغرب اپنی سیاسی بالادستی کی بساط رفتہ رفتہ تہہ کرنے پر مجبور ہو گیا ہے (۱. اور اگرچہ تحفظ و حمایت کے پردے میں سیاسی بالادستی اور تعاون و امداد کے پردے میں معاشی تفوق و برتری کے بندھن ابھی باقی ہیں. تاہم تقریباً پورا عالم اسلام مغربی طاقتوں کی براہ راست محکومی سے آزادی حاصل کر چکا ہے. دوسرے یہ کہ مغربی تہذیب و تمدن کا کھوکھلاپن تجربے سے ثابت ہو گیا اور خود مغرب میں محسوس کیا گیا کہ اس کی بنیاد غلط اور تعمیر کج ہے.

خصوصاً مادہ پرستانہ الحاد جب اپنی منطقی انتہا کو پہنچا اور اس کی کوکھ سے سوشلزم اور کمیونزم نے جنم لیا اور انہوں نے انسانیت کی بچی کھچی اقدار کو بھی ’’ٹھوس‘‘ معاشی مسئلے کے بھینٹ چڑھانا شروع کیا تو خود مغرب پریشان ہو گیا اور وہاں بھی نہ صرف انسانیت بلکہ دبی آواز میں روحانیت تک کا نام لیا جانے لگا. تیسرے یہ کہ، نہ صرف یہ کہ خود سائنس کی قطعیت اور حتمیت ختم ہو گئی اور کچھ نئے نظریات نے نیوٹن کی طبیعیات اور اقلیدسی ہندسے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں بلکہ خود مادہ ٹھوس نہ رہا اور تحلیل ہو کر قوتِ محض کی صورت اختیار کر گیا. چنانچہ ماوراء الطبیعیاتی عقائد کا اقرار نسبتاً آسان ہو گیا اور مذہب کو بحیثیت مجموعی کسی قدر سہارا ملا. چوتھے یہ کہ مختلف مسلمان ممالک میں جب آزادی اور خودمختاری کے حصول کے لیے قومی تحریکیں اٹھیں تو چونکہ مسلم قومیت کی اساس بہرحال مذہب پر ہے‘ لہذا جذبۂ قومی کی انگیخت کے لیے (۱) دولت ِبرطانیہ نے جس طرح رفتہ رفتہ اپنی عظمت کی بساط لپیٹی ہے وہ تو اس دور کا ایک نہایت ہی عبرت آمیز واقعہ ہے. لامحالہ مذہبی جذبات کو اپیل کیا گیا جس سے احیائے اسلام کے تصور کو تقویت پہنچی.

مندرجہ بالا اسباب اور عوامل سے تقویت پا کر احیائے اسلام ‘قیامِ حکومت الٰہیہ اور نفاذِ نظامِ اسلامی کی تحریکیں مختلف مسلمان ممالک میں برسر کار ہوئیں جن میں قوت و وسعت اور جذبہ و امنگ کے اعتبار سے مصر کی ’’الاخوان المسلمون‘‘ اہم تر تھی لیکن ایک ٹھوس اور مضبوط فکر کی حامل ہونے کے اعتبار سے برصغیر پاک و ہند کی جماعت اسلامی کو نمایاں مقام حاصل تھا.

یہ تحریکیں تقریباً ثلث صدی (۱سے مختلف مسلمان ملکوں میں برسر عمل ہیں اور ملت اسلامی کی نوجوان نسل کا ایک خاصا قابل ذکر حصہ ان کے زیر اثر آیا ہے‘ لیکن عملاً ان میں سے کسی کو کوئی نمایاں کامیابی کہیں حاصل نہیں ہو سکی‘ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں اپنا وقت پورا کر چکی ہیں اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے خواب کی تعبیر کا وقت ابھی نہیں آیا. چنانچہ مصر میں ’’الاخوان المسلمون‘‘ کا اندرون ملک تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے اور اس کے باقیات الصالحات جلاوطنی کے عالم میں دُوَلِ عرب کی باہمی آویزش کے سہارے جی رہے ہیں. رہی برصغیر کی تحریک اسلامی تو اس کا جزوِ اعظم پاکستانی سیاست کے نذر ہو چکا ہے اور اب اس کا مقام تحریک جمہوریت کی حاشیہ برداری سے زیادہ کچھ نہیں رہا.

(۲ان تحریکوں کی ناکامی کا سبب بظاہر تو یہ ہے کہ انہوں نے بے صبری سے کام لیا اور اپنے اپنے ملکوں میں سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی معتدبہ تعداد کے ذہنوں کو بدلے بغیر سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا‘ جس کے نتیجے میں قومی قیادتوں اور ترقی پسند عناصر سے قبل از وقت تصادم کی نوبت آ گئی‘ لیکن درحقیقت ان کی ناکامی براہِ راست نتیجہ ہے ان کے تصورِ دین کی خامی اور مطالعہ ٔاسلام کے نقص کا.

(۱) واضح رہے کہ یہ تحریر ۱۹۶۷ء کی ہے. اب ان تحریکوں کی عمر تین چوتھائی صدی سے متجاوز ہوچکی ہے. (حاشیہ ۲۰۱۰ )
(۲) یہ بات بھی آج سے دس سال قبل تک تھی. گزشتہ دس سالوں کے دوران جماعت نے فوجی آمریت کے ساتھ ’شریفانہ سمجھوتہ‘ کر کے اپنی پوزیشن مزید خراب کر لی ہے!