ذرا دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کا مطالعۂ اسلام اسی مغربی نقطۂ نظر پر مبنی ہے جس میں روح پر مادے اور حیاتِ اُخروی پر حیاتِ دُنیوی کو فوقیت حاصل ہے. چنانچہ اسلام کے ان ماوراء الطبیعیاتی اعتقادات کا اقرار تو ان کے یہاں موجود ہے جن کے مجموعے کا نام ایمان ہے‘ لیکن انہیں کچھ زیادہ درخورِ اعتناء اور لائق التفات نہیں سمجھا گیا اور نگاہیں کلیۃً اس ہدایت و رہنمائی پر مرکوز ہیں جو حیاتِ دُنیوی کے مختلف شعبوں کے لیے اسلام نے دی ہیں اور جن کے مجموعے کا نام ’’اسلامی نظامِ زندگی‘‘ رکھا گیا ہے.

اللہ تعالیٰ کی ہستی کا اقرار تو موجود ہے لیکن ایمان باللہ کی وہ کیفیت کہ آفاق وانفس میں تنہا وہی فاعل مطلق‘ مؤثر حقیقی اور مسبب الاسباب نظر آنے لگے‘ بالکل مفقود ہے. آخرت کا اقرار تو کیا جاتا ہے لیکن اس پر ایسا ایمان کہ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْعَابِرُ سَبِیْلٍ (۱کی کیفیت پیدا ہو جائے‘ قطعاً ناپید ہے. رسالت کا اقرار تو ہے لیکن محبت ِ رسول نام کو موجود نہیں‘ اور مقامِ رسالت کا تصور زیادہ ترقی پسند لوگوں کے نزدیک تو ڈاک کے ہرکارے اور صرف اپنی زندگی میں ملت کے مرکز یعنی رہبر و مطاع سے زیادہ نہیں (۲اور جو سنت کے مقام سے زیادہ آگاہ ہیں انہوں نے بھی سنت ِعادت اور سنت ِ رسالت کی تقسیم سے ایسا چور دروازہ پیدا کر لیا ہے جس سے کم از کم اپنی نجی زندگیوں کی حد تک زمانے کا ساتھ دینے کی آزادی برقرار رہے! گویا ’ایمان‘ کا صرف وہ اقرار پایا جاتا ہے جو قانونی اسلام کی بنیاد ہے‘ اور یہ کیفیت کہ ایمان انسان کا ’’حال‘‘ بن جائے نہ صرف یہ کہ موجود نہیں ہے بلکہ اس کی کسی ضرورت و اہمیت کا احساس بھی سرے سے عنقا ہے! (۱) حدیث نبویؐ : ’’دنیا میں ایسے رہو جیسے اجنبی یا مسافر!‘‘

(۲) اس مکتب کی زوردار نمائندگی کا شرف ہمار ے یہاں جناب غلام احمد پرویز کو حاصل ہے. یہاں اس مکتب فکر کے حوالے سے صرف یہ مقصود ہے کہ واضح ہو جائے کہ یہ بھی تعبیر کی اصلاً اسی غلطی کی اگلی منزل ہے! اسی نقطہ ٔ نظر کا کرشمہ ہے کہ دین اسٹیٹ (state) کا ہم معنی قرار پایاہے اور عبادت اطاعت کے مترادف ہو کر رہ گئی ہے. نماز کا یہ مقام کہ وہ ’’معراج المؤمنین‘‘ (۱ہے‘ نگاہوں سے بالکل اوجھل ہے اور نفس انسانی کا اس سے ایسا اُنس کہ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ (۲کی کیفیت پیدا ہو سکے‘ ناپید ہے . اس کے برعکس زیادہ ترقی پسند لوگوں کے نزدیک تو صلوٰۃ معاشرے کے ہم معنی قرار پائی ہے اور دوسروں کے نزدیک بھی اس کی اصل اہمیت اس حیثیت سے ہے کہ وہ مسلمان معاشرے کی اصلاح اور تنظیم کا ایک جامع پروگرام ہے. زکوٰۃ کا یہ پہلو کہ یہ روح کی بالیدگی اور تزکیے کا ذریعہ ہے اس قدر معروف نہیں جتنی اس کی یہ حیثیت کہ یہ اسلامی نظامِ معیشت کا اہم ستون ہے. روزہ کے بارے میں یہ تو خوب بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ضبط ِنفس (self control) کی مشق و ریاضت ہے‘ لیکن اس کی اس حقیقت کا یا تو سرے سے ادراک ہی نہیں ہے یا اس کے بیان میں ’’حجاب‘‘ محسوس ہوتا ہے کہ یہ روح کی تقویت کا سامان اور جسد حیوانی کی اس پر گرفت کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہے. چنانچہ یہ حدیث تو تحریر و تقریر میں عام بیان ہوتی ہے کہ ’’اَلصَّوْمُ جُنَّــۃٌ‘‘ (۳! اور اس کی تشریح پر خوب زور دیا جاتا ہے. لیکن یہ حدیث ِقدسی کہ ’’اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِی بِہٖ‘‘ (۴! اوّل تو کم ہی بیان ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو بس سرسری طور پر (۵.اسی طرح حج کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ اس کے ذریعے ’’خدا پرستی کے محور پر ایک عالمگیر برادری‘‘ کی تنظیم ہوتی ہے لیکن اس سے آگے اس کی روحانی برکات کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا.

اسلام کی یہ نئی تعبیر براہ راست نتیجہ ہے مغرب کے فلسفہ و فکر کے ہمہ گیر تسلط کا جس (۱) حدیث نبویؐ : الصَّلاۃ معراجُ المُؤمنین ’’نماز مؤمنوں کی معراج ہے!‘‘

(۲) حدیث نبویؐ : ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے!‘‘

(۳) حدیث نبویؐ : .’’روزہ ڈھال کی مانند ہے.‘‘

(۴) حدیث قدسی : ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا‘‘. یا ایک دوسری قرا ء ت کے مطابق! ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا ہوں.‘‘ 

(۵) واقعہ یہ ہے کہ اس حدیث قدسی کے صحیح مفہوم تک رسائی ایسے لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جن کے دل و دماغ پر مادیت کے پردے پڑے ہوئے ہیں. نے نقطۂ نظر کو ملحدانہ و مادہ پرستانہ بنا کر رکھ دیا. نتیجتاً روح اور اس کی حیاتِ باطنی خارج از بحث ہوگئی‘ جبکہ مادّہ اور حیاتِ دُنیوی ہی سارے غور و فکر کا موضوع اور سوچ بچار کا مرکز بنے. چنانچہ دین و مذہب کی بھی مادی تعبیر ہوئی اور کہنے میں تو اگرچہ یہ آیا کہ اسلام فلاحِ انسانی کا جامع پروگرام ہے جس میں فلاحِ اُخروی اور فلاح دُنیوی دونوں شامل ہیں‘ لیکن نگاہیں چونکہ فی الواقع صرف حیاتِ دُنیوی پر مرکوز ہیں‘ لہذا آخری تجزیے میں اسلام ایک ’’سیاسی و عمرانی نظام‘‘ (Politico-Social System) بن کر رہ گیا اور ’’الٰہیات‘‘ کی حیثیت ایک ’’پردے‘‘ سے زیادہ نہ رہی (۱. چنانچہ زندگی کا اصل مقصد یہ قرار پایا کہ اس نظام زندگی کو عملاً رائج و نافذ کیا جائے. رہی خدا کی معرفت و محبت اور اس کے سامنے تضرع و اِخبات جو ’’عبادت‘‘ کا اصل جوہر ہیں تو ان کی حیثیت بالکل ثانوی و اضافی ہو کر رہ گئی. (۲)
اس اعتبار سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں فی الواقع ’’مذہبی‘‘ سے زیادہ ’’سیاسی و عمرانی ‘‘اور ’’دینی‘‘ سے زیادہ ’’دُنیوی‘‘ ہیں. اور آخری تجزیے میں دوسری سیاسی و معاشی تحریکوں سے صرف اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ ان کے نزدیک سرمایہ دارانہ جمہوریت یا (۱) چنانچہ اس دور کے ایک بہت بڑے متکلم اور داعی ٔ اسلام کا یہ فقرہ ایک ثقہ راوی نے روایت کیا کہ ’’اسلام دراصل ایک سیاسی و عمرانی نظام ہے جس پر الٰہیات کا پردہ ڈال دیا گیا ہے‘‘. ؏ ’’چہ بے خبرز مقامِ محمدؐ عربی است!‘‘

(۲) یہ صورت حال بھی خاصی قدامت پسند ’اسلامی تحریکوں‘ کے یہاں ہے ورنہ زیادہ ’’ ترقی پسند‘‘ لوگوں نے تو فکر مغرب کی منطقی انتہا یعنی سوشلزم اور کمیونزم کے زیراثر اسلام کو سیاسی وعمرانی سے بھی آگے بڑھ کر محض ایک ’’معاشی‘‘ پروگرام بنا کر رکھ دیا ہے. یعنی ان کے نزدیک اسلام عبارت ہے محض ایک مخصوص ’’نظامِ ربوبیت‘‘ سے باقی رہے اعتقادات و ایمانیات تو ان کے ضمن میں جہاں سرسید مرحوم کی انتہا ہوئی تھی وہاں سے انہوں نے ابتدا کی اور جنت و دوزخ کی تعبیر اسی دنیا کے عیش و آرام اور کلفت و مشقت سے اور قیامت کی تعبیر ایٹمی دھماکوں سے کر کے سارا معاملہ ہی ختم کر دیا. تاہم باوجود اس کے کہ ہماری نگاہ میں یہ بھی اسلام کی مادّی تعبیر ہی کی ’’منطقی انتہا‘‘ ہے‘ مذہب کی یہ تعبیر ہمارا موضوع بحث نہیں اس لیے کہ چاہے اسے ’’قرآنی فکر‘‘ ہی کا نام کیوں نہ دیا گیا ہو اس کا خالص مادی اور خلاف قرآن ہونا اظہر من الشمس ہے اور ہم نے اس ’’فکر‘‘ کی جانب کچھ اشارے کیے بھی ہیں تو محض ضمنی طور پر تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ دین و مذہب کی مادّی تعبیر کا سلسلہ بالآخر یہاں تک جاتا ہے ؎
خشت اوّل چوں نہد معمار کج تاثریا مے رود دیوار کج!! اشتراکیت بہتر نظام ہائے حیات ہیں اور ان کے نزدیک اسلام انسانی زندگی کے جملہ مسائل کو بہتر طور پر حل کرتا ہے گو یادرحقیقت مذہب کی اصل اقدار کے احیاء کا کام تو ابھی شروع بھی نہیں ہوا ؎

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی!

یہی سبب ہے کہ یہ تحریکیں بے لنگر کے جہازوں کے مانند اِدھر اُدھر بھٹک رہی ہیں اور ان کا حال اکثر و بیشتر اس مسافر کا سا ہے جسے نہ تو منزل ہی کا پتہ رہا اور نہ یہ ہی یاد رہا کہ سفر شروع کہاں سے کیا تھا ؎

ہم تو فانی جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا