احیائے اسلام کی شرط لازم

’’تجدیدِِ ایمان‘‘

اسلام کی بنیاد ایمان پر ہے اور احیائے اسلام کا خواب ایمان کی عمومی تجدید کے بغیر کبھی شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکے گا. مسلمان ممالک کی سیاسی آزادی و خود اختیاری بھی یقینا بہت اہم ہے اور اس سے بھی ایک حد تک اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی راہ ہموار ہوئی ہے. اسی طرح اسلامی نظام زندگی کا تصور اور اس پر ایک بہتر نظامِ حیات ہونے کے اعتبار سے اعتماد بھی ایک حد تک مفید اور قابل قدر ہے اور جن تحریکوں کے ذریعے یہ پیدا ہوا یا ہو رہا ہے ان کی سعی و جہد بھی احیائے اسلام ہی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے‘ لیکن اصل اور اہم تر کام ابھی باقی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام کے تمام سوچنے سمجھنے والے لوگ اس امر کی جانب متوجہ ہوں اور جنہیں اس کی اہمیت کا احساس ہو جائے وہ اپنی تمام تر سعی و جہد کو اس پر مرکوز کر دیں کہ امت میں تجدید ایمان کی ایک عظیم تحریک برپا ہو اور ایمان نرے اقرار اور محض قال سے بڑھ کر ’’حال‘‘ کی صورت اختیار کرے. ایمان لامحالہ کچھ ماوراء الطبیعیاتی حقائق پر یقین کا نام ہے اور اس راہ کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان ’’اَن دیکھی‘‘ حقیقتوں پر دکھائی دینے والی چیزوں سے زیادہ یقین رکھے اور سر کے کانوں سے سنی جانے والی باتوں سے کہیں زیادہ اعتماد اُن باتوں پر کرے جو صرف دل کے کانوں سے سنی جا سکتی ہیں.

گویا ’’ایمان بالغیب‘‘ اس راہ کی شرطِ اولین ہے. اوراس کے لیے فکر و نظر کا یہ انقلاب اور نقطہ ٔ نظر اور طرز فکر کی یہ تبدیلی لازمی ولابدی ہے کہ کائنات غیر حقیقی اور محض وہمی و خیالی نظر آئے‘ لیکن ذاتِ خداوندی ایک زندہ جاوید حقیقت معلوم ہو. کائنات کا پورا سلسلہ نہ از خود قائم معلوم ہو نہ کچھ لگے بندھے قوانین کے تابع چلتا نظر آئے بلکہ ہر آن و ہر سمت ارادۂ خداوندی و مشیت ایزدی کی کارفرمائی محسوس و مشہود ہو جائے. مادہ حقیر و بے وقعت نظر آئے لیکن روح ایک حقیقت کبریٰ معلوم ہو. انسان کا اطلاق اس کے جسد حیوانی پر نہ ہو بلکہ اس روح ربانی پر کیا جائے جس کی بدولت وہ مسجود ملائک ہوا (۱-حیاتِ دنیوی فانی و ناپائیدار ہی نہیں بالکل غیر حقیقی و بے وقعت معلوم ہو اور حیاتِ اُخروی ابدی و سرمدی اور حقیقی و واقعی نظر آنے لگے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے مقابلے میں دنیا و مافیہا کی وقعت حدیث نبوی کے مطابق مچھر کے پر سے زیادہ محسوس نہ ہو. یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ جب تک امت کے ایک قابل ذکر اور مؤثر حصّے میں نقطہ ٔ نظر کی یہ تبدیلی واقعتا پیدا نہ ہو جائے ’’احیائے اسلام‘‘ کی آرزو ہر گز شرمندۂ تکمیل نہ ہو سکے گی.

عوام کے کشت قلوب میں ایمان کی تخم ریزی اور آبیاری کا مؤثر ترین ذریعہ ایسے اصحاب علم و عمل کی صحبت ہے جن کے قلوب و اذہان معرفت ربانی و نورِ ایمانی سے منور‘ سینے کبر ‘حسد ‘بغض اور ریا سے پاک اور زندگیاں حرص‘ طمع‘ لالچ اور حب دنیا سے خالی نظر آئیں. خلافت علی منہاج النبوۃ کے نظام کے درہم برہم ہو جانے کے بعد ایسے ہی نفوسِ قدسیہ (۱) آیہ ٔ قرآنی: فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہُ سٰجِدِیْنَ (الحجر:۲۹) ترجمہ: ’’جب میں اسے پوری طرح بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو گر جانا اس کے لیے سجدے میں.‘‘ کی تبلیغ و تعلیم‘ تلقین و نصیحت اور تربیت و صحبت کے ذریعے ایمان کی روشنی پھیلتی رہی ہے .اور اگرچہ جب سے مغرب کی الحاد و مادہ پرستی کے زہر سے مسموم ہواؤ ں کا زور ہوا ایمان و یقین کے یہ بازار بھی بہت حد تک سرد پڑ گئے تاہم ابھی ایسی شخصیتیں بالکل ناپید نہیں ہوئیں جن کے ’’ دِل روشن‘‘ نور یقین اور ’’نفس گرم‘‘ حرارتِ ایمانی سے معمور ہیں. اور اب ضرورت اس کی ہے کہ ایمان و یقین کی ایک عام رَو ایسی چلے کہ قریہ قریہ اور بستی بستی ایسے صاحب عزیمت لوگ موجود ہوں جن کی زندگیوں کا مقصد وحید خدا کی رضاجوئی اور اس کی خوشنودی کا حصول ہو اور جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ مبارک کے مطابق کہ لَاَنْ یَہْدِیَ بِکَ اللہُ رَجُلاً وَّاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ (۱خلق کی ہدایت و رہنمائی کو زندگی کا واحد لائحہ عمل قرار دے لیں اور اس کے سوا ان کی زندگی میں کوئی اور تمنا ‘ آرزو یا حوصلہ وامنگ باقی نہ رہے.

خوش قسمتی سے برصغیر ہندو پاک میں ایک وسیع پیمانے پر ایسی حرکت پیدا بھی ہوچکی ہے جس کے زیر اثر عوام میں ایمان کی روشنی پھیل رہی ہے اور کائنات سے زیادہ خالق کائنات ‘مادے سے زیادہ روح اور حیاتِ دنیوی سے زیادہ حیاتِ اخروی کی اہمیت کا احساس اُجاگر ہو رہا ہے. ہماری مراد تبلیغی جماعت سے ہے جسے بجا طور پر تحریک دیوبند کی ایک شاخ قرار دیا جا سکتا ہے اور جس کی تاسیس کچھ ایسے اصحابِ ایمان و یقین کے ہاتھوں ہوئی ہے کہ آج ایک تہائی صدی (۲سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اس کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس کے باوجود کہ اس کے طریق کارسے ہم کلیتہً اتفاق نہیں کرتے‘ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس کے زیر اثر لوگوں کے طرزِ فکر اور نقطۂ نظر میں ایک ایسی عمومی تبدیلی واقعتا پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اصل حیثیت کائنات کی نہیں خالق کائنات کی ہے اور اصل اہمیت اسباب کی نہیں مسبب الاسباب کی ہے. بھوک غذا سے نہیں

 (۱) حدیث نبوی : ’’اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے کسی ایک انسان کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے.‘‘

(۲) اب اس تحریک کی عمر بھی تین چوتھائی صدی سے تجاوز کر چکی ہے.! (۲۰۱۰نہیں حکم خداوندی سے مٹتی ہے اور پیاس پانی سے نہیں اذن باری تعالیٰ سے بجھتی ہے‘ دین کے چھوٹے سے چھوٹے احکام انہیں کسی منطقی استدلال کی بنا پر یا کسی نظامِ زندگی کے اجزاء یا اس کو قائم کرنے کے ذرائع کی حیثیت سے نہیں بلکہ فی نفسہٖ خیر نظر آنے لگتے ہیں اور نبی اکرم  کی چھوٹی سے چھوٹی سنتیں بجائے خود نورانی معلوم ہونے لگتی ہیں اور زندگی اور اس کے لوازمات کے باب میں کم از کم پر قناعت کر کے وہ اپنے اوقات کا معتدبہ حصہ ایک مخصوص طریق پر تبلیغ و اشاعت دین کے لیے وقف کر دیتے ہیں.

لیکن چونکہ اس تحریک میں اصل تخاطب عقل سے نہیں جذبات سے ہے اور اس کی اصل اساس علم پر نہیں عمل پر ہے‘ لہذا اس کے اثرات محدود ہیں اور معاشرے کے وہ طبقے جن کے یہاں جذبات پر عقل اور عمل پر علم کو اوّلیت حاصل ہے‘ اس سے اثر پذیر نہیں ہوتے. ایسے لوگ اپنی ذہنی ساخت کی بنا پر مجبور ہوتے ہیں کہ عقل کی جملہ وادیاں طے کر کے عشق کی وادی میں قدم رکھیں اور خرد کی تمام گتھیاں سلجھانے کے بعد صاحب ِ جنون ہوں. پھر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسی قسم کے لوگ ہر دور اور ہر معاشرے کی وہ ذہین اقلیت (intellectual minority) ہوتے ہیں جو از خود معاشرے کی رہنمائی کے منصب پر فائز اور اجتماعیت کی پوری باگ ڈور پر قابض ہوتے ہیں. لہذا ان کے نقطہ ٔنظر اور طرز فکر کی تبدیلی اور ان کے فکر و نظر کے انقلاب کو اولین اہمیت حاصل ہے اور اگر خدانخواستہ ایمان ان لوگوں کے دلوں میں جاگزیں نہ ہو سکا اور انہیں جہالت و جاہلیت کی ظلمتوں سے نکالا نہ جا سکا تو صرف عوام الناس کے قلوب و اَذہان کی تبدیلی سے کسی مؤثر اور پائیدار تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی.

کرنے کا اصل کام

بنا بریں وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ ایک زبردست علمی تحریک ایسی اٹھے جو سوسائٹی کے اعلیٰ ترین طبقات اور معاشرے کے ذہین ترین عناصر کے فکر و نظر میں انقلاب برپا کر دے - اور انہیں مادیت و الحاد کے اندھیروں سے نکال کر ایمان و یقین کی روشنی میں لے آئے اور خدا پرستی و خودشناسی کی دولت سے مالامال کر دے. خالص علمی سطح پر اسلامی اعتقادات کے مدلل اثبات اور الحاد و مادہ پرستی کے پُر زور ابطال کے بغیر اس مہم کا سر ہونا محال ہے. ساتھ ہی یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ چونکہ موجودہ دور میں فاصلے بے معنی ہو کررہ گئے ہیں اور پوری نوعِ انسانی ایک کنبے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے. لہذا علمی سطح کا تعین کسی ایک ملک کے اعتبار سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے اعلیٰ ترین معیار کے مطابق کرنا ہو گا اور اگرچہ یہ بالکل صحیح ہے کہ یہ کام انتہائی کٹھن اور سخت محنت طلب ہے ‘لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس کے بغیر اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے خواب دیکھنا جنت الحمقاء میں رہنے کے مترادف ہے.

پیش نظر علمی تحریک کے لیے سب سے پہلے ایسے ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کو تلاش کرنا ہوگا جن میں علم کی ایک شدید پیاس فطری طور پر موجود ہو‘ جن کے قلوب مضطرب اور روحیں بے چین ہوں‘ جن کو خود اپنے اندر یہ احساس موجود نظر آئے کہ اصل حقیقت حواس کی سرحدوں سے بہت پرے واقع ہے اور جن میں حقیقت کی تلاش و دریافت کا داعیہ اتنا شدید ہو جائے کہ وہ اس کے لیے زندگیاں وقف کرنے کو تیار ہوں اور آرام و آسائش کے حصول اور خوشنما مستقبل (careers) کی تعمیر سے یکسر بے نیاز ہو جائیں. 

ایسے نوجوانوں کو اولاً انسان کی آج تک کی سوچ بچار کا مکمل جائزہ لینا ہوگا‘ اور اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ انسانی فکر کی پوری تاریخ کا گہرا مطالعہ کریں. اس اعتبار سے منطق‘ ماوراء الطبیعیات ‘ نفسیات‘ اخلاقیات اور روحانیات ان کے مطالعہ اور غور و فکر کا اصل میدان ہوں گے. (اگرچہ ضمنی طور پر عمرانیات اور طبیعیات کی ضروری معلومات کی تحصیل بھی ناگزیر ہوگی) فکر انسانی کے اس گہرے اور تحقیقی مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ وحی آسمانی اور اس کے آخری جامع اور مکمل ایڈیشن یعنی قرآن حکیم کا گہرا مطالعہ حقیقت کی تلاش اور حقیقت نفس الامری کی دریافت کے نقطۂ نگاہ سے کریں.

پھر اگر ایسا ہو کہ قرآن کی روشنی ان پر واضح ہو جائے ‘اس کا پیغام انہیں اپنی فطرت کی آواز معلوم ہو‘ اس کے نور سے ان کے قلوب و اذہان منور ہو جائیں‘ آفاق و انفس کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں تمام بنیادی سوالوں کا تشفی بخش جواب انہیں مل جائے اور انبساطِ معرفت سے ان کے نفوس میں امن اور سکون و اطمینان کی کیفیت پیدا ہو جائے تو اسی کا نام ایمان ہے.

پھر یہی ہوں گے جنہیں ’’رسوخ فی العلم‘‘ حاصل ہوگا. جن کا علم ذہنی و اخلاقی آوارگی کے بجائے تقویٰ و خشیت الٰہی پر منتج ہوگا. جن کی شخصیتیں اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُا (۱کی مجسم تفسیر اور؏ ’’قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن‘‘ کی عملی تصویر ہوں گی. اس لیے کہ قرآن کا ’’مغز‘‘ دراصل یہی ’علم حقیقت‘ ہے جس کا دوسرا نام ایمان ہے. قانون و شریعت کی اہمیت بجائے خود اگرچہ نہایت عظیم ہے لیکن اس کے مقابلے میں ان کی حیثیت واقعتہً ’’استخوان‘‘ کی ہے (۲اور حقیقت یہ ہے کہ اس کیفیت ایمانی کی تحصیل کے بغیر قرآن کے بیان کردہ قانون و شریعت پر غور و فکر بالکل بے کار ہے. یہی رمز ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول میں بیان ہوا کہ تَعَلَّمْنَا الْاِیْمَانَ ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ. (۳

مغرب کے فلسفہ و فکر کے مؤثر ابطال اور اس کی تہذیب و تمدن کے واقعی استیصال کا کٹھن کام صرف ان لوگوں کے بس کا ہے جو ’’علم حقیقت‘‘ کے ان چشموں سے اچھی طرح سیراب (۱) سورۂ فاطر آیت۲۸ : ’’اللہ کی خشیت اس کے اہل علم بندوں ہی کے دلوں میں گھر کرتی ہے!‘‘

(۲) ماز قرآں مغز ہا برداشتیم . استخواں پیش سگاں انداختیم (رومیؔ)

(۳) ترجمہ : ’’ہم نے پہلے ایمان سیکھا اور پھر قرآن!‘‘ ہوں جو قرآن حکیم کی آیاتِ بینات کی صورت میں ر واں ہیں. ان ہی کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ آج کے فلاسفہ کے لیے ایک نئی ’’تہافت‘‘ (۱)تصنیف کر سکیں اور آج کے منطقیین پر از سر نو ’’ردّ‘‘ (۲کر سکیں اور فی الجملہ الحاد و مادہ پرستی کے اس سیلاب کا رُخ پھیر دیں جو تقریباً دو صدیوں سے ذہن انسانی کو بہائے لیے چلا جا رہا ہے.
اس تخریب کے ساتھ انہیں جدید علم الکلام کی تاسیس کا ’’مثبت‘‘ کام بھی کرنا ہوگا تا کہ ریاضی‘ طبیعیات‘ فلکیات‘ حیاتیات اور نفسیات کے میدان میں جن حقائق کی دریافت آج تک ہوئی ہے (۳اور جو اس حقیقت ِ کلی کی ادنیٰ جزئیات ہیں جن کا مظہر اَتم ایمان ہے‘ انہیں اسلامی عقائد کے نظام میں اپنے اپنے مقام پر صحیح طور سے فٹ کیا جا سکے. آج سے پینتیس چالیس سال قبل علامہ اقبال مرحوم نے ’’الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ کے سلسلے میں جو کام کیا تھا اس کا وہ حصہ تو اگرچہ بہت محل نظر ہے جو شریعت و قانون اور اجماع و اجتہاد سے بحث کرتا ہے (اور جو فی الواقع ’’الٰہیات‘‘ سے براہ راست متعلق بھی نہیں ہے) تاہم اپنے اصل موضوع کے اعتبار سے علامہ مرحوم کی یہ کوشش بڑی فکر انگیز تھی اور جیساکہ خود علامہ نے کتاب کے دیباچے میں فرمایا تھا کہ ’’ہو سکتا ہے کہ جیسے جیسے علم آگے بڑھے اور فکر کی نئی راہیں کھلیں‘ زیر نظر کتاب میں جو خیالات بیان ہوئے ہیں ان کے علاوہ بلکہ ان سے صحیح تر خیالات ظاہر ہوں. ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم انسانی فکر کے ارتقاء کا ایک آزاد تنقیدی نقطۂ نگاہ سے مسلسل جائزہ لیتے رہیں…‘‘ اگر انہی خطوط پر کام جاری رہتا اور کچھ باہمت لوگ اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے تو ایک بہت وقیع اور قابل قدر کام ہو جاتا‘ لیکن افسوس کہ خود علامہ مرحوم کے حلقہ اثر میں سے بھی کسی نے اس میدان کو اپنی جولانی ٔطبع کے لیے منتخب نہیں کیا. (۱) تہافت الفلاسہ . تالیف امام غزالی ؒ 

(۲
الرّد علی المنطقیّین . تالیف امام ابن تیمیہؒ 

(۳) واضح رہے کہ اس ضمن میں ’’حقائق‘‘ اور ’’نظریات‘‘ کے مابین فرق و امتیاز کو بنیادی اہمیت حاصل ہے. بہرحال جب تک اس میدان میں واقعی قدرو قیمت رکھنے والا کام ایک قابل ذکر حد تک نہیں ہو جاتا یہ امید کہ معاشرے کے ذہین طبقات کو مذہب کی طرف راغب کیا جا سکے گا‘ محض سراب کا درجہ رکھتی ہے.

الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ کے بعد دوسرا اہم کام یہ ہے کہ حیاتِ دُنیوی کے مختلف پہلوؤ ں یعنی سیاست و قانون اور معاشرت و معیشت کے باب میں اسلام کی ہدایت و رہنمائی کو مدلل و مفصل واضح کیا جائے.اس ضمن میں جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ پچھلے پچاس ساٹھ سال کے عرصے میں خاصا کام مصر اور برصغیر ہندو پاک میں ہوا ہے. خصوصاً جماعت اسلامی اور الاخوان المسلمون نے ’’اسلامی نظام حیات‘‘ اور ’’عدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام‘‘ کو تصنیف و تالیف کا مرکزی موضوع بنایا ہے‘ تاہم اس سارے کام کو بس ایک اچھی ابتدا قرار دیا جا سکتا ہے‘ اور اِدھر کچھ عرصہ سے مکھی پر مکھی مار دینے اور تقریباً ایک سی سطح اور ایک سے معیار کی تالیفات مختلف ناموں سے شائع کر دینے کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اس نے بہت حد تک اس اساسی کام کی اہمیت بھی ختم کر دی ہے جو بجائے خود خاصا قابل قدر تھا. اس ضمن میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ نیم خواندہ یا بقول مولانا اصلاحی ’’پڑھے کم لکھے زیادہ‘‘ لوگوں کی تصنیفات و تالیفات کی ایک خاص تکنیک کے ذریعے ایک مخصوص حلقے میں فروخت سے بعض لوگوں کا معاشی مسئلہ تو ضرور حل ہو سکتا ہے‘ دین کی کوئی مثبت اور پائیدار خدمت ممکن نہیں ہے. آج کی دنیا میں خصوصاً اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں رکھنے والے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ مسلمہ علمی قابلیت رکھنے والے لوگوں کے سوا کسی مؤلف و مصنف کی جانب التفات کر سکیں. لہذا لازم ہے کہ جو کام بھی کیا جائے وہ معیاری ہو اور کمیت سے زیادہ کیفیت پیش‘نظر رہے. 
اس کام کے لیے بھی ظاہر ہے کہ ایک طرف موجودہ دنیا کے مسائل و معاملات کا صحیح فہم اور عمرانیات کے مختلف میدانوں میں جدید رجحانات کا براہِ راست علم ضروری ہے‘ اور دوسری طرف قرآن و سنت میں گہری ممارست لازمی ہے اور جب تک یہ صورت نہ ہو کہ ان دونوں اطراف کا مطالعہ یکساں دقت نظر کے ساتھ کیا جائے معیاری نتائج کی توقع عبث ہے.

عملی اقدامات

متذکرہ بالاعلمی تحریک کے اجراء کے لیے فوری طور پر دو چیزیں لازمی ہیں.

ایک یہ کہ عمومی دعوت و تبلیغ کا ایک ایسا ادارہ قائم ہو جو ایک طرف تو عوام کو تجدید ایمان اور اصلاح اعمال کی دعوت دے اور جو لوگ اس کی جانب متوجہ ہوں ان کی ذہنی و فکری اور اخلاقی و عملی تربیت کا بندوبست کرے (۱اور ساتھ ہی اس علمی کام کی اہمیت ان لوگوں پر واضح کرے جو خلوص اور دردمندی کے ساتھ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے آرزو مند ہیں اور دوسری طرف ایسے ذہین نوجوان تلاش کرے جو پیش نظر علمی کام کے لیے زندگیاں وقف کرنے کو تیار ہوں. آج کے دور میں جبکہ مادیت اور دنیا پرستی کا قلوب و اذہان پر مکمل تسلط ہے اور کچھ تو فی الواقع طلب معاش کا مسئلہ اتنا کٹھن ہو گیا ہے کہ اکثر لوگوں کو اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں اسی کے حل پر مرکوز کر دینی پڑتی ہیں.پھر معاشرے کا عام رجحان یہ ہوگیا ہے کہ جو ذرا اس سطح سے بلند ہوتا ہے اس پر معیار زندگی کو بلند تر کرنے کی دھن سوار ہو جاتی ہے. اس قسم کے نوجوانوں کا ملنا بظاہر محال نظر آتا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا سعید روحوں سے کبھی خالی نہیں ہوئی‘ اور اگر کچھ مخلص و صاحب عزیمت لوگ ذہنی یکسوئی کے ساتھ اس کام کا بیڑا اٹھا لیں تو ان شاء اللہ اسی معاشرے میں بہت سے ذہین اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک نوجوان ایسے مل جائیں گے جو نبی اکرم کے اس قولِ مبارک کو کہ خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ (۲اپنا لائحہ عمل بنا کر علم قرآن کی تحصیل و اشاعت کے لیے زندگی وقف کر دیں (۱) الحمد للہ کہ ان مقاصد کے لیے۱۹۷۵ء میں ’’تنظیم اسلامی‘‘ کا قیام عمل میں آ گیا.

(۲) حدیث نبویؐ : ’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھتے اور سکھاتے ہیں!‘‘ یہ بھی واضح رہے کہ اصل ضرورت صرف اس کی ہوتی ہے کہ کسی جذبہ و خیال کے تحت انسان میں داخلی طور پر ایک داعیہ بیدار ہو جائے‘ پھر یہ داعیہ کام کی راہیں خود پیدا کر لیتا ہے اور تمام موانع و مشکلات سے خود نبٹ لیتا ہے. لہذا ضرورت اس کی ہے کہ اس خیال کو عام اور اس کی ضرورت کے احساس کو اُجاگر کیا جائے‘ پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس اعلیٰ و ارفع نصب العین کے لیے کام کرنے والے دستیاب نہ ہو سکیں.

دوسرے یہ کہ ایک قرآن اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جائے جو ایک طرف علومِ قرآنی کی عمومی نشر و اشاعت کا بندوبست کرے تا کہ قرآن کا نور عام ہو اور اس کی عظمت لوگوں پر آشکارا ہو اور دوسری طرف ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے جو بیک وقت علوم جدیدہ سے بھی بہرہ ور ہوں اور قرآن کے علم و حکمت سے بھی براہ راست آگاہ ہوں تاکہ متذکرہ بالا علمی کاموں کے لیے راہ ہموار ہو سکے .

علومِ قرآنی کی عمومی نشر و اشاعت کا اہم ترین نتیجہ یہ نکلے گا کہ عام لوگوں کی توجہات قرآن حکیم کی طرف مرکوز ہوں گی‘ ذہنوں پر اس کی عظمت کا نقش قائم ہوگا‘ دلوں میں اس کی محبت جاگزیں ہوگی اور اس کی جانب ایک عام التفات پیدا ہوگا. نتیجتاً بہت سے ذہین اور اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والے نوجوان بھی اس سے’متعارف‘ ہوں گے اور کوئی وجہ نہیں کہ ان میں سے ایک اچھی بھلی تعداد ایسے نوجوانوں کی نہ نکل آئے جو اس کی قدروقیمت سے اس درجہ آگاہ ہو جائیں کہ پوری زندگی کو اس کے علم و حکمت کی تحصیل اور نشر و اشاعت کے لیے وقف کر دیں. ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اس اکیڈمی کا اصل کام ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ان کو پختہ بنیادوں پر عربی کی تعلیم دی جائے یہاں تک کہ ان میں زبان کا گہرا فہم اور اس کے ادب کا ستھرا ذوق پیدا ہو جائے. پھر انہیں پورا قرآن حکیم سبقاً سبقاً پڑھایا جائے اور ساتھ ہی حدیث نبویؐ ، فقہ اور اصولِ فقہ کی تعلیم دی جائے پھر ان میں سے جو لوگ فلسفہ و الٰہیات کا ذوق رکھنے والے ہوں گے ان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ قرآن حکیم کی روشنی میں جدید فلسفیانہ رجحانات پر مدلل تنقید کریں اور جدید علم الکلام کی بنیاد رکھیں. اور جو عمرانیات کے مختلف شعبوں کا ذوق رکھنے والے ہوں گے ان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے اسلام کی رہنمائی و ہدایت کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کر سکیں.