فرمودات شیخ طریقت حضرت مولانا محمد یوسف رحمۃ اللہ علیہ

دیکھو میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے. ساری رات مجھے نیند نہیں آئی اس کے باوجود ضروری سمجھ کے بول رہا ہوں‘ جو سمجھ کے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے چمکائے گا‘ ورنہ اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارے گا.

یہ امت بڑی مشقّت سے بنی ہے. اس کو اُمّت بنانے میں حضور  اور صحابہ کرامؓ نے بڑی مشقتیں اُٹھائی ہیں اور اُن کے دشمن یہود و نصاریٰ نے ہمیشہ اس کی کوششیں کی ہیں کہ مسلمان ایک اُمّت نہ رہیں بلکہ ٹکڑے ٹکڑے ہوں‘ اب مسلمان اپنا امت پنا (یعنی امت ہونے کی صفت) کھو چکے ہیں. جب تک یہ امت بنے ہوئے تھے‘ چند لاکھ ساری دنیا پر بھاری تھے. ایک پکا مکان نہیں تھا‘ مسجد تک پکی نہیں تھی. مسجد میں چراغ تک نہیں جلتا تھا‘ مسجد نبویؐ میں ہجرت کے نویں سال چراغ جلا ہے. سب سے پہلا چراغ جلانے والے تمیم دارمیؓ ہیں‘ وہ ۹ ھ میں اسلام لائے ہیں اور ۹ھ تک قریب قریب سارا عرب اسلام میں داخل ہوچکا تھا. مختلف قومیں‘ مختلف زبانیں‘ مختلف قبیلے ایک امت بن چکے تھے تو جب یہ سب کچھ ہو گیا اس وقت مسجد نبویؐ میں چراغ جلا‘ لیکن حضورؓ جو نورِ ہدایت لے کر تشریف لائے تھے وہ پورے عرب میں بلکہ اس کے باہر بھی پھیل چکا تھا اور امت بن چکی تھی. پھر یہ امت دنیا میں اٹھی. جدھر کو نکلی ملک کے ملک پیروں میں گرے. یہ امت اس طرح بنی تھی کہ ان کا کوئی آدمی اپنے خاندان‘ اپنی برادری‘ اپنی پارٹی‘ اپنی قوم‘ اپنے وطن‘ اپنی زبان کا حامی نہ تھا. مال و جائیداد اور بیوی بچوں کی طرف دیکھنے والا بھی نہ تھا. بلکہ ہر آدمی صرف یہ دیکھتا تھا کہ اللہ اور رسولؐ کیا فرماتے ہیں. امت جب ہی بنتی ہے جب اللہ اور رسولؐ کے حکم کے مقابلے میں سارے رشتے اور تعلقات کٹ جائیں. جب مسلمان ایک امت تھے تو ایک مسلمان کے کہیں قتل ہو جانے سے ساری امت ہِل جاتی تھی. اب ہزاروں لاکھوں گلے کٹتے ہیں اور کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی.

امت کسی ایک قوم اور ایک علاقے کے رہنے والوں کا نام نہیں ہے بلکہ سینکڑوں ہزاروں قوموں اور علاقوں سے جُڑ کر امت بنتی ہے. جو کسی ایک قوم اور ایک علاقے کو اپنا سمجھتا ہے اور دوسروں کو غیر سمجھتا ہے وہ امت کو ذبح کرتا ہے اور اُس کے ٹکڑے کرتا ہے اور حضور اور صحابہؓ کی محنتوں پر پانی پھیرتا ہے. اُمّت کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر پہلے خود ہم نے ذبح کیا ہے. یہود و نصاریٰ نے اس کے بعد کٹی کٹائی امت کو کاٹا ہے. اگر مسلمان اب پھر امت بن جائیں تو دنیا کی ساری طاقتیں بھی مل کر اُن کے بال بیکا نہیں کر سکیں گی. ایٹم بم اور راکٹ ان کو ختم نہیں کر سکیں گے‘ لیکن اگر وہ قومی اور علاقائی عصبیتوں کی وجہ سے باہم امت کے ٹکڑے کرتے رہے تو خدا کی قسم تمہارے ہتھیار اور تمہاری فوجیں تم کو نہیں بچا سکیں گی.

مسلمان ساری دنیا میں اس لیے پِٹ رہا اور مر رہا ہے کہ اُس نے امت پنے کو ختم کر کے حضور کی قربانی پر پانی پھیر دیا ہے. میں یہ دل کے غم کی باتیں کہہ رہا ہوں. ساری تباہی اس وجہ سے ہے کہ اُمّت اُمّت نہ رہی بلکہ یہ بھی بھول گئے کہ امت کیا ہے اور حضور نے کس طرح اُمت بنائی تھی؟ 

امت ہونے کے لیے اور مسلمانوں کے ساتھ خدائی مدد ہونے کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ مسلمانوں میں نماز ہو‘ ذکر ہو‘ مدرسہ ہو‘ مدرسہ کی تعلیم ہو‘ حضرت علیؓ کا قاتل ابن ملجم ایسا نمازی اور ذاکر تھا کہ جب اس کو قتل کرتے وقت غصہ میں بھرے لوگوں نے اس کی زبان کاٹنی چاہی تو اُس نے کہا سب کچھ کر لو‘ لیکن میری زبان مت کاٹو تاکہ زندگی کے آخری سانس تک میں اس سے اللہ کا ذکر کرتا رہوں . اس کے باوجود حضور نے فرمایا کہ علیؓ کا قاتل میری امت کا سب سے زیادہ شقی اور بدبخت ترین آدمی ہوگا اور مدرسہ کی تعلیم تو ابوالفضل اور فیضی نے بھی حاصل کی تھی اور ایسی کی تھی کہ قرآن پاک کی تفسیر بے نقط لکھ دی حالانکہ انہوں نے ہی اکبر کو گمراہ کر کے دین کو برباد کیا تھا. تو جو باتیں ابن ملجم اور ابوالفضل اور فیضی میں تھیں وہ امت بننے کے لیے اور خدا کی غیبی نصرت کے لیے کیسے کافی ہو سکتی ہیں؟
حضرت شاہ اسمٰعیل شہیدؒ اور حضرت شاہ احمد شہیدؒ اور اُن کے ساتھی دینداری کے لحاظ سے بہترین مجموعہ تھے. وہ جب سرحدی علاقے میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں نے ان کو اپنا بڑا بنا لیا تو وہاں کے کچھ مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات آگئی کہ یہ دوسرے علاقے کے لوگ‘ ان کی بات یہاں کیوں چلے. اُنہوں نے ان کے خلاف بغاوت کرائی. ان کے کتنے ہی ساتھی شہید کر دئیے گئے. اور اس طرح خود مسلمانوں نے‘ علاقائی بنیاد پر امت پنے کو توڑ دیا. اللہ نے اِس کی سزا میں انگریزوں کو مسلط کیا. یہ خدا کا عذاب تھا.

یاد رکھو‘ میری قوم اور میرا علاقہ اور میری برادری یہ سب امت کو توڑنے والی باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کو یہ باتیں اتنی ناپسند ہیں کہ حضرت سعد ؓ بن عبادہ جیسے بڑے صحابی سے اس بارے میں جو غلطی ہوئی ( جو اگر دَب نہ گئی ہوتی تو اس کے نتیجے میں انصار و مہاجرین میں تفریق ہو جاتی) اس کا نتیجہ حضرت سعدؓ کو دنیا ہی میں بھگتنا پڑا. روایات میں ہے کہ ان کو جنّات نے قتل کر دیا اور مدینہ میں یہ آواز سنائی دی اور بولنے والا کوئی نظر نہ آیا ؎

قتلنا سیّد الخزرج سعد بن عبادہ
رمیناہ بسھم فلم یخط فوادہ

(ہم نے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو ہلاک کر دیا. ہم نے اس کو تیر کا نشانہ بنایا جو ٹھیک اس کے دل پر لگا) اِس واقعہ نے ثابت کر دیا اور سبق دیا کہ اچھے سے اچھا ـآدمی بھی اگر قومیت یا علاقے کی بنیاد پر امت کو توڑے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کر رکھ دے گا. 

امت جب بنے گی جب امت کے سب طبقے بلا تفریق اُس کام میں لگ جائیں گے جو حضور دے کے گئے ہیں اور یاد رکھو امت پنے کو توڑنے والی چیزیں معاشرت اور معاملات کی خرابیاں ہیں. ایک فرد یا طبقہ جب دوسرے کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کرتا ہے اور اس کا پورا حق اس کو نہیں دیتا یا اس کو تکلیف دیتا ہے یا اس کی تحقیر اور بے عزتی کرتا ہے تو تفریق پیدا ہوتی ہے اور امت پنا ٹوٹتا ہے‘ اس لیے میں کہتا ہوں کہ صرف کلمہ اور تسبیح سے امت نہیں بنے گی بلکہ جب بنے گی جب دوسروں کے لیے اپنا حق اور اپنا مفاد قربان کیا جائے گا. حضور  اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے اپنا سب کچھ قربان کر کے اور اپنے پر تکلیفیں جھیل کے اِس امت کو امت بنایا تھا. حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک دن لاکھوں کروڑوں روپے آئے. ان کی تقسیم کا مشورہ ہوا. اُس وقت امت بنی ہوئی تھی. یہ مشورہ کرنے والے کسی ایک ہی قبیلے یا ایک ہی طبقے کے نہ تھے بلکہ مختلف طبقوں اور قبیلوں کے وہ لوگ تھے جو حضور  کی صحبت کے اعتبار سے بڑے اور خواص سمجھے جاتے تھے. انہوں نے مشورے سے باہم طے کیا کہ تقسیم اس طرح ہو کہ سب سے زیادہ حضورؐ کے قبیلے والوں کو دیا جائے‘ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے قبیلے والوں کو ‘ پھر حضرت عمرؓ کے قبیلے والوں کو .

اس طرح حضرت عمرؓ کے اقارب تیسرے نمبر پر آئے. جب یہ بات حضرت عمرؓ کے سامنے رکھی گئی تو آپ نے اس مشورے کو قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ اس امت کو جو کچھ ملا ہے اور مل رہا ہے حضور  کی وجہ سے اور آپؐ کے صدقہ میں مل رہا ہے‘ اس لیے بس حضورؐ کے تعلق کو ہی معیار بنایا جائے. جو نسب میں آپ کے زیادہ قریب ہوں ان کو زیادہ دیا جائے‘ جو دوم ‘ سوم ‘ چہارم نمبر ہوں ان کو اسی نمبر پر رکھا جائے. اس طرح سب سے زیادہ بنی ہاشم کو دیا جائے‘ اس کے بعد بنی عبد مناف کو‘ پھر قصیّ کی اولاد کو‘ پھر کلاب کو‘ پھر کعب کو‘ پھر مرّہ کی اولاد کو. اس حساب سے حضرت عمرؓ کا قبیلہ بہت پیچھے پڑ جاتا تھا اور اس کا حصہ بہت کم ہو جاتا تھا‘ مگر حضرت عمرؓ نے یہی فیصلہ کیا اور مال کی تقسیم میں اپنے قبیلے کو اتنا پیچھے ڈال دیا. اس طرح بنی تھی یہ اُمّت.

اُمّت بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سب کی یہ کوشش ہو کہ آپس میں جوڑ ہو‘ پُھوٹ نہ پڑے. حضورؐ کی ایک حدیث کا مضمون ہے کہ قیامت میں ایک آدمی لایا جائے گا جس نے دنیا میں نماز‘ روزہ‘ حج‘ تبلیغ‘ سب کچھ کیا ہوگا‘ مگر وہ عذاب میں ڈالا جائے گا کیونکہ اس کی کسی بات نے اُمّت میں تفریق ڈالی ہو گی. اُس سے کہا جائے گاکہ پہلے اپنے اس ایک لفظ کی سزا بھگت لے‘ جس کی وجہ سے اُمت کو نقصان پہنچا اور ایک دوسرا آدمی ہو گا جس کے پاس نماز‘ روزہ‘ حج وغیرہ کی بہت کمی ہو گی اور وہ خد اکے عذاب سے بہت ڈرتا ہو گا مگر اس کو بہت ثواب سے نوازا جائے گا. وہ خود پوچھے گا کہ یہ کرم میرے کس عمل کی وجہ سے ہے. اس کو بتایا جائے گا کہ تُو نے فلاں موقع پر ایک بات کہی تھی جس سے اُمّت میں پیدا ہونے والا ایک فساد رُک گیا اور بجائے توڑ کے جوڑ پیدا ہو گیا. یہ سب تیرے اُسی لفظ کا صِلہ اور ثواب ہے. 
اُمّت کے بنانے اور بگاڑنے ‘ توڑنے اور جوڑنے میں سب سے زیادہ دخل زبان کا ہوتا ہے. یہ زبان دلوں کو جوڑتی بھی ہے اور پھاڑتی بھی ہے. زبان سے ایک بات غلط اور فساد کی نکل جاتی ہے اور اس پر لاٹھی چل جاتی ہے اور پُورا فساد کھڑا ہو جاتا ہے اور ایک ہی بات جوڑ پیدا کر دیتی ہے اور پھٹے ہوئے دلوں کو ملا دیتی ہے. اس لیے سب سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ زبان پر قابو ہو اور یہ جب ہو سکتا ہے کہ بندہ ہر وقت اس کا خیال رکھے کہ خدا ہر وقت اور ہر جگہ اس کے ساتھ ہے اور اس کی ہر بات کو سُن رہا ہے.

مدینہ میں انصار کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج. ان میں پشتوں سے عداوت اور لڑائی چلی آرہی تھی. حضور  جب ہجرت فرما کر مدینہ پہنچے اور انصار کو اسلام کی توفیق ملی تو حضورؐ کی‘ اسلام کی برکت سے ان کی پشتوں کی لڑائیاں ختم ہو گئیں اور اوس و خزرج شیر و شکر ہو گئے. یہ دیکھ کر یہودیوں نے اسکیم بنائی کہ کس طرح ان کو پھر سے لڑایا جائے. ایک مجلس میں جس میں قبیلوں کے آدمی موجود تھے‘ ایک سازشی آدمی نے اُن کی پرانی لڑائیوں سے متعلق کچھ شعر پڑھ کر اشتعال پیدا کر دیا. پہلے تو زبانیں ایک دوسرے کے خلاف چلیں‘ پھر دونوں طرف سے ہتھیار نکل آئے. حضورؐ سے کسی نے جا کر کہا. آپ  فوراً تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے ہوتے ہوئے تم آپس میں خون خرابہ کرو گے. آپؐ نے بہت مختصر مگر درد سے بھرا ہوا خطبہ دیا. دونوں فریقوں نے محسوس کر لیا کہ ہمیں شیطان نے ورغلایا‘ دونوں روئے اور گلے ملے اور یہ آیتیں نازل ہوئیں:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ’’اے مسلمانو! خدا سے ڈرو جیسا کہ اُس سے ڈرنا چاہئے اور مرتے دم تک پُورے پُورے مسلم اور خدا کے فرماں بردار بندے بنے رہو.‘‘ جب آدمی ہر وقت خداکا خیال رکھے گا‘ اُس کے قہر و عذاب سے ڈرتا رہے گا اور ہر دم اُس کی تابعداری کرے گا تو شیطان بھی اُسے نہیں بہکا سکے گااور اُمت پھوٹ سے اور ساری خرابیوں سے محفوظ رہے گی. 

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا - اور اللہ کی رسی کو یعنی اس کی کتابِ پاک اور اُس کے دین کو سب مل کر مضبوطی کے ساتھ تھامے رہو.یعنی پوری اجتماعیت کے ساتھ اور اُمت پنے کی صفت کے ساتھ سب مل جُل کر دین کی رسی کو تھامے رہو اور اُس میں لگے رہو اور قوم کی بنیاد پر یا علاقے کی بنیاد پر یا کسی اور بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو اور اللہ کے اُس احسان کو نہ بھولو کہ اُس نے تمہارے دلوں کی وہ عداوت اور دشمنی ختم کر کے جو پشتوں سے تم میں چلی آرہی تھی‘ تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی اور تمہیں باہم بھائی بھائی بنا دیا اور تم آپس میں لڑتے وقت دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے‘ بس گرنے ہی والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو تھام لیا اور دوزخ سے بچا لیا.

شیطان تمہارے ساتھ ہے. اس کا علاج یہ ہے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جس کا موضوع ہی بھلائی اور نیکی کی طرف بلانا اور ہر برائی اور ہر فساد سے روکنا ہو - وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ ’’امت میں ایک گروہ وہ ہو جس کا کام اور موضوع ہی یہ ہو کہ وہ دین کی طرف اور ہر قسم کے خیر کی طرف بلائے. ایمان کے لیے اور خیر اور نیکی کے راستے پر چلنے کے لیے محنت کرتا رہے. نمازوں پر محنت کرے‘ ذکر پر محنت کرے. برائیوں اور معصیتوں سے بچانے کے لیے محنت کرے اور ان محنتوں کی وجہ سے اُمت ایک امت بنی رہی.‘‘
(ماخوذ از ’’دو خطروں کا علاج‘‘ فرمودہ شیخ التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسفؒ ‘ شائع کردہ: افتخار احمد فریدی‘ سنبھلی گیٹ‘ مراد آباد. انڈیا)

ہر شخص محسوس کر سکتا ہے کہ اس تقریر کا ایک ایک لفظ دل سے نکلا ہے اور اس میں کسی تکلف اور تصنّع یا آورد کا کوئی شائبہ موجود نہیں ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ آج ملت اسلامیہ پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت اِسی سبق کی نہیں ہے جو ان فرمودات میں سامنے آتا ہے! ( کاش کہ ملت کے دردمند اصحابِ ثروت اس تقریر کو نہ صرف اردو بلکہ پاکستان کی جملہ علاقائی زبانوں میں لاکھوں کی تعداد میں طبع کر کے تقسیم کرائیں.)