اب توجہ فرمائیے اس مسئلے کی جانب کہ اگر مطلوبہ اوصاف والی جماعت وجود میں آجائے اور نہی عن المنکر باللّسان یعنی زبان و قلم کے ذریعے منکرات کے خلاف جہاد کا حق ادا کیا جاچکا ہو تو اس کے بعد ہاتھ یا قوت سے نہی عن المنکر کے لیے کس طرح اقدام کیا جائے گا؟
اس کے جواب کے لیے پہلے مثال کے طور پر ایک واقعہ عرض کرنا ہے -آج سے چند سال پہلے ۲۳ مارچ کا دن آنے والا تھا‘ جسے ’یوم پاکستان‘ کے نام سے ہر سال دھوم دھام سے منایا جاتا ہے. میں ۲۳ مارچ سے چند دن پہلے عمرہ کے لیے جانے والا تھا کہ مجھے لاہور کے ایک گرلز کالج کی پرنسپل صاحبہ کا فون آیا کہ ’’آپ نے کبھی سوچا نہیں کہ ۲۳ مارچ اور ۱۴؍ اگست کو سڑکوں پر جوان لڑکیوں کی پریڈ ہوتی ہے اور اس کو دیکھنے کے لیے لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوتے ہیں. جوان لڑکیاں سینہ تان کر پریڈ کرتی ہیں. اس پر آپ نے کبھی کوئی نکیر نہیں کی.‘‘ میں واقعی حیران ہوا کہ کیوں میری توجہ اس طرف نہیں ہوئی! میں نے اپنے آپ کو پہلے یہ ’الاؤ نس‘ دیا کہ میں نے آج تک کوئی پریڈ نہیں دیکھی. نہ میرے ہاں ٹی وی ہے کہ اس پر دیکھنے کا کسی طور پر موقع ملتا. لیکن پھر یہ خیال آیا کہ اخبارات میں فوٹو چھپتے ہیں. وہ تو نظر سے گزرے ہیں.
پھر مجھے افسوس ہوا کہ اتنے بڑے منکر کی طرف میرا دھیان کیوں نہیں گیا.میں دل ہی دل میں نادم ہوا.عمرہ کے لیے روانگی سے قبل حسبِ معمول مجھے مسجد دارالسلام باغ جناح لاہور میں جمعہ کی تقریر کرنی تھی. باغ جناح کے قریب ہی جی .او.آر (G.O.R) ہے. لہذا بہت سے اعلیٰ گورنمنٹ آفیسرز وہاں آتے ہیں. کنٹونمنٹ بھی زیادہ فاصلے پر نہیں ہے. لہذا بہت سے اعلیٰ ملٹری آفیسرزبھی وہاں ہوتے ہیں -تو میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ خدا کے لیے جس کی بھی جناب صدر تک پہنچ اور رسائی ہے وہ یہ بات ان تک پہنچائے کہ یہ بہت بڑا منکر ہے. لڑکیوں کی پریڈ کرانی ہے تو قذافی اسٹیڈیم میں ان کی پریڈ کرالیں. وہاں پریڈ دیکھنے صرف ہماری مائیں‘ بہنیں اوربیٹیاں جائیں‘ ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا. آپ بچیوں کو ملٹری ٹریننگ دیجئے‘ رائفل ٹریننگ دیجئے. جیسے گرلز کالجوں کے گرداگرد چہار دیواری ہوتی ہے اور عمارتیں باپردہ ہوتی ہیں تو ایسی چہار دیواری والے میدانوں میں بچیوں کو ٹریننگ دیجئے اور قذافی سٹیڈیم میں ان کی پریڈ کرائیے جس میں مردوں کا داخلہ بالکل ممنوع ہو. لیکن ہماری جوان بچیاں پریڈ میں سینہ تان کر چلتی ہیں‘ وہ جھک کر تو نہیں چلتیں‘ نہ وہ ادھیڑ عمر یا بوڑھی ہوتی ہیں. یہ بہت بڑا منکر ہے. میں اس تقریر کے بعد عمرے کے لیے چلا گیا. واپس آیا تو ۲۴ مارچ تھی. ۲۴؍ مارچ کو صبح کے روزنامے شائع نہیں ہوتے. مجھے ہوائی جہاز میں شام کے اخبار ملے. اکثر اخبارات میں اس خبر کا چرچا تھا اور انگریزی روزنامے کی تو پہلی سرخی یہ تھی :
"WOMEN'S PARADE TOOK PLACE DESPITE THE LETTER OF MIAN TUFAIL"
اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ میاں طفیل محمد صاحب نے بھی صدر ضیاء الحق صاحب کو اس بارے میں کوئی خط لکھا تھا. لیکن میاں صاحب کے خط کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا. پریڈ ہوئی اور اُن لوگوں نے بغلیں بجائیں جو ہمارے ملک میں بے حجابی‘ بے پردگی اور فحاشی کے علمبردار ہیں. اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ اس بات کو چھاپا -گویا اس طرح ان سب دین دوست افرا کا استہزاء کیا گیا
جو منکرات کو مٹانے اور معروفات کو فروغ دینے کے داعی اور علمبردار ہیں.
اب یہ بات جان لیجئے کہ اگر ایک جماعت ایسی ہو کہ جو الیکشن کے لیے ووٹوں کی بھیک مانگتی نہ پھر رہی ہو اس لیے کہ اس طور پر تو معاملہ کچھ اور ہو جاتا ہے. بقول شاعر ؎ مانگنے والا گدا ہے‘ صدقہ مانگے یا خراج! -اوّلاً اگر اسلام کے نام پر الیکشن میں کامیاب ہونے والا ایک شخص بھی خراب نکل آئے تو پوری جماعت پر حرف آئے گا یا نہیں؟ ایک مچھلی پُورے تالاب کو گندا کر سکتی ہے اور ایک کالی بھیڑ پورے گلے کو مشکوک بنا سکتی ہے. پھر یہ کہ جب آپ ووٹ مانگتے ہیں تو لوگوں کے غلط عقائد‘ غلط اعمال پر تنقید اور نکیر نہیں کر سکتے.لوگوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم خلافِ اسلام کام کر رہے ہو‘ تم حرام خوریاں کر رہے ہو‘ تم خلافِ قانون کام کر رہے ہو چونکہ انہیں سے تو آپ نے ووٹ لینے ہیں.
لہذا آپ یہ باتیں نہیں کہہ سکتے. اب اس الیکشن کی اسلام کے حق میں آخری خرابی کی بات بھی سُن لیجئے. جب آپ بھی الیکشن میں اسلام کے نام پر ووٹ مانگیں گے اور کوئی دوسری جماعت بھی اسلام کے نام پر ووٹ مانگے گی تو دو اسلام ہو گئے یا نہیں؟ تین یا چار جماعتیں اسلام کے نام پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہوں تو تین یا چار اسلام ہو جائیں گے یا نہیں! ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت جس شدّت کے ساتھ بڑھ رہی ہے اس کا سب سے بڑا سبب اسلام کے نام پر الیکشن لڑنا ہے. ہر گروہ اپنے مخصوص شعائر کا جن کا اسلام سے یا تو سرے سے کوئی تعلق نہ ہو یا اگر ہو تو محض فروعی ہو‘ اس طرح پروپیگنڈا کریگا گویا یہی اصل اسلام ہے. عوام الناس جن کی عظیم اکثریت اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہے وہ مزید انتشارِ ذہنی میں مبتلا ہوں گے یا نہیں؟ اور ہمارے خواص‘ بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقہ پہلے ہی سے دین کے معتقدات و اساسات کے بارے میں تشکیک و ریب میں مبتلا ہیں ان جماعتوں کا ساتھ دیں گے یا نہیں جو سیکولر (لادینی) ذہن کی حامل اور علمبردار ہیں. ۷۰ ۱۹ کے الیکشن میں جس سے زیادہ FAIR الیکشن پاکستان میں تاحال کبھی نہیں ہوا یہ نتیجہ سامنے آچکا ہے یا نہیں؟ لہذا اس بات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کے راستے سے یہاں اسلام نہیں آئے گا. جو حضرات نیک نیتی سے سمجھتے ہیں کہ اس ذریعہ سے اسلام آسکتا ہے اگر ان کی نیّتوں میں واقعی خلوص و اخلاص ہے تو وہ لگے رہیں.
خلوص و حسنِ نیت کا وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اجر ضرور پائیں گے. بشرطیکہ اخلاص نیت کے ساتھ وہ ان غلط کاموں سے اپنا دامن بچائیں جو الیکشن کا خاصہ بن گئی ہیں‘ جیسے جعلی ووٹنگ‘ ووٹوں کی خریداری‘ علاقائی‘ لسانی اور برادری کی عصبیتوں کو اُبھارنا وغیرہ وغیرہ. مجھے یقین ہے کہ ایسی صورت میں ان کا اجر ضائع نہیں ہو گا لیکن ساتھ ہی اس کا بھی یقین ہے کہ کچھ حاصل نہیں ہو گا. یہ قوتوں کا‘ صلاحیتوں کا‘ سرمایہ کا محض ضیاع ہو گا. اسلام اس راستہ سے آ ہی نہیں سکتا. اس الیکشن بازی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جماعتوں کے تحزب اور تخالف سے ملی اتحاد میں ایسے رخنے پیدا ہوتے ہیں کہ انتہائی کوشش کے باوجود ان کا بھرنا ممکن نہیں رہتا. یہ تحزب و تخالف بسا اوقات دائمی نفرت اور عداوت کا رُخ اختیار کر لیتا ہے جس کی تباہ کاریوں سے کون ہے جو ناواقف ہو گا.
پاکستان میں اسلام آئے گا تو اس طور پر کہ اگر کوئی ایسی جماعت ہے اور معتدبہ افراد پر مشتمل ہے کہ انفرادی طور پر اس کا ہر رکن تقویٰ اور اسلام کی روش پر کاربند ہونے کے لیے دل و جان سے کوشاں ہے. حبل اللہ یعنی قرآن مجید سے اس کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے.ہر نوع کے فقہی اختلافات سے اس کا دامن محفوظ ہے. وہ ائمہ اربعہ اور محدثین علیھم الرحمۃ کے فقہی اختلافات کو صرف تعبیر کا‘ استنباط کا اور راجح و مرجوح اور افضل و مفضول کا فرق سمجھتا ہے. وہ جماعت اقتدارِ وقت کو چیلنج کرے گی کہ منکرات کا کام ہم یہاں نہیں ہونے دیں گے‘ یہ ہماری لاشوں ہی پر ہو گا. منکرات وہ سامنے رکھے جائیں گے جن کے منکر ہونے پر کسی فقہی مکتبِ فکر کو اختلاف نہ ہو. سب اس کو منکر تسلیم کرتے ہوں. جیسے بے حیائی اور بے پردگی اور سودی نظامِ معیشت -یہ ہے اصل طریقِ کار. یہ ہے ایک مسلمان ملک میں ’’مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ‘‘ کے فرمانِ نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام پر تعمیل کی کوشش. کیا آج لوگ اپنے سیاسی اور معاشی حقوق کے لیے یہ سب کچھ نہیں کرتے؟ یہ ایجی ٹیشن کیوں ہوتا ہے! یہ مظاہرے کیوں ہوتے ہیں! صرف سیاسی حقوق کے لیے یا صرف کسی دنیاوی سہولت کے لیے لیبر یونینیں اپنی اُجرت بڑھوانے اور دوسری مراعات حاصل کرنے کے لیے مظاہرے کرتی ہیں یا نہیں یہی ایجی ٹیشن اگر صرف دین کے لیے اور نہی عن المنکر کے لیے ہوں کہ یہ منکر کام ہم یہاں نہیں ہونے دیں گے تو یہ طریقہ ان شاء اللہ پانسہ پلٹ کر رکھ دے گا.