بدامنی اور توڑ پھوڑ سے کُلّی اجتناب

البتہ اس کی شرط یہ ہے کہ یہ سب کچھ پُر امن ہو.یہ نہیں کہ آپ نے ٹریفک سگنل توڑ دئیے. ایک چلتی بس ٹھہرائی اور اس کے ٹائروں سے ہوا نکال دی. اس سے کیا حاصل ہوا؟ -اس بس کے جو ساٹھ ستر مسافر تھے ان کو آپ نے تکلیف پہنچائی. نہ معلوم کس کو کتنی دور جانا تھا!. یا سرکاری املاک اور خاص طور پر سرکار کے زیر انتظام چلنے والی بسوں کو آگ لگا دی. معاذ اللہ! وہ بس کسی غیر کی نہیں تھی. اس غریب قوم کی تھی جس کا ایک ایک بال بیرونی قرضوں میں بندھا ہوا ہے.

آپ نے سرکاری املاک اور بسوں کو نقصان پہنچا کر اور جلا کر اس غریب قوم پر قرضوں کے بار میں مزید اضافہ کر دیا. حکومت یہ کرے گی کہ کوئی نیا غیر ملکی قرضہ لے گی اور اس نقصان کو پُورا کر لے گی. نتیجہ! یہ کہ قوم قرضوں کے بوجھ تلے مزید دب جائے گی. پھر پولیس کی کوئی لاری یا ٹرک آیا تو اس پر پتھراؤ شروع کر دیا. نتیجہ! یہ کہ پولیس والے جو آپ ہی کے بھائی بند ہیں‘ آپ کے خلاف مشتعل ہو گئے -اب نبی اکرم  کے اسوۂ حسنہ کو دیکھئے. بارہ برس تک مکہ میں حضورؐ پر اور خاص طور پر آپؐ کے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین پر تشدد ہوا‘ لیکن کسی نے ہاتھ تک نہیں اٹھایا. انہیں مارا گیا‘ ایک مومن خاوند و بیوی حضرت یاسرؓ اور حضرت سمیہؓ نہایت بہیمانہ طور پر شہید کر دئیے گئے. حضرت بلالؓ کو سفاکانہ طور پر مکہ کی سنگلاخ اور تپتی زمین پر اس طرح گھسیٹا گیا جیسے کسی مردہ جانور کی لاش کو گھسیٹا جاتا ہے.

جس کو ایک سلیم الطبع گوارا نہ کرے. حضرت خبّابؓ بن ارت کو دہکتے انگاروں پر ننگی پیٹھ لٹایا گیا. یہاں تک کہ ان کی کمرکی چربی اور خون سے انگارے ٹھنڈے ہوئے. لیکن کسی کو بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی. الغرض ایک ایسی جماعت کی ضرورت ہے جس کا مقصد یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ کے سوا اور کچھ نہ ہو. وہ جماعت منظم ہو اور اس جماعت کے کارکن تقویٰ‘ اسلام اور اعتصام بالقرآن کی سیڑھیوں پر کسی نہ کسی درجہ میں قدم رکھ چکے ہوں. اس کا عزمِ مصمَّم کر چکے ہوں. وہ فقہی اختلافات میں الجھنے والے نہ ہوں -وہ جماعت ایک امیر کے حکم پر حرکت کرتی ہو. رُکنے کو کہا جائے تو رُکیں اور بڑھنے کو کہا جائے تو بڑھیں. جب تک یہ شکل نہیں ہو گی اسلامی نظام آنے کا امکان پیدا ہو گا نہ منکرات کے خاتمے کی سبیل پیدا ہو گی.