جب یہ صورت حال پیدا ہوئی‘ تب ہی تو شہنشاہِ ایران جیسے جابر شخص کو جس نے اپنے گردا گرد ایک قومی ہیرو کی حیثیت سے تقدس کا ہالہ بھی قائم کر رکھا تھا‘ اپنی جان بچا کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا. کم و بیش یہی صورت حال ۷۷ کی نظام مصطفیٰ تحریک کے موقع پر پیش آئی. بھٹو صاحب نے لاہور اور کراچی میں جزوی مارشل لاء نافذ کر دیا تھا. لیکن وہ وقت آیا کہ فوج نے مظاہرین پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا. اس صورت حال کی وجہ سے بھٹو صاحب کو جھکنا پڑا اور وہ قومی اتحاد کے اکابر سے مصالحت کی گفتگو پر آمادہ ہو گئے. یہ دوسری بات ہے کہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اس تصادم کا فائدہ کوئی دوسرا اٹھا لے گیا.
ایسی جماعت کے وجود اور مقاصد کے لیے جہاں ہمیں اِس آیتِ مبارکہ سے رہنمائی ملتی ہے کہ: ’’ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ‘‘ وہاں اس کے اصول و مبادی اور شرائط و اوصاف کے لیے رہنمائی اِس حدیث شریف سے ملتی ہے جو حضرت حارث الاشعریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: التزام جماعت کا‘ سمع و طاعت کا ‘ اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کا -گویا اوّلاً جماعت درکار ہے‘ افراد نہیں‘ ہجوم نہیں‘ MOB نہیں. پھر جماعت بھی ڈھیلی ڈھالی نہیں‘ چار آنے کی ممبری والی نہیں‘ صدروں کی ٹانگیں گھسیٹنے والی نہیں بلکہ سمع و طاعت والی. پھر اس جماعت کے سامنے مقاصدکیا ہوں گے؟ اللہ کی راہ میں ’’ہجرت‘‘ اور ’’جہاد‘‘ !