اس طریق پر عملی جدوجہد کے دو ہی ممکن نتیجے نکل سکتے ہیں: پہلا یہ کہ حکومتِ وقت پسپائی اختیار کر ے اور ہمارے مطالبات کو مان لے. پوری شریعت نافذ ہو جائے گی. چونکہ اربابِ اقتدار کو یہ اطمینان ہو گا کہ یہ جماعت اپنا اقتدار نہیں چاہتی بلکہ اس کا مقصود و مطلوب صرف اسلامی نظام ہے. چنانچہ انہی کے ہاتھوں اسلامی نظام قائم و نافذ ہو جائے گا اور فہو المطلوب -یا دوسری شکل یہ ہو گی کہ حکومت مزاحمت کرے اسے اپنی انا اور وقار کا مسئلہ بنا لے اور مسندِ اقتدار کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہو جو چاہے زبانی کلامی اسلام کے اور اس کے نظامِ عدل و قسط کے بڑے قصیدہ گو اور مدح سرا ہوں لیکن جن کے قلوب حقیقی نورِ ایمان سے خالی ہوں تو وہ مزاحمت کریں گے‘ تصادم ہو گا‘ مظاہرین پر لاٹھی چارج ہو گا‘ گولیوں کی بوچھاڑ ہو گی‘ ان کو جیلوں میں ٹھونسا جائے گا‘ قید و بند کی تکالیف ہوں گی -ان سب کو اگر یہ جماعت پُر امن طریق پر جھیل جائے‘ وہ مشتعل نہ ہو یعنی وہ کوئی جوابی کارروائی نہ کرے‘ نہ جماعت کا کوئی رکن معافی نامہ اور توبہ نامہ لکھ کر جیل سے بچنے کی فکر کرے تو اِن شاء اللہ پھر بھی دو نتیجے نکلیں گے.

یا تو وہ جماعت اس راہ میں قربان ہو جائے گی‘ کچل دی جائے گی‘ تو آخرت کے اعتبار سے یہ بہت بڑی کامیابی ہے بلکہ اصل کامیابی یہی ہے. :ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ . دوسرا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ اس جماعت کو اپنے ایثار و قربانی سے عوام الناس کی عملی ہمدردیاں حاصل ہو جائیں اور وہ پوری طرح اس کا ساتھ دیں. مزید برآں خود پولیس اور فوج بھی مسلمان بھائیوں ہی پر مشتمل ہے. ان کی عملی ہمدردیاں بھی اس جماعت کے ساتھ ہو جائیں گی. ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ پہلے تو شہنشاہ کے حکم پر پولیس اور فوج نے مظالم کی حد کر دی. لیکن جب انقلابی جماعت کے ساتھ عوام الناس کی اکثریت بھی شامل ہو گئی تو فوج نے گولیاں برسانے اور پولیس نے لاٹھی چارج اور اشک آور گولوں کی بوچھاڑ کرنے سے انکار کر دیا. 

جب یہ صورت حال پیدا ہوئی‘ تب ہی تو شہنشاہِ ایران جیسے جابر شخص کو جس نے اپنے گردا گرد ایک قومی ہیرو کی حیثیت سے تقدس کا ہالہ بھی قائم کر رکھا تھا‘ اپنی جان بچا کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا. کم و بیش یہی صورت حال ۷۷ ؁ کی نظام مصطفیٰ تحریک کے موقع پر پیش آئی. بھٹو صاحب نے لاہور اور کراچی میں جزوی مارشل لاء نافذ کر دیا تھا. لیکن وہ وقت آیا کہ فوج نے مظاہرین پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا. اس صورت حال کی وجہ سے بھٹو صاحب کو جھکنا پڑا اور وہ قومی اتحاد کے اکابر سے مصالحت کی گفتگو پر آمادہ ہو گئے. یہ دوسری بات ہے کہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اس تصادم کا فائدہ کوئی دوسرا اٹھا لے گیا.

ایسی جماعت کے وجود اور مقاصد کے لیے جہاں ہمیں اِس آیتِ مبارکہ سے رہنمائی ملتی ہے کہ: ’’ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ‘‘ وہاں اس کے اصول و مبادی اور شرائط و اوصاف کے لیے رہنمائی اِس حدیث شریف سے ملتی ہے جو حضرت حارث الاشعریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: ’’میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: التزام جماعت کا‘ سمع و طاعت کا ‘ اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کا -گویا اوّلاً جماعت درکار ہے‘ افراد نہیں‘ ہجوم نہیں‘ MOB نہیں. پھر جماعت بھی ڈھیلی ڈھالی نہیں‘ چار آنے کی ممبری والی نہیں‘ صدروں کی ٹانگیں گھسیٹنے والی نہیں بلکہ سمع و طاعت والی. پھر اس جماعت کے سامنے مقاصدکیا ہوں گے؟ اللہ کی راہ میں ’’ہجرت‘‘ اور ’’جہاد‘‘ !