ہجرت اور جہاد کی ابتداء اور انتہا

نبی اکرم  سے پوچھا گیا: اَیُّ الْھِجْرَۃِ اَفْضَلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ ’’یارسول اللہ بہترین اور اعلیٰ ہجرت کون سی ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ ’’ہر اُس چیز کو چھوڑ دو جو تمہارے رب کو پسند نہیں ہے‘‘ گویا یہ ہے ہجرت کا نقطۂ آغاز. البتہ یہ نیت رکھنی ضروری ہے کہ اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے‘ اسے قائم کرنے کی جدوجہد کے لیے گھر بار‘ اہل و عیال‘ مال و منال یہاں تک کہ اپنے وطن کو چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دوں گا. 

یہ نیت ہر مسلمان رکھے. لیکن اگر آپ کی زندگی میں کوئی معصیت ہے اسے ترک کرنے کا فیصلہ کیجئے اسی لمحہ سے ہجرت کا عمل شروع ہو جائے گا. مزید برآں عوام تو عوام ہمارے اکثر اہلِ علم بھی اس مغالطہ میں ہیں کہ جہاد کے معنی جنگ کے ہیں. حالانکہ یہ بھی ہمارے دین کی ایک بڑی وسیع معانی اور مفاہیم رکھنے والی اصطلاح ہے. حضورؐ سے پوچھا گیا: اَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ’’ یا رسول اللہ بہترین جہاد کون سا ہے؟ ‘‘ تو آپؐ نے فرمایا: اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ ’’کہ تم اپنے نفس سے جہاد کرو اور اسے اللہ کا مطیع بناؤ.‘‘ ایک روایت میں نبی اکرم کا ارشاد آیا ہے: اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہُ ’’حقیقی مجاہد تو وہ ہے جو اپنے نفس کی ناجائز خو اہشات کے خلاف کشمکش کرے.‘‘ تو جہاد یہاں سے شروع ہو جاتاہے.

اس کے ساتھ اسی جہاد کے اگلے مراحل ہیں غیر اسلامی نظریات‘ منکرات اور غیر اسلامی نظام کے خلاف کشمکش اور پنجہ آزمائی. اسی جہاد کی بلند ترین چوٹی ہے‘ قتال فی سبیل اللہ‘ لہٰذا دل میں یہ نیت رکھنی ضروری ہے کہ اے اللہ! وہ وقت آئے کہ صرف تیرے دین کے غلبہ کے لیے‘ تیرے کلمہ کی سربلندی کے لیے میری گردن کٹے. اس لیے کہ اگر یہ آرزو سینہ میں موجود نہیں ہے تو وہ ایک مومن کا سینہ نہیں ہے. حضورؐ نے فرمایا کہ جس شخص نے نہ تو اللہ کی راہ میں جنگ کی‘ نہ جنگ کی آرزو اپنے سینہ میں رکھی‘ نہ شہادت کی تمنا اپنے سینہ میں رکھی تو اگر اس حال میں اسے موت آگئی تو ’’ فَقَدْ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنَ النِّفَاقِ‘‘ یعنی ’’ایسا شخص یقینا ایک نوع کے نفاق پر مرا ہے‘‘ یعنی حقیقی ایمان پر نہیں مرا. تو یہ ’ہجرت و جہاد‘ -ہجرت شروع کہاں سے ہوئی! ترکِ معصیت سے اور کہاں تک جائے گی! ترکِ وطن تک. جہاد کہاں سے شروع ہوا! مجاہدہ مع النفس سے اور کہاں تک جائے گا! قتال فی سبیل اللہ تک -لیکن اس لائحہ عمل پر چلنے کے لیے ایک جماعت کی ضرورت ہے جو بیعتِ سمع و طاعت پر قائم ہو. البتہ اس کے ساتھ ’فی المعروف‘ کی شرط ہو گی. یعنی یہ کہ یہ سمع وطاعت اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے دائرے کے اندر اندر ہو گی.