اب پہلی آیت پر توجہ مرکوز فرمائیے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ’’اے اہل ایمان ! یا اے ایمان کے دعوے دارو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے. اور تمہیں ہر گز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم فرمانبردار ہو‘‘ -یہ بات سمجھنے کی ہے کہ قرآن مجید کا قریباً دو تہائی حصہ مکی سورتوں اور آیتوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں آپ کو کہیں یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ نہیں ملیں گے. زیادہ سے زیادہ سورۃ الحج کے آخری رکوع میں آئے ہیں‘ لیکن اس سورۂ مبارکہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ مکی ہے یا مدنی. میرا خیال ہے کہ سورۃ الحج ’برزخی سورت ‘ ہے. اس میں مکی آیات بھی شامل ہیں‘ مدنی بھی اور سفرِ ہجرت کے دوران نازل ہونے والی آیات بھی. واللہ اعلم! 

’یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ سے خطاب مدنی دور میں شروع ہوا ہے جب ایک امت کی تشکیل بالفعل ہو چکی تھی. لہذا امت مسلمہ سے خطاب کے لیے یہ عنوان اختیار کیا گیا‘ ورنہ اہل ایمان سے خطاب کے لیے سورۃ العنکبوت میں آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: یَاعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ ’’اے میرے بندو جنہوں نے اپنے اوپر (گناہ کر کے) زیادتی کی ہے. ‘‘لیکن ’’ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ کے الفاظ مدنی سورتوں میں کثرت کے ساتھ آئے ہیں مثلاً سورۃ الحجرات کل اٹھارہ آیات پر مشتمل ہے. اس میں پانچ آیات کا آغاز ’’یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘‘ سے ہوتا ہے اور دوسری طرف سورۃ الاعراف جو چوبیس رکوعوں پر مشتمل ہے اور وہ حجم کے اعتبار سے طویل ترین مکی سورت ہے‘ اس میں ۲۰۶ آیات ہیں جبکہ آیات کے اعتبار سے سورۃ الشعرأ سب سے بڑی مکی صورت ہے جس کی آیات ۲۲۷ ہے. لیکن ان طویل مکی سورتوں میں بھی کہیں یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے خطاب نہیں ملے گا. لہذا پہلی بات تو یہ سمجھئے کہ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے خطاب امت مسلمہ سے اور یہ انداز تخاطب مدنی سورتوں میں نظر آتا ہے. 

دوسری بات یہ سمجھئے کہ سورۂ آل عمران کا غالب حصہ ۳ھ میں نازل ہوا ہے‘ یعنی غزوہ ٔ احد سے متصلاً بعد. لہذا ۳ھ کے حالات اپنے ذہن میں لائیے! مدینہ جہاں ایک کثیر تعداد مومنین صادقین کی ہے‘ جس میں مہاجرین بھی ہیں اور انصار بھی‘ جن کے متعلق سورۂ توبہ میں فرمایا: وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِریْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ وہاں کچھ ضعیف الایمان لوگ بھی ہیں بلکہ منافقین بھی ہیں. یہ گروہ وہاں عبد اللہ بن ابی کی سرکردگی میں حضور کی مدینہ تشریف آوری کے وقت ہی سے وجود میں آگیا تھا. آپ کو معلوم ہو گا کہ جب نبی اکرم  غزوۂ احد کے لیے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو ایک ہزار افراد آپ کے ساتھ تھے‘ لیکن پھر عبداللہ بن اُبی کے ساتھ تین سو افراد راستہ ہی سے واپس چلے گئے اور حضور  کے ساتھ صرف سات سو افراد رہ گئے. اگرچہ وہ تین سو افراد سب کے سب منافق نہیں تھے تب بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِن میں منافق بھی تھے اور ضعیف الایمان لوگ بھی تھے. اس لیے کہ جو لوگ نبی اکرم  کا اس وقت ساتھ چھوڑ کر چلے جائیں جبکہ یقین سے معلوم ہو کہ جنگ ہو کر رہے گی‘ ان کے لیے ہلکے سے ہلکے الفاظ ہم یہی کہہ سکتے ہیں.

مختصراً یہ کہ اُس موقع پر معاملہ گڈ مڈ تھا کہ صادق الایمان لوگ بھی حضور  کے ساتھ تھے‘ ایسے لوگ کہ جن کے ایمان و یقین کی وسعت و گہرائی کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے. حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ایمان کی گہرائی اور گیرائی کا ہم کیا تصورکریں گے! وہاں کمزور ایمان اور کمزور قوت ارادی والے لوگ بلکہ منافقین بھی موجود تھے. لیکن قرآن ان سب سے جب خطاب کرتا ہے تو ’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘ کے الفاظ سے کرتا ہے . یہ اہم بات ہے کہ پورے قرآن مجید میں کہیں ’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ نَافَقُوْا‘ نہیں آیا. یعنی ’اے منافقو!‘ کہہ کر کہیں خطاب نہیں کیا گیا.جہاں منافقین سے بات ہوئی ہے وہاں بھی ’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا‘ ہی سے ہوئی ہے. ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ ایمان کے دعوے دار تو وہ (یعنی منافقین)بھی تھے‘ کلمۂ شہادت وہ بھی پڑھتے تھے‘ نبی اکرم  کی امامت میں نمازیں وہ بھی ادا کرتے تھے‘ لیکن جب انہیں جنگ کے لیے پکارا جاتا تھا یا جب ان سے انفاق کا تقاضا کیا جاتا تھا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو یا اللہ کی راہ میں جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلو‘ تب ان کی جان نکلتی تھی. نمازیں وہ پابندی سے پڑھتے تھے‘ اگرچہ ان کی قلبی کیفیت کے اظہار کے لیے قرآن میں ’کُسَالٰی‘ کا لفظ آیا ہے کہ نماز کے لیے اُٹھتے بھی ہیں تو بڑے کسل کے ساتھ. ایک کیفیت تو یہ ہوتی ہے کہ انسان پوری دل کی آمادگی کے ساتھ اُٹھے‘ پورے ذوق و شوق کے ساتھ اـ ٹھے‘ جس کا ایک درجہ وہ بھی ہے جسے حدیث مبارک میں ان الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا کہ وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعلَّقٌ بالمساجد ’’اور وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا رہے‘‘اور دوسری صورت وہ ہوتی ہے جسے لفظ ’کُسالیٰ ‘ سے تعبیر فرمایا گیا .

بہرحال جن آیات کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں ان میں ’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘ سے خطاب ہے. چنانچہ اہل ایمان سے پہلا تقاضا کیا گیا : ’’اِتَّقُوْا اللّٰہ حَقَّ تُقٰتِہٖ‘‘ اے ایمان کے دعوے دارو‘ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے. تقویٰ کا مفہوم ہے: بچ کر چلنا‘ پھونک پھونک کر قدم رکھنا‘ تقویٰ کا اصل مفہوم یہی ہے. حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی جن کے بارے میں حضور  نے فرمایا: ’’اقرء ھم ابی ابن کعب‘‘. (صحابہ کرم ؓ میں قرأت قرآن کے سب سے بڑے عالم یہ حضرت ابی ابن کعب ہیں) ان سے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓ نے دریافت کیا کہ ’’تقویٰ‘‘ کیا ہے! آپ اسے کیسے Define کریں گے؟ تو حضرت ابی بن کعبؓ نے اس لفظ کی بڑی خوبصورت تشریح کی جسے صحابہ کرامؓ کی اس مجلس کے تمام شرکاء نے تسلیم کیا کہ بے شک یہ اس لفظ کی بہترین تعبیر ہے. ان کی توضیح کو میں اپنے الفاظ میں بیان کروں تو وہ یہ ہے:

’’امیر المومنین! جب کسی شخص کو جنگل میں ایسی پگڈنڈی سے گزرنے کا اتفاق ہو جس کے دونوں اطراف میں خاردار جھاڑیاں ہوں تو ایسی پگڈنڈی پر گزرتے وقت وہ شخص لامحالہ اپنے کپڑوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر اس راستہ کو اس طرح طے کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے کپڑے جھاڑیوں اور ان کے کانٹوں سے الجھنے نہ پائیں تو اس احتیاطی رویّے کو تقویٰ کہا جائے گا.‘‘ 

اب اس مفہوم کو سامنے رکھ کر اس آیت پر اپنی توجہات کو مرتکز کیجئے. ایمان کے معنی کیا ہیں؟ یہ کہ آپ نے توحید کے التزام کے ساتھ اللہ کو مانا‘ یوم آخرت کا اقرار کیا اور محمد  کو اللہ کا رسول مانا. اب اِن ایمانیات ثلاثہ کا تقاضا کیا ہے؟ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول  کے احکام کو مانئے! وَاَطِیْعُوْا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَاعَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنَ (التغابن :۱۲)’’اطاعت کر و اللہ کی اور اطاعت کرو رسول  کی اور اگر تم روگردانی کر گے تو جان لو کہ صاف صاف پہنچانے کے سوا ہمارے رسول ؐ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے.‘‘ اور وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ (الحشر: ۷’’ اور جو رسول  دیں اسے مضبوطی سے تھامو اور جس سے روکیں‘ اس سے رک جاؤ.‘‘ آخرت پر ایمان لانے کا تقاضا کیا ہے؟یہ کہ: وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْھَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ (البقرہ : ۱۲۳’’ اور بچو اس دن (کی سزا) سے کہ جس دن کوئی شخص کسی کے ذرا بھی کام نہیں آئے گا اور نہ قبول کیا جائے گا اس کی طرف سے کوئی فدیہ اور نہ کام آئے گی اس کے حق میں کسی کی سفارش اور نہ کسی طرف سے ان کو مدد پہنچے گی.‘‘ 

پس پہلا تقاضا ہے تقویٰ -اگر واقعۃً ایمان دل میں ہے تو ہر لفظ زبان سے نکالنے سے پہلے انسان سوچے گا کہ میرے اس لفظ سے اللہ راضی ہو گا یا ناراض ! میں اس کو قیامت کے دن Justify کر سکوں گا یا نہیں! ہر حرکت کی جوابدہی کرنی ہو گی. حضور  نے حضرت علیؓ سے خطاب کر کے فرمایا تھا کہ اے علی ! کسی نامحرم عورت پر پہلی مرتبہ اچانک نگاہ پڑ جائے تو وہ معاف ہو گی‘ لیکن دوسری مرتبہ اگر نگاہ اٹھی تو وہ معاف نہیں ہے اس لیے کہ انسان کا ارادی عمل ہے. معلوم ہوا کہ زبان‘ آنکھ کان کا ہر ارادی عمل مسئول ہے: اِنَّ السّمْعَ وَالْبَصَرَوَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل: ۳۶آپ نے سنا ہو گا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ طرز عمل تھا کہ جب کبھی کسی راستہ میں ان کے کانوں میں گانے بجانے کی آواز آتی تھی فوراً اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے اور ساتھ چلنے والے سے پوچھتے تھے کہ اب تو آواز نہیں آرہی! جب ان کو بتا دیا جاتا تھا کہ آواز نہیں آرہی تب وہ کانوں سے انگلیاں نکالتے تھے. معلوم ہوا کہ ہمارا پورا وجود‘ ہماری آنکھیں‘ ہمارے کان‘ ہماری زبان‘ ان سب کے استعمال میں ہمیں محتاط رہنا ہو گا.

زبان کے بارے میں حضور  نے فرمایا کہ جہنم میں سب زیادہ لوگوں کو جھونکنے والی شے یہ زبان ہے. زبان کے غلط استعمال کو حضور نے ’’حصائدُ الالسنۃ‘‘ قرار دیا ہے یعنی زبان کی وہ کھیتیاں جو آخرت میں کاٹنی ہوں گی. قرآن خبر دیتا ہے کہ انسان کوئی لفظ منہ سے نہیں نکال پاتامگر یہ کہ اس کے پاس ہی ایک ہوشیار نگران تیار رہتا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (قٓ : ۱۸پھر یہ کہ ہمارے جو اعضاء و جوارح ہیں ان سے جو حرکت بھی سرزد ہو وہ اس احساس کے تحت ہو کہ مجھے اس کی جوابدہی کرنی ہو گی اور آخرت کے دن اس کا حساب دینا ہو گا‘ ACCOUNT FOR کرنا ہو گا. یہ احساس اور یہ روش تقویٰ ہے. فرمایا کہ اتنا تقویٰ اختیار کر و جتنا اللہ کے تقویٰ کا حق ہے: اِتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ- معمولی تقویٰ مطلوب نہیں ہے بلکہ پوری حدود و قیود کے ساتھ مطلوب ہے. ’’حَقَّ تُقٰتِہٖ‘‘ کی شان والا تقویٰ درکار ہے. ہم اور آپ تلاوت کرتے وقت اس آیت پر سے سرسری طور پر گزر جاتے ہیں‘ ہمیں خیال ہی نہیں آتا کہ قرآن کی یہ آیت ہم سے کیا مطالبہ کر رہی ہے! لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس پر گھبرا گئے‘ لرز اٹھے کہ کس انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ اتنا تقویٰ اختیار کر سکے جتنا اللہ کا حق ہے. یہاں تو گویا یہ حکم دیا جارہا ہے کہ ہمارے اعضاء و جوارح سے کسی لمحہ بھی کوئی جنبش اللہ کی مرضی کے خلاف نہ ہو‘ جبکہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے خطا ہو سکتی ہے. کہیں جذبات سے مغلوب ہو کر‘ کہیں غیر شعوری طو پر‘ کہیں بھول میں خطا کا صدور ہو سکتا ہے. چنانچہ صحابہ کرام ؓ گھبرا گئے اور انہوں نے نبی اکرم  کی خدمت میں حاضر ہو کر فریاد کی کہ ہم میں سے کون ہو گا جو اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کر سکے جیسا کہ تقویٰ کا حق ہے. اللہ تعالیٰ بڑا غفور‘ بڑا رحیم‘ بڑا رؤف ہے اس نے مومنین صادقین کی دل جوئی اور اطمینان کے لیے سورۃالتغابن میں یہ وضاحت فرمائی : فاتَّقُوْا اللّٰہ مَا اسْتَطَعْتُمْ. ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا تمہارے حدِّ امکان میں ہے.‘‘ اب صحابہ کی جان میں جان آئی کہ انسان اپنی استطاعت کے مطابق تو کر سکتا ہے-لیکن یہاں مغالطہ نہ ہو جائے کہ تقویٰ کی روش اختیار کرنے کی شعوری کوشش یہ سمجھ کر چھورڑ دی جائے کہ ہم میں اس کی استطاعت ہی نہیں ہے. یہ بات اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کس کو اس نے کتنی استطاعت دی ہے. اگر ہم میں کوئی بھی اس مغالطہ میں مبتلا ہو گیا کہ مجھ میں فلاں فرائض دینی بجاآوری کی استعداد و استطاعت ہی نہیں ہے تو جان لیجئے کہ یہ خالص شیطانی وسوسہ ہے. یہ عذرِ گناہ بد تر از گناہ والا معاملہ ہو جائے گا.

اب اگلے ٹکڑے پر توجہ فرمائیے. آیت کا اختتام ہوتا ہے ان الفاظ مبارکہ پر : وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ . لفظی ترجمہ ’’ اور ہر گز مت مرنا مگر اسلام (فرماں برداری) کی حالت میں.‘‘ سرتسلیم خم کرنے کو -فارسی میں اس کی تعبیر ہو گی‘ گردن نہادن‘. انگریزی میں اسے TO SUBMIT اور TO SURRENDER کہا جائے گا. یعنی کوئی مقابلہ تھا اس میں اگر آپ نے ہتھیار رکھ دئیے اور سپر ڈال دی تو اس رویہ کا نام ’اسلام‘ ہے. تو یوں سمجھئے کہ ہمارا نفس اکثر و بیشتر اللہ سے سرکشی کرتا ہے. اللہ کا حکم کچھ ہے‘ نفس کا تقاضا کچھ اور ہے. خیر و شر کی یہ کشمکش اور کشاکش انسان کے باطن میں چلتی رہتی ہے‘ لیکن جب انسان ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیتا ہے کہ اب جو اللہ کا حکم ہو گا اور اس کے رسول  کا حکم ہوگا بجا لائیں گے‘جو ان کا فرمان ہو گا اس کے مطابق عمل کریں گے تو یہ اسلام ہے. یہاں فرمایا جارہا ہے کہ:’’تمہیں ہر گز موت نہ آئے مگر حالتِ اسلام میں.‘‘ اس کلام میں جو بلاغت ہے اس پر غور فرمائیے کسی انسان کے پاس یقینی علم نہیں ہے کہ وہ کتنی مہلتِ زندگی لے کر آیا ہے اور اس کی موت کب واقع ہو گی.مجھے کوئی پتہ نہیں‘ ہو سکتا ہے کہ ابھی درس کے بعد مسجد سے نکلوں اور کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے اور زندگی ختم ہو جائے. آپ کا مشاہدہ ہو گا کہ بسااوقات صبح لوگ گھر سے اپنے کاروبار کے لیے نکلتے ہیں اور شام کو گھر پر یا لاش پہنچتی ہے یا موت کی اطلاع ملتی ہے. تو چونکہ موت کا کوئی وقت ہمیں معلوم نہیں لہذا اگر کوئی شخص یہ طے کر لے کہ ’’میں ہر گز نہیں مروں گا مگر فرمانبرداری کی حالت میں‘‘تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسے ہر لمحہ چوکس ہو کر بسر کرناہو گا کہ زندگی کا کوئی لمحہ معصیت میں بسر نہ ہو. کیا پتہ موت کا پنجہ کب آکر دبوچ لے! کسی کے پاس کوئی گارنٹی نہیں ہے‘ کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اسی معصیت والے لمحہ میں موت نہیں آجائے گی. اس بات کو سمجھانے کے لیے میں آپ کے سامنے ایک حدیث رکھتا ہوں. حضرت ابوہریرۃؓ اس حدیث کے راوی ہیں اور متفق علیہ روایت ہے: 

لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ 
’’ کوئی زانی حالتِ ایمان میں زنا نہیں کرتا‘ کوئی چور حالت ایمان میں چوری نہیں کرتا اور کوئی شرابی حالتِ ایمان میں شراب نہیں پیتا.‘‘ گویا- جس وقت یہ عمل کر رہا ہے اس وقت ایمان کی اصل حقیقت اس کے دل سے نکل چکی ہوتی ہے اگرچہ وہ اس معصیت سے کافر نہیں ہوتا‘ یہ بات ذہن میں رکھیے! امام ابو حنیفہ ؒ کا موقف صد فی صد درست ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر نہیں ہوجاتا. لیکن وہ قلبی یقین والا ایمان اس وقت موجود نہیں ہوتا. اگر ہو تو زنا کیسے کرے! اگر وہ قلبی ایمان ہو تو چوری کیسے ہو! شراب کیسے پیئے! اب آپ غور کیجئے کہ جس وقت کوئی شخص ان میں سے کوئی کام کر رہا ہے اور عین اس وقت اس کی روح قبض کر لی جائے تو یہ موت کس قدر حسرتناک موت ہو گی. یہ فرمانبرداری کی حالت کی موت تو نہیں ہوئی بلکہ اس کے برعکس حالتِ نافرمانی کی موت ہوئی. اس سے بچنے کی صرف ایک ہی شکل ہے کہ انسان محتاط رہے کہ کوئی بھی لمحہ نافرمانی میں بسر نہ ہو. 

میں عرض کر دوں کہ تقویٰ کے موضوع پر میرے محدود علم کی حد تک قرآن مجید کا سب سے زیادہ تاکیدی مقام یہی ہے. تقویٰ کے ساتھ تو فرمایا: حَقَّ تُقٰتِہٖ یعنی تقویٰ اختیار کو جتنا اللہ کا حق ہے اور آگے فرمایا: ’’دیکھنا ہر گز موت نہ آئے مگر حالتِ فرمانبرداری میں.‘‘ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ. یہ ہے پہلا نکتہ اور یہ ہے پہلی سیڑھی جس پر ہر مسلمان کو مضبوطی سے قدم جمانے کی پُرزور تاکید اور حکم آیا ہے. اور اگر یہیں قدم نہیں جمے ہیں تو اگلی بات کرنا بیکار ہے‘ بلکہ اس صورت میں اگلی بات ذہنی عیاشی بن جاتی ہے. سورۃ البقرہ میں یہود کے علماء کے بارے میں کہا گیا: اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ’’ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو درآں حالیکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو.‘‘ (البقرہ :۴۴یعنی تمہارے پاس توریت موجود ہے. یہ طرزعمل جو یہود کے علماء کا تھا ہمیں اپنے معاشرہ میں بھی نظر آتا ہے کہ تلقین بھی ہے‘ وعظ و نصیحت بھی ہے‘ بڑے اعلیٰ مقالات بھی لکھے جارہے ہیں‘ بڑی عمدہ تقاریر بھی ہو رہی ہیں‘ لیکن قریب ہو کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عملی زندگی میں وہ تقویٰ‘ وہ اسلام‘ وہ فرمانبرداری کی روش اور وہ حلال و حرام کی پابندی مفقود ہے‘ حالانکہ ہمارے دین کا بنیادی تقاضا ہر فرد سے یہ ہے کہ وہ امکانی حد تک تقویٰ اختیار کرے اور اللہ اور رسولؐ کا فرمانبردار بنے. 

بہرحال قرآن کے عطا کردہ سہ نکاتی لائحہ عمل کا پہلا قدم یہ ہے. اس سیڑھی پر اپنے قدموں کو جمانا ضروری ہے. اس موضوع پر مزید وقت صـرف کیے بغیر میں اس ضمن میں صرف ایک اور بات عرض کروں گا اور وہ یہ کہ ہمارے یہاں بعض اوقات یہ تصور نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے کہ خواہ تقویٰ ہو‘ خواہ اسلام ہو ‘ خواہ اللہ اور اس کے رسول  کی اطاعت و فرمانبرداری ہو یہ تمام باتیں من حیث الکل مطلوب ہیں یعنی پوری زندگی میں تقویٰ ہے تو حقیقی تقویٰ ہے . لیکن اگر معاملہ یہ ہو جائے کہ زندگی کے ایک گوشے میں اللہ کے احکام کی بڑی پابندی کر رہے ہیں مثلاً آپ نے متقیوں کی سی وضع قطع اختیار کر لی ہے لیکن کاروبار میں آپ اسلام کے خلاف طریقے اختیار کر رہے ہیں. ناجائز اور حرام ذرائع اپنائے ہوئے ہیں تو جان لیجئے کہ یہ صورتِ حال تقویٰ کے منافی ہے. حضور کا ارشاد ہے: اِتَّقُوْا اللّٰہ َ فِیْ السِّرِّوَالْعَلَانِیَۃِ ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو چھپے اور کھلے ہر حال میں‘‘ ایک مرتبہ آپ  نے اپنے دستِ مبارک سے تین بار اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: التقوٰی ھٰھُنا. التقوٰی ھٰھُنَا. التقوٰی ھٰھُنَا ’’تقویٰ یہاں ہے‘ تقویٰ یہاں ہے‘ تقویٰ یہاں ہوتا ہے.‘‘ تقویٰ اگر دل میں ہو گا تو پورے وجود میں سرایت کر جائے گا. پھر وہ تقویٰ پوری شخصیت کو اس رنگ میں رنگ دے گا جسے قرآن مجید میں ’صِبْغَۃَ اللّٰہ‘ کہا گیا ہے : صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً (البقرہ :۱۳۸لیکن اگر ایسا نہیں ہے‘ صرف ایک جزو میں اللہ اور اس کے رسول  کے احکام کی پابندی ہے اور دیگر معاملات میں آزادی اختیار کی گئی ہے تو یہ دراصل یہود کا سا طرز عمل ہے. چونکہ حضور  نے خبر دی ہے کہ میری امت میں بھی وہ ساری برائیاں پیدا ہوں گی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئیں . آپ  نے فرمایا کہ ’’اگر وہ یعنی بنی اسرائیل گوہ کے بل میں گھسے تھے تو تم بھی گھسو گے. یہاں تک الفاظ ہیں‘ اگرچہ بیان کرتے ہوئے جھجک پیدا ہوتی ہے لیکن نبی اکرم کے الفاظ ہیں تو آپ کو سناتا ہوں کہ حضور  نے فرمایا کہ ’’اگر بنی اسرائیل میں کوئی ایسا بدبخت پیدا ہوا جس نے اپنی ماں سے زنا کیا ہو تو تم میں سے بھی کوئی بدبخت ایسا ضرور پیدا ہو گا.‘‘ 

مراد یہ ہے کہ وہ تمام دینی‘ اعتقادی‘ فکری‘ علمی اور عملی خرابیاں جو سابقہ امت (یعنی بنی اسرائیل) میں پیدا ہوئیں‘ وہ سب اس امتِ مسلمہ میں بھی پیدا ہوں گی. حدیث کا متن حسب ذیل ہے: لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ کَمَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ اَتٰی عَلٰی اُمَّہٗ عَلَانِیَۃً لَـکَانَ فِیْ اُمَّتِیْ مَنْ یَّصْنَعُ ذٰلِکَ. 
’’میری امت پر بھی وہ تمام حالات وارد ہوں گے جو بنی اسرائیل پر ہوئے بالکل ایسے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے......... .‘‘

نہایت فصیح و بلیغ تشبیہ ہے. ایک جوتی دوسری جوتی سے مختلف نظر آئے گی لیکن ان کے تلووں کو جوڑئیے تو بالکل ایک ہوں گی. اسی طرح بنی اسرائیل اور امت مسلمہ کے احوال میں ظاہراً تو فرق موجود ہے اس لیے کہ بہرحال چودہ سوبرس کا فاصلہ ہے. چنانچہ ظاہری اعتبار سے کچھ نہ کچھ فرق ہے لیکن بین السطور دیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ سرِمُو کوئی فرق نہیں. تو وہ کیفیت جو قرآن مجید میں یہود کے بارے میں فرمائی گئی‘ ہم میں سے ہر شخص کو اپنے گریبان میں خود جھانکنا چاہئے کہ کہ کہیں ہم تو اس میں مبتلا نہیں ہیں؟ اور کہیں اس آئینہ میں ہمیں اپنی صورت تو نظر نہیں آرہی ہے! قرآن مجید میں یہود کو مخاطب کر کے فرمایا: اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَ تَـکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ. ’’ کیا تم کتاب اور شریعت کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے؟‘‘ فَمَا جَزَاءُ مَنْ یَفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُم اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا - تو کان کھول کر سن لو کہ ’’تم میں سے جوکوئی بھی یہ طرز عمل اختیار کرے گا اس کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میں ان کو ذلیل و خوار کر دیا جائے‘‘ اور وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِ ’’ اور قیامت کے دن ان کو شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے گا. ‘‘ (البقرہ: ۸۵یہ ہے اللہ کی وعید ان لوگوں کے لیے جو دین کے حصے بخرے کر لیں کہ زندگی کے ایک حصے میں تو دین پر چلوں گا اور جو دوسرے گوشے ہیں تو ان کے لیے عذرات کا پلندہ ہے کہ اجی کیا کروں؟ یہ تو مجبوری ہے یہ تو زمانے کاچلن ہے. یہ تو برادری کا رواج ہے. شادی بیاہ کی رسومات کا مسئلہ تو عورتوں سے متعلق ہے اس میں ہمارا کوئی بس نہیں چلتا. کاروبار چل نہیں سکتا جب تک بینکوں سے سودی لین دین نہ ہو‘ کیا کریں! مہنگائی بہت ہے‘گزارا مشکل ہے. بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا مسئلہ ہے‘ رشوت نہ لیں تو کام کیسے چلے گا؟ اب پردے کا رواج کہاں رہا ہے! ہم اپنی خواتین کوپردہ کرائیں گے تو دقیانوس اور رجعت پسند کہلائیں گے-یہ بہانے بنا کر ہم نے زندگی کو تقسیم کر لیا ہے کہ ایک حصہ میں تو شریعت کی پابندی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ حصہ بہت محدود ہے اور جو دوسرا وسیع تر حصہ ہے وہ شریعت سے آزاد ہے. تو قرآن مجید کی رُو سے اس پر تبصرہ وہ ہے جو میں نے سورۃ البقرہ کی آیت کے حوالہ سے ابھی آپ کو سنایا ہے.