اب تیسری آیت پر اپنی توجہات کو پوری طرح مرکوز فرمائیے. آیت مبارکہ ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَیْ الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عِنِ المنْکَرِ ؕ وَ اُوْلٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ 
اس آیت مبارکہ پر غور و فکر کرنے سے قبل بطورِ مقدمہ ایک اہم بات ذہن نشین فرما لیں ہم نے اب تک اِن دو آیات کا مطالعہ کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا .....الخ. ان کے مطالعہ سے یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ یہاں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ ایک اجتماعیت کی متقاضی ہیں اور ان پر اگر خلوص و اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ واقعۃً عمل کیا جائے تو اس کے نتیجہ میں لازماً ایک ’’اجتماعیت‘‘ وجود میں آتی ہے. اب آپ سے آپ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اجتماعیت کس مقصد کے لیے درکار ہے؟ ظاہر بات ہے کہ ہر کام کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے.

آپ کوئی چھوٹی سی انجمن بناتے ہیں تو اس کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط بنائے جاتے ہیں. لہذا غور طلب بات یہ ہے کہ ’’حبل اللہ‘‘ سے جڑ کر جو جمعیت وجود میں آئے گی اس کا مقصد کیا ہو گا؟ یہ ہے وہ بات جس کی اس آیت میں وضاحت فرمائی گئی کہ: وَلْتَـکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ اِس آیت کے دو ترجمے کیے گئے ہیں بعض کے نزدیک یہاں ’’مِنْ‘‘ بیانیہ ہے اور بعض کے نزدیک تبعیضیّہ ہے. یہ دونوں لغوی اصطلاحات ہیں. اِن پر فنی بحث کی بجائے اِن سے ترجمہ میں جو فرق واقع ہوتا ہے اسے سمجھنا چاہئے. مقدم الذکر تاویل کے اعتبار سے ترجمہ یہ ہو گا. ’’ تم سے ایک ایسی امت وجود میں آنی چاہئے‘‘. اور اگر یہاں مِنْ کو تبعیضیہ سمجھا جائے تو ترجمہ ہو گا. ’’تم میں سے ایک ایسی امت بھی وجود میں آنی چاہئے.‘‘میرے نزدیک یہ دونوں ترجمے صد فیصد درست ہیں. مسلمانوں میں اشتراک و اتحاد ہو اور وہ سب مل کر ایک امت بن جائیں جن کا کام کیا ہو. یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ’’تم سب امتوںمیں سے بہتر ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئیں. اچھے کاموں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو.‘‘لہذا اکثر مفسرین کی رائے میں یہاں ’مِنْ‘ بیانیہ نہیں بلکہ تبعیضیّہ ہے. یعنی اگر صورتِ حال یہ ہو جائے کہ پوری امت سو گئی ہو‘ پوری امت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ رہا ہو‘ پوری امت اپنے فرض منصبی کو فراموش کرچکی ہو تو اس صورت میں کیا ہونا چاہئے.

آگے بڑھنے سے قبل بطور جملہ معترضہ ایک بات عرض کرنی ہے. بات اگرچہ تلخ ہے لیکن امرواقعہ ! اور وہ یہ کہ اگرچہ نظری طور پر ہم دنیا کے تما مسلمانوں پر ’امت مسلمہ‘ کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں لیکن فی الحقیقت کوئی ایک ’ امت مسلمہ‘ اس وقت دنیا میں وجود نہیں رکھتی. فی الواقع یہاں بے شمار قومیں ہیں جن کو مسلم اقوام (MUSLIM NATIONS) کہنا زیادہ مناسب ہو گا. علامہ اقبال کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ اِس صدی میں وحدت ملی کا ان سے بڑا حدی خواں کوئی نہیں تھا ؎

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا 

اور 

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر

لیکن اس صدی کے وحدت ملی کے سب سے بڑے حدی خواں یعنی علامہ اقبال کو بھی اپنے لیکچرز’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘ میں یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ اِس وقت دنیا میں کوئی اُمت مسلمہ ایک اکائی اور اتحاد کے اعتبار سے موجود نہیں ہے_ بلکہ حقیقی یعنی 
DE-FACTO پوزیشن یہ ہے کہ ’’مسلمان اقوام‘‘ (MUSLIM NATIONS) موجود ہیں اور یہ بھی آج سے نصف صدی سے پہلے کی بات تھی. اغلباً علامہ کے لیکچرز ۱۹۳۰ ؁ کے ہیں. اب تو صورت حال مزید خراب ہو کر نوبت بایں جا رسید کہ کسی مسلمان ملک میں ایک ’’قوم‘‘ (Nation) نہیں رہی بلکہ وہ بھی کئی قومیتوں کے اندر منقسم ہے. دنیا میں پاکستانی ایک قوم شمار کیے جاتے ہیں. لیکن آپ کو معلوم ہے کہ صوبوں کی بنیاد پر یہاں پانچ قومیتوں کے تصور کو شروع ہی سے اُبھارا جاتا رہا ہے.

جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان بنگلہ قومیت کی بنیاد پر بنگلہ دیش بن گیا اور غیر بنگالی مسلمانوں کو وہاں تہہ تیغ کیا گیا.پھر اِس موجود پاکستان میں کوئی صوبہ بھی ایسا نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ اس کے اندر صرف ایک قوم آباد ہے. کیا بلوچستان میں جہاں بلوچ ہیں وہاں بروہی نہیں ہیں! کیا وہاں پٹھان موجود نہیں ہیں. کم از کم تین بڑی قومیں اس ایک صوبے کے اندر بستی ہیں. یہی معاملہ پاکستان کے بقیہ صوبوں کو ہے -!! اور تو اور ایک عربی زبان بولنے والے عرب نہ معلوم کتنی قومیتوں میں منقسم ہیں-تو حقیقت یہی ہے اگرچہ بڑی تلخ ہے کہ آج ’’ایک اُمّتِ مسلمہ‘‘ بالفعل موجود نہیں ہے.

وہ تو ہمارا صرف ایک ذہنی تصور ہے کہ اُمت مسلمہ یا امت محمد علی صاحبہا الصلوۃ والسلام فی الواقع اپنا وجود رکھتی ہے اور اس ذہنی تصور کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ جو بھی حضور ؐ کا کلمہ پڑھتا ہے وہ حضور کا امتی ہے! یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے ‘ لیکن غور کیجئے کہ کیا امت مسلمہ مربوط ہے؟ کیا اس کی کوئی اجتماعیت ہے؟ کیا اِس میں کوئی ڈسپلن ہے؟ کیا اس میں کوئی کسی کا حکم سننے اور ماننے والا ہے؟ مجھے افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ ایسی صورت حال موجود نہیں ہے.

آج افغانستان میں روسی فوج افغانوں کا قتل عام کر رہی ہے لیکن کیا روسی فوج کے ساتھ افغان فوج نہیں ہے! کیا وہ اپنے بھائیوں کے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگ رہی اور اپنے ہاتھوں اپنے بھائیوں کے گلے نہیں کاٹ رہی! ایران اور عراق کی جو جنگ ہو رہی ہے کیا یہ مسلمان کہلانے والے دو ملکوں کی جنگ نہیں! ستم یہ ہے کہ عراق کی قریباً نصف آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے. دنیا جانتی ہے کہ ایران کی غالب اور عظیم اکثریت اہل تشیع ہی کی ہے. لہذا مذہبی اعتبار سے عراق کی نصف کے قریب آبادی ایران کی ہم مذہب ہے. لیکن سات سال ہونے کو آئے اور یہ جنگ تاحال جاری ہے اور دونوں اطراف سے شدید مالی و جانی نقصان ہو رہا ہے. دوسرے مسلم ممالک کی وہ تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں جو اِس جنگ کو بند کرانے کے لیے کی جارہی ہیں.(واضح رہے کہ یہ تحریر ۱۹۸۵؁ کی ہے) سنیوں اور شیعوں کا جو مسلح خونیں تصادم لبنان میں ہوا وہ کسی اخبار بین شخص سے پوشیدہ نہیں ہے! وہ مظالم جو کبھی عیسائی ملیشیا نے مسلمانوں پر ڈھائے تھے‘ وہی مظالم شیعہ ملیشیا نے فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر ڈھائے ہیں.

یہ تمام ہنگامے بتا رہے ہیں کہ ایک اُمت مسلمہ بالفعل کہیں موجود نہیں ہے. لہذا اِن حالات میں یہ آیت خوب سمجھ میں آتی ہے کہ جب پُوری امت سوئی ہوتی ہو‘ یا مختلف قومیتوں میں بٹی ہوئی ہو یا اس نے مختلف سمتوں کی طرف اپنے اپنے قبلے بنالیے ہوں تو ایسی صورت میں اس امت کے اندر کوئی چھوٹی امت لازماً ایسی وجود میں آنی چاہئے جو اس قرآنی ہدایت پر عمل پیرا ہو جو آیۂ زیر بحث میں بیان کی گئی ہے. وہ ہدایت کیا ہے؟ اِس پر گفتگو ذرا آگے چل کر ہو گی. ہو سکتا ہے یہاں بعض لوگ چونکیں کہ یہ بڑی امت کے دائرے کے اندر ’’چھوٹی امت‘‘ کا کیا تصور ہے‘ آپ نے ریاست میں ریاست (State within State) یا Party within Party کی اصطلاح ضرور سنی ہو گی جو لوگ میری عمر کے ہیں یا مجھ سے بڑے ہیں ان کو معلوم ہو گا کہ کانگریس ایک بہت بڑی پارٹی تھی لیکن اس کا فاروڈ بلاک (Forward Block) علیحدہ تھا‘ جو زیادہ انقلابی طرزِ فکر کے حامل لوگوں پر مشتمل تھا. انہوں نے کانگریس میں شامل ہونے کے باوجود سبھاش چندر بوس کی قیادت میں اپنا جداگانہ بلاک بنا رکھا تھا.

اسی طرح آج جو امت مسلمہ ہے وہ محض ایک نظری حقیقت بن کر رہ گئی ہے‘ جس کی کوئی واقعاتی حقیقت نہیں ہے. تو اس بڑی امت میں ایک چھوٹی امت ایسے لوگوں پر مشتمل وجود میں آئے جنہوں نے کسی نہ کسی درجہ میں اس سیڑھی پر قدم رکھا ہو جس کا حکم پہلی آیت میں آیا تھا. یعنی وہ لوگ دولتِ تقویٰ سے مالا مال ہوں-میں پھر عرض کر دوں کہ تکمیل کا کوئی دعویدار نہیں ہو سکتا. جو کمی ہو اسے پورا کرنے کی وہ مسلسل کوشش کر رہے ہوں-اور پھر یہ کہ انہوں نے دوسری آیت کا تقاضا بھی کسی قدر پورا کیا ہو یعنی انہوں نے اپنے آپ کو قرآن سے منسلک کر لیا ہو. اس طرح وہ باہم ایک دوسرے سے مل کر ایک اجتماعی طاقت وجود میں لائیں. اس اجتماعیت کا مقصد کیا ہو! اس کے لیے یہاں تین چیزوں کا تعین کیا گیا!

پہلا مقصد ’’یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ‘‘ یعنی دعوت الی الخیر-نیکی اور بھلائی کی طرف لوگوں کو بلانا.

دوسرا مقصد-نیکی اور بھلائی کا حکم ’’ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ‘‘- اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیر کی دعوت اور خیر کا حکم! کیا یہ ایک ہی چیز ہے جس کا اعادہ کیا جارہا ہے! معاذ اللہ‘ قرآن مجید میں کسی ایک ہی مقام پر اس طرح کا اعادہ جو تکرارِ محض کے ضمن میں آئے ممکن نہیں ہے. چنانچہ یہاں ہمیں ’’دعوت الی الخیر‘‘ اور ’’امر بالمعروف‘‘ کے مصداق کا الگ الگ تعین کرنا ہو گا. غالب امکان یہ ہے کہ یہاں دعوت الی الخیر سے مراد قرآن کی طرف دعوت ہے. چونکہ قرآن کی رو سے سب سے بڑا خیر خود قرآن مجید ہے. اس کی دلیل یہ ہے کہ سورۂ یونس کی آیات ۵۷ اور۵۸ میں قرآن مجید نے نہایت پُرشکوہ اسلوب سے اپنی عظمت کو بیان کیا ہے. مؤخر الذکر آیت کے آخر میں قرآن اپنے متعلق کہتا ہے: ’’ ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُوْنَ ‘‘ یعنی ’’یہ جو کچھ جمع کر رہے ہیں وہ (قرآن) اِن سب سے بہتر ہے.‘‘قرآن مجید دنیوی دولت کو بھی خیر کہتا ہے. مثلاً سورۃ العادیات میں فرمایا: ’’ وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ ‘‘ یعنی ’’انسان مال و دولت کی محبت میں بہت شدید ہے. ‘‘ لیکن سورۃ یونس میں قرآن اپنے لیے کہتا ہے کہ جو کچھ بھی تم دنیوی مال و اسباب جمع کرتے ہو ان سب سے کہیں قیمتی شے خود قرآن ہے. ’’ھُوَ خَیْرٌ مِّمِّا یَجْمَعُوْنَ ‘‘ یہاں دعوت الی الخیر سے مراد ہے قرآن مجید کی طرف دعوت ! -اور امر بالمعروف اب عام ہو جائے گا. نیکی‘ بھلائی‘ خیر کی تلقین کرنا‘ اس کی وضاحت کرنا‘ اس کا مشورہ دینا‘ اس کا حکم دینا. ’’امر‘‘ کے لفظ میں یہ تمام مفاہیم موجود ہیں. پہلا امکان اور فرق تو یہ ہے.

دعوت الی الخیر‘ اور امر بالمعروف کے مصداق میں. دوسرا فرق یہ ہے کہ دعوت میں تحکمانہ انداز بالکل نہیں ہوتا. دعوت میں صرف تلقین ہوتی ہے‘ نصیحت ہوتی ہے بلکہ خوشامد بھی ہوتی ہے کہ خدا کے لیے یہ کام برا ہے اسے چھوڑ دیجئے اور بھائی یہ کام اچھا ہے‘ آئیے اور اس کو کیجئے. اس انداز اور طریقہ سے آپ لوگوں کو بلاتے ہیں کہ اگر آپ یہ کام کریں گے تو آپ کو آخرت میں یہ اجر و ثواب ملے گا. دعوت کا درحقیقت یہی انداز ہوتا ہے. اس میں تحکمانہ انداز نہیں ہوا کرتا. لہذا یہاں علیحدہ کر دیا گیا: ’’یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ‘‘ خیر کی طرف بلاؤ‘ بڑی نرمی سے بلاؤ خیر خواہی کے جذبہ سے بلاؤ. چنانچہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علی نبیّنا و علیھما الصلوۃ والسلام) سے فرمایا گیاتھا: ’’ اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿ۚۖ۴۳﴾فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی ﴿۴۴﴾ ‘‘ دونوں جلیل القدر پیغمبروں کو حکم دیا گیا کہ ’’ فرعون کے پاس جائو وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے‘‘ فرعون کون ہے !دشمنِ خدا اور خود خدائی کا مدعی. مگر حکم دیا جارہا ہے کہ ’’لیکن اس سے نرم انداز سے بات کرنا (سختی کا انداز اختیار نہ کرنا) شاید کہ وہ نصیحت پکڑے اور اس کے دل میں بات اتر ہی جائے‘‘ (سورۃ طٰہٰ: ۴۳۴۴) تو یہ ہے دعوت کا انداز. لیکن اس سے آگے کا قدم ہے ’’امربالمعروف‘‘ یعنی نیکی کا حکم دینا -غور کیجئے کہ یہ اصطلاح سب سے پہلے کب وارد ہوئی ! سورۃ الحج میں جب اہل ایمان کو تمکن فی الارض کی نوید کی سنائی گئی: 

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَ مَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ (الحج: ۴۱)
یعنی ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہیں اگر ہم زمین میں تمکن عطا کر دیں‘ (اقتدار بخش دیں) تو وہ نماز کا نظام قائم کریں گے‘ زکوٰۃ ادا کریں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے‘‘ .یہاں تحکم کا انداز ہے نیکی کو قوت اور طاقت کے ساتھ رائج کرنا‘نافذ کرنا.یہ ہے دراصل دعوت سے اگلا قدم!

اب تیسری بات پر آئیے جو بدقسمتی سے ہمارے بہت سے نیک لوگوں کے ذہن سے بھی آج بالکل خارج ہو چکی ہے. وہ بات ہے: ’’نہی عن المنکر‘‘ یعنی بدی سے روکنا -ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس بھلائی کی تلقین سے کام چل جائے گا. صرف نیکی کا وعظ کہنے سے بات بن جائے گی. حالانکہ میں قرآن مجید کے کم از کم نو ایسے مقامات کا حوالہ دے سکتا ہوں جہاں گاڑی کے دو پہیوں کی طرح یہ دونوں اصطلاحات بالکل ساتھ ساتھ اور جوڑے کی شکل میں آئی ہیں مثلاً : ’’وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ ‘‘ یعنی نیکی کا حکم دو اور بدی سے روکو (لقمان : ۱۷بدی سے روکنا کتنا اہم ہے اس کو دو حدیثوں سے سمجھئے. میں وقت کی کمی کے باعث صرف مختصر تشریح پر اکتفا کروں گا-یہ دونوں مسلم شریف کی روایات ہیں‘ صحیح مسلم کا کتب احادیث میں کیا مقام ہے! اِسے بیان کرنے کی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا مجھے یقین ہے کہ تمام ذی شعور مسلمان ’صحیح مسلم‘ کے مقام و مرتبہ سے بخوبی واقف ہوں گے -پہلی حدیث کے راوی ہیں حضرت ابو سعید الخدریؓ اور مجھے توقع ہے کہ یہ حدیث آپ میں سے اکثر نے سنی ہو گی. لہذا اس کا تو صرف متن کے ساتھ ترجمہ کر دوں گا. لیکن دوسری حدیث اس قدر زیادہ عام نہیں ہے‘ حالانکہ اس کے راوی ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ . اور فقہ حنفی دراصل فقہ عبداللہ بن مسعود ہی ہے‘ اس لیے کہ امام ابو حنیفہؒ دو واسطوں سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد ہیں. لہذا درحقیقت انہی کی فقہی آراء ہیں کہ جنہوں نے فقہ حنفی کی شکل اختیار کی. 

پہلی حدیث کے راوی ہیں حضرت ابوسعید الخدریؓ ‘ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: ’’مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہٗ بِیَدِہٖ‘‘ ’’تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھ اُس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے یعنی طاقت سے بدل ڈالے.‘‘ ’’وَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘‘. لیکن اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو (اُس کے پاس قوت و طاقت نہ ہو) تو اسے زبان سے روکے‘‘ اس کی مذمت کرے‘ اس پر تنقید کرے گویا ’’زبان سے اُسے بدلنے کی کوشش کرے.‘‘ ’’وَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘‘ ’’ اور اگر اِس کی استطاعت بھی نہ رکھتا ہو.‘‘ یعنی زبانوں پر بھی قدغنیں لگا دی گئی ہوں‘ زبانوں پر بھی پہرے ہوں تو فَبِقَلْبِہٖ ’’پھر اپنے دل سے‘‘ یعنی کم سے کم دل میں ایک گھٹن تو محسوس کرے‘ قلب میں ایک کرب‘ صدمہ اور رنج کی کیفیت تو ہو. حضور  نے اس آخری کیفیت کے بارے میں فرمایا: ’’وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ‘‘ ’’ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے.‘‘

اب میں آپ سے اس حدیث پر غور کرنے کی درخواست کرتا ہوں. دیکھئے! اِس میں پہلی اہم بات تو یہ کہ اس میں ’امر بالمعروف‘ کا ذکر موجود ہی نہیں ہے. سارا زور ’نہی عن المنکر‘ پر ہے. ایک اسلامی نظامِ حکومت قائم نہیں ہے اور منکرات کو فروغ ہو رہا ہے تو بندۂ مومن پر واجب ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ حق کی بات کہے‘ منکرات کے خلاف تنقید کرے‘ زبان و قلم سے اِن منکرات کو بدلنے کی سعی کرے. لیکن ایک شخص کمزور ہے‘ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے منکرات کے خلاف آواز اٹھائی‘ زبان کھولی تو اول تو معاشرہ ہی میرا استہزاکرے گا‘ مذاق اُڑائے گا پھر ہو سکتا ہے کہ حکومت وقت مجھے اس پر قید کر کے جیل میں ٹھونس دے. لہذا وہ زبان سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں پاتا. لیکن وہ ان منکرات کے خلاف دل میں چبھن اور گھٹن محسوس کرتا ہے‘ اِن منکرات پر کڑھتا ہے تب بھی حضورؐ کے ارشاد کے بموجب اس کے دل میں ایمان ہے تو سہی لیکن کمزور ترین ایمان. ’اضعف‘ افعل التفضیل کا صیغہ ہے. یعنی ایمان کی کمزوری اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے.

چنانچہ اِسی مضمون کی دوسری روایت کے آخری حصہ میں ’’وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَان‘‘ کے بجائے یہ الفاظ آئے ہیں کہ: ’’وَلَیْسَ وَرَآءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ ‘‘ یعنی اگر ان تین حالتوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے تو ایسا شخص جان لے کہ اس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان موجود نہیں ہے-البتہ یہ تینوں کیفیتیں ایسی نہیں ہیں کہ جن کے لیے خارج میں آپ کوئی ضابطہ بنا سکیں بلکہ اس کا سارا معاملہ انسان کے اپنے ایمان و یقین پر ہے. اس کے اندر کتنا یقین (CONVICTION) ہے. اس کے اندر دین کے لیے کتنی غیر اور حمیت ہے! اس کا دارومدار اُس پر ہے. اس لیے کہ کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسے ماں کی گالی دی جائے اور وہ چُپ کھڑا رہے. اس کا یہ طرزِ عمل غمازی کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس کے اندر جرأت و ہمت نہیں ہے بلکہ غیرت و حمیت کا فقدان ہے -لیکن کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسے ماں کی گالی دی جائے تو اگر اس میں ہمت نہیں ہے‘ مگر غیرت و حمیت موجود ہے تو کم از کم یہ لازماً ہو کر رہے گا کہ اس کے جسم کا سارا خون اس کے چہرے پر آجائے گا. وہ کچھ اور نہیں کر سکے گا تو اپنی جگہ کھڑا ہوا کانپنے لگے گا اور لرزے گا اور دل ہی دل میں انتہائی کرب ‘ صدمہ اور رنج محسوس کرے گا. غیرت و حمیت کا کم سے کم تقاضا یہ تو ہر ایک تسلیم کرے گا کہ اس کا چہرہ سرخ ہو جائے‘ وہ تھر تھرائے اور دل میں کرب و اضطراب محسوس کرے اور اس میں کوئی دَم بھی ہے‘ طاقت بھی ہے تو وہ اس شخص کو یونہی جانے نہیں دے گا جس نے اسے ماں کی گالی دی ہے. 

اس مثال سے آپ اس بات کو سمجھئے کہ جن میں اللہ کے دین کی زیادہ غیرت و حمیت ہو گی‘ وہ اپنی کمزوری کے باوجود ڈٹ جائیں گے. زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ جیلوں میں ٹھونس دئیے جائیں گے یا پھر یہ کہ لاٹھیوں اور گولیوں کی بوچھاڑ سہنی پڑے گی. یاآخری درجہ میں جان کا نذرانہ دینا پڑے گا. اس زندگی کا اس سے بہتر مصرف اور کیا ہو سکتا ہے کہ اسے اللہ کی راہ میں کھپا دیا جائے ؎

جان دی‘ دی ہوئی اسی کی تھی!
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!

حدیث کا آخری ٹکڑا 
’’ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَان‘‘ یہ بتا رہا ہے کہ اصل مطلوب اور غیرت و حمیت دینی کا تقاضا یہ ہے کہ بدی کے خلاف طاقت فراہم کی جائے اور اس کا استیصال کیاجائے .

اب دوسری حدیث کی طرف آئیے. یہاں اس بات کو نبی اکرم  نے اور زیادہ نکھار کر بیان کیا ہے. جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اس کے راوی ہیں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ -وہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: ’’مَا مِنْ نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ‘‘ - یعنی ’’مجھ سے پہلے اللہ نے جس امت میں کسی نبی کو مبعوث فرمایا‘‘ ’’ اِلَّا کَانَ لَــہٗ مِنْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّونَ وَاَصْحَابٌ‘‘ ’’تو اس کی امت میں اس کے حواری اور اصحاب ہوتے تھے‘‘ -حواری کا لفظ خاص طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لیے آتا ہے جیسے: ’’ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ ‘‘ اور نبی اکرم  کے ساتھیوں کے لیے صحابہ یا اصحاب کا لفظ آتا ہے . حضورؐ نے یہاں دونوں الفاظ یعنی حواریوں اور اصحاب کو جمع کر لیا-وہ کیا کرتے تھے؟ ’’یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ‘‘ ’’ وہ اپنے نبی کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے اور نبی علیہ السلام کا جو بھی حکم ہوتا تھا اس کی پیروی کرتے تھے ‘‘ - ’’ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ‘‘ - ’’پھر ان کے بعد ان کے ایسے جانشین آتے تھے جو نالائقاور ناخلف ہوتے تھے‘‘. گویا ایک دو یا تین نسل تک تو معاملہ بڑی حد تک ٹھیک ٹھاک چلتا تھا. میں نے ایک دو نسل کیوں کہا؟ یہ بھی حضورؐ کی ایک حدیث میں آیا ہے. ’’خَیْرُ اُمَّتِی قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ‘‘ یعنی میری امت کا بہترین دور میرا دور ہے پھر ان لوگوں کا جو میرے اصحاب سے ملیں گے پھر ان لوگوں کا جو میرے اصحاب سے ملنے والوں سے ملیں گے.

ان ادوار کو ہم’’قُرُوْنٌ مَّشْھُوْدٌ لَّھَا بِالْخَیْرِ ‘‘ کہتے ہیں گویا حضورؐ اور صحابہ کرامؓ کا زمانہ بہترین ہے. پھر دوسرے نمبر پر تابعین کا زمانہ ہے اور اس کے بعد درجہ ہے تبع تابعین کے عہد کا! -اب پھر حدیث زیر بحث کی طرف رجوع کیجئے‘ فرمایا: ’’ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ ‘‘ ایک ایک لفظ پر غور کیجئے -حضورؐ نے فرمایا ’’ان کے بعد ان کے ایسے جانشین آجاتے تھے جو ناخلف اور نالائق ہوتے تھے‘‘ ’’ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ ‘‘ ’’وہ کہتے تھے جو کچھ کرتے نہیں تھے‘‘. ’’وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ ‘‘. ’’اور کرتے وہ کام تھے جن کا انہیں حکم نہیں ہوا تھا‘‘. یہاں اشارہ بدعات کی طرف ہے گویا دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد کر لی گئی ہیں‘ نئے نئے طریقے اختراع کر لیے گئے ہیں. یہ اصول پیش نظر رکھیے کہ جو بدعت بھی آئے گی وہ کسی نہ کسی سنت کو ہٹا کر اس کی جگہ لے گی. یہ ممکن ہی نہیں کہ بدعت آئے اور سنت رخصت نہ ہو -ان ناخلف اور نالائق جانشینوں کے متعلق حضورؐ نے بڑا خوبصورت اور جامع پیرایہ بیان اختیا فرمایا. ’’یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَالَا یُؤْمَرُوْنَ‘‘ - آگے بڑھنے سے قبل پہلے تو یہ غور کیجئے کہ ہم کس دور میں ہیں! آیا ہم اُس دور میں بس رہے ہیں جس کا ذکر پہلے کیا گیا یا اُس میں جس کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے. اب تو پندرہویں صدی ہجری شروع ہو چکی ہے -جس کے متعلق مشہور تبع تابعی‘ محدث اور اپنے دور کے عالم باعمل اور مجاہد فی سبیل اللہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے اپنے اس شعر میں رہنمائی کی ہے: ؎

وما افسد الدین اِلَّا الملوک
واحبارُ سوء و رھبانُھا 

یعنی دین میں جو خرابی بھی آتی ہے وہ تین اطراف سے آتی ہے -بادشاہوں کی طرف سے‘ 
علماء سو یعنی برے علماء کی طرف سے‘ اور برے صوفیوں کی طرف سے! ایک تو علماء حقانی ہیں جو واقعی اللہ کے دین کو عام کرتے ہیں. اس پر خود بھی چلتے ہیں اور لوگوں کو بھی چلاتے ہیں. ایک وہ اللہ والے صوفیاء ہیں جو اللہ ہی کے راستے پر چلنے اور چلانے والے ہیں. لیکن اس بازار میں تو ہر طرح کے لوگ موجود ہیں. جہاں علماء حقانی ہیں وہاں علماء سو بھی ہیں. جہاں دین و شریعت پر عامل صوفیا ہیں وہاں ظاہر دار صوفی بھی ہیں. حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کی تشخیص کے مطابق دین میں خرابی ان تین اطراف سے آتی ہے اور انہوں نے ان خرابیوں کا بنفسِ نفیس کسی قدر مشاہدہ کیا ہو گا جب ہی تو یہ تشخیص کی تھی. تو اندازہ کیجئے کہ ہم تو پندرہویں صدی میں بیٹھے ہیں تو خرابیوں کے اعتبار سے ہم کس مقام پر ہیں! -آگے نبی اکرم  فرماتے ہیں ’’فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘‘ ’’جو کوئی ایسے ناخلف لوگوں سے جہاد کرے گا اپنے ہاتھ سے پس وہ مومن ہے‘‘. ’’وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ‘‘’’اور جو ایسے لوگوں سے جہاد کرے گا اپنی زبان سے پس وہ مومن ہے‘‘ ’’ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘‘ ’’اور جو ایسے نالائقوں کے خلاف اپنے دل سے جہاد کرے گا یعنی ان کے افعال پر اپنے دل میں کرب اور صدمہ محسوس کرے گا اور مضطرب اور بے چین رہے گا پو وہ (بھی) مومن ہے‘‘ -اور آخر میں حضور نے فرمایا : ’’وَلَیْسَ وَرَآءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ ‘‘ اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے‘‘ . حضورؐ کے اس ارشاد کے آخری حصے پر غور کیجئے ! یہ لرزہ طاری کر دینے والی وعید ہے. اگر ان تین حالتوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے تو ’الصادق والمصدوق‘ شافع محشر  ایسے شخص کے ایمان کی نفی فرما رہے ہیں. یہ واضح رہے کہ یہاں حقیقی ایمان کی نفی مراد ہے قانونی طور پر نفی نہیں ہے اور یہ دل کا معاملہ ہے. ظاہر بات ہے کہ دل اور نیت کے معاملات کے متعلق اس دنیا میں کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا.

یہ فیصلہ تو اُخروی عدالت میں ہو گا‘ جس کے متعلق سورۃ التغابن میں فرمایا: ’’ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنْ ‘‘ یعنی ’’آخرت کا دن ہے اصل ہار جیت کے فیصلے کا دن‘‘-اس حدیث شریف کے ایک اہم نکتہ کی جانب توجہ کیجئے! -اس حدیث میں ’’ھم ‘‘ کی ضمیر مفعولی انتہائی قابلِ غور ہے. نبی اکرم  ان ناخلف جانشینوں کے خلاف جہاد کی تاکید فرما رہے ہیں جو مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر منکرات کو فروغ دے رہے ہوں‘ جن کے طور طریقے منکرات پر مشتمل ہوں‘ جو ذرائع ابلاغ کو منکرات کی تشہیر و اشاعت کے لیے استعمال کر رہے ہوں‘ جو ملک بھر میں ایسے تمام اداروں کی دامے‘ درمے‘ سخنے سرپرستی کر رہے ہوں‘ جو منکرات کے فروغ میں دن رات مصروف ہوں. جن کی مساعی کی بدولت معروفات معاشرہ میں سسک رہی ہوں اور وہ سنڈاس بن گیا ہو -ساتھ ہی ان علماء سوء کے اور ان نام نہاد صوفیاء کے خلاف بھی جہاد کی تاکید اس حدیث میں تبعاً موجود ہے جو مسندِ افتاء و ارشاد پر بیٹھے ان منکرات کو دیکھ رہے ہوں اور نہ صرف مہر بلب بلکہ اقتدار وقت کے اعوان و انصار بنے ہوئے ہوں.