سورۃ العصر کے بارے میں چار بنیادی باتیں

سب سے پہلے اس سورۂ مبارکہ کے بارے میں چار بنیادی باتیں ذہن نشین کر لیجئے:

۱) ایک یہ کہ ترتیب نزولی کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کی اوّلین سورتوں میں سے ہے. گویا کہ یہ آنحضو رصلی اللہ علیہ وسلم پر مکی دور کے بالکل آغاز میں نازل ہوئی.

۲) دوسرے یہ کہ یہ قرآن مجید کی مختصر ترین سورتوں میں سے ہے. اس لیے کہ یہ کل تین آیات پر مشتمل ہے اور ان میں سے بھی پہلی آیت صرف ایک لفظ پر مشتمل ہے، یعنی ’’والعصر‘‘.

۳) تیسرے یہ کہ اپنے مضمون اور مفہوم و معنی کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کی جامع ترین سورت ہے، اس لیے کہ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے (ھُدًی لِلنَّاسِ) ، یعنی انسان کو کامیابی اور فوز و فلاح کا راستہ دکھانے کے لیے نازل کیا گیا ہے، تاکہ انسان نجات (SALVATION) کو حاصل کر سکے اور واقعہ یہ ہے کہ قرآن حکیم نجات کی جس راہ کی جانب لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے وہ نہایت اِختصار لیکن حد درجہ جامعیت کے ساتھ اس چھوٹی سی سورت میں بیان ہو گئی ہے. اس اعتبار سے مجھے ایسا محسوس ہوتاہے جیسے پورا قرآن مجید ایک درخت کی مانند ہے اور یہ چھوٹی سی سورت اُس کا بیج ہے اور جس طرح ایک بیج میں پورا درخت پنہاں ہوتا ہے، اسی طرح سورۃ العصر میں پورا قرآنِ حکیم موجود ہے.

یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اُن میں سے دو حضرات کی ملاقات ہوتی تھی تو وہ جدا ہونے سے قبل ایک دوسرے کو سورۃ العصر ضرور سنایا کرتے تھے. اوریہی سبب ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سورۂ مبارکہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر لوگ صرف اس ایک سورت پر غور کریں تو یہ اُن کی ہدایت کے لیے کافی ہے، بلکہ ان کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اس سورت کے سوا اور کچھ نازل نہ ہوتا تو یہی ایک سورت لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی.

۴) چوتھے یہ کہ اس سورت کے الفاظ بہت سادہ اور آسان ہیں. آپ کو معلوم ہے کہ ہر زبان میں اس کے ادب کے شاہکار وہ اَدب پارے قرار دیئے جاتے ہیں جن میں مضامین اور معانی تو بہت اعلیٰ اور بلند پایہ ہوں لیکن الفاظ نہایت آسان اور عام فہم ہوں. ایسے ہی ادب پاروں کو ’’سہل ممتنع‘‘ قرار دیا جاتا ہے. تو واقعہ یہ ہے کہ اوّل تو پورا قرآن مجید ہی عربی زبان کا اعلیٰ ترین ادبی شاہکار ہے اور کل کا کل ہی سہل ممتنع ہے، لیکن اس میں بھی خاص طور پر یہ سورۂ مبارکہ توسہل ممتنع کی اعلیٰ ترین مثال ہے جس میں مضامین کے اعتبار سے تو گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے، لیکن ثقیل اور بھاری بھرکم لفظ ایک بھی استعمال نہیں ہوا.

یہاں تک کہ ایک عام اُردو دان شخص کے لیے بھی اس میں کوئی لفظ نہ مانوس ہے نہ مشکل. مثلاً اس کا پہلا لفظ ’’والعصر‘‘ ہے اور عصر کا لفظ ہماری عام بول چال میں استعمال ہوتا ہے، جیسے عصر حاضر، ہمعصر لوگ وغیرہ. اسی طرح انسان کا لفظ تو گویا ہے ہی اُردو کا. پھر خُسر کو دیکھیے تو خسارہ، خسران وغیرہ الفاظ کا ہم عام استعمال کرتے ہیں. اسی طرح ایمان، عمل صالح، حق اور صبر بھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ ہماری ہی زبان کے الفاظ ہوں. بعض حروف جیسے اِنَّ لَفِیْ اور اِلاَّ کے علاوہ صرف ایک لفظ یعنی تَوَاصَوْ ذرا نامانوس ہے، لیکن اس کا بھی مصدر یعنی وصیت ہماری بول چال میں بکثرت استعمال ہوتا ہے.ـ